پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کی خود کو نظامِ عدل سے بالاتر سمجھنے اور اُس پر تنقید کرنے کی روش پرانی ہے۔ جمہوری آزادی کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ سیاستدان آئینِ پاکستان کے خلاف جا کر کوئی اقدام کریں بلکہ عوام اُنہیں اپنا ووٹ آئین پاکستان کے تحفظ کے لیے دیتے ہیں۔ قانون پر عمل کرنا ہر شہری کا فرض ہے اور ہماری سیاسی اشرافیہ جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کرے گی اتنی ہی جلدی اس کی مشکلات میں کمی آ سکے گی۔ میں نے پچھلے کالم میں ذکر کیا تھا کہ عام آدمی کا قانون پر اعتماد بحال کرنے کے لیے خود کو قانون سے بالاتر سمجھنے والوں کا احتساب ضروری ہے۔ حال ہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے عمران خان پر فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید تحریک انصاف کے سربراہ نے حالات سے ابھی تک کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس لیے آنے والے دنوں میں نہ صرف اُن کی گرفتاری کے امکانات موجود ہیں بلکہ انہیں نااہل بھی کیا جا سکتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ خان صاحب کی عوامی مقبولیت میں روز بروزاضافہ ہو رہا ہے اور عین ممکن ہے کہ وہ اگلا الیکشن جیت بھی جائیں لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ عمران خان دوبارہ وزیراعظم بھی بن جائیں گے۔ اگر حالات و واقعات پر نظر دوڑائیں تو معاملے کو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ نواز شریف (ن) لیگ کے پارٹی سربراہ بھی تھے اور پاکستان کے وزیراعظم بھی لیکن عدالت سے سزا ملنے کے بعد اُن کی جماعت تو اقتدار میں آگئی ہے مگر وہ خود وزیراعظم نہیں بن پائے۔ ایسا مستقبل میں تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے جسے چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں قبول کرنا ہی پڑے گا۔ پاکستان کی سیاست میں اَنہونیاں بھی ہوتی رہتی ہیں بلکہ عوام بھی اب ذہنی طور پر تیار دکھائی دیتے ہیں کہ ہر دو تین برس بعد سیاست میں کوئی نیا ایڈونچر دیکھنے کو مل سکتا ہے۔ آنے والے دنوں میں سیاسی حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن معاشی حالات کے بارے میں صورتحال کافی واضح ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
ایک طرف سیلاب نے ملکی معیشت کو مزید بے حال کر دیا ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف نے حکومت کو درآمدات اور برآمدات کو متوازن رکھنے کا حکم بھی دے رکھا ہے جس کا جائزہ ہر سہہ ماہی کے اختتام پر لیا جائے گا۔ ملکی برآمدات اور درآمدات کے اگست کے اعداد و شمار حوصلہ افزا نہ ہونے کی وجہ سے دوست ممالک کی طرف سے فوراً سرمایہ کاری کی کوئی اُمید نہیں ہے۔ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کی جانب سے کیے گئے وعدوں پر بھی عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسی صورت میں حکومتِ پاکستان ایک مرتبہ پھر چین کی طرف دیکھنے لگی ہے اور اسی سلسلے میں آنے والے دنوں میں وزیراعظم پاکستان چین کے دورے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں لیکن اس سے پہلے چینی آئی پی پیز کو 50ارب روپوں کی ادائیگی ناگزیر ہو چکی ہے۔ چین کس حد تک پاکستان کی مدد کرتا ہے موجودہ حالات میں اس حوالے سے زیادہ امیدیں نہیں لگانی چاہئیں۔ حال ہی میں چین نے تقریباً اڑھائی ارب ڈالرز پاکستان کو دیے ہیں جو کہ ایک ہفتے میں ہی خرچ کر لیے گئے۔ ذہن نشین رہے کہ وزیراعظم کے قطر اور متحدہ عرب امارات کے حالیہ دورے کے دوران کیش میں قرض یا امداد نہیں مل سکی تھی۔ صرف سرمایہ کاری کے وعدے کیے گئے تھے وہ بھی ابھی تک پورے نہیں ہو سکے۔ ممکنہ طور پر چین بھی سرمایہ کاری کا کوئی ماڈل پیش کر سکتا ہے لیکن پاکستان کو اس وقت سرمایہ کاری کے بجائے کیش فنڈز کی ضرورت ہے جس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ سکیں‘ ادائیگیوں میں توازن برقرار رہ سکے اور ڈالر پر قابو پایا جا سکے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف قرض ملنے کے بعد ڈالر کی قیمت میں تقریباً دس روپے سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور ستمبر کے آخر تک یہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ڈالر کی قیمت 239 روپے سے کم ہو کر 214روپے تک گر گئی تھی تو ایسا کیا ہوا کہ ڈالر دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا؟ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس کے مطابق جب ڈالر 214 روپے پر آیا تھا تو اوپن مارکیٹ میں 195 روپے پر بھی کوئی لینے کو تیار نہیں تھا۔ ڈالر کے خریدار نہ ہونے کی وجہ سے سٹیٹ بینک نے منی ایکسچینجرز کو ڈالر برآمد کرنے کی اجازت دی جس سے ملک میں ڈالر ریٹ دوبارہ بڑھنا شروع ہو گیا۔ یہاں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ اگر سٹیٹ بینک ڈالر برآمد کرنے کی اجازت نہ دیتا تو ڈالر کی قیمت انٹربینک میں دو سو روپے تک گر سکتی تھی‘ اس لیے ڈالر برآمد کرنے کی اجازت دینے پر ذمہ داران کا احتساب کیا جانا چاہیے۔
اس کے علاوہ افغان ٹرانزٹ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ افغانستان پاکستانی برآمدات کی ادائیگی اوّل تو اکثر ڈالر کے بجائے پاکستانی روپوں میں کرتا ہے جو تھوڑی بہت ادائیگی ڈالر میں کی جاتی ہے وہ ڈالر بھی افغانی تاجر پاکستانی مارکیٹ سے خرید کر ہی ہاکستان کو ادا کر رہے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ بھارت نے افغانستان میں ڈالر ریٹ پاکستانی 245 روپے سے زیادہ کر دیا ہے جس کی وجہ سے گرے مارکیٹ میں ڈالر زیادہ بک رہا ہے۔ گرے مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کے ریٹ کا فرق تقریباً پندرہ روپے تک بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے بیرونی ممالک سے بینکنگ چینلز کے بجائے ہنڈی کے ذریعے رقم پاکستان بھجوانے کا رجحان پھر پروان چڑھنے لگا ہے۔ منی ایکسچینجرز بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں۔ وہ ایک مرتبہ پھر فی ڈالر دس سے پندرہ روپے منافع کما رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس حوالے سے بنگلہ دیش سے سیکھا جا سکتا ہے۔ حال ہی میں بنگلہ دیش کو بھی اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اوپن مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر ریٹ کا فرق زیادہ ہونے کی وجہ سے ہنڈی حوالے کے ذریعے ڈالرز کی خرید و فروخت بڑھ گئی تھی۔ سرکار نے فوراً ایکشن لے کر ذمہ داروں کی نشاندہی کی اور انہیں سزا دی۔ جس میں کچھ بینکرز اور منی ایکسچینجرز بھی شامل تھے۔ بینکوں کے سربراہان کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا۔ منی ایکسچینجرز کے لائسنس منسوخ کر دیے گئے جس کے بعد ڈالر اصل ریٹ پر واپس آ گیا۔ پاکستان میں بھی ذمہ داروں کو سخت سزا دیے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جب شوکت ترین وزیر خزانہ تھے تو انہوں نے ملک میں ڈالر ریٹ بڑھنے کا ذمہ دار بینکوں کو ٹھہرایا تھا اور انہیں وارننگ بھی جاری کی تھی۔ اگست میں ڈالر کی قیمت میں اضافے پر سٹیٹ بینک نے کچھ نجی بینکوں اور منی ایکسچینجرز کو قصور وار ٹھہرایا تھا لیکن اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔ ڈالر کو کمزور کرنے کے لیے احتساب کے نظام کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ پاک افغان بارڈر سے آمدورفت بین الاقوامی قوانین کے مطابق یقینی بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر آمدورفت کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ ڈالرز کی ترسیل زمینی راستوں سے کرنے کا عمل روکنے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے‘ جن راستوں پر ڈالر کی ترسیل پر پابندی لگانے کی ضرورت ہے‘ وہاں کھلی اجازت دے رکھی ہے اور جہاں کھلی اجازت دینا ضروری ہے وہاں ڈالرز کی ترسیل پر سخت چیک اینڈ بیلنس کے احکامات جاری کر رکھے ہیں۔ سول ایوی ایشن نے مسافروں کے لیے ایئر پورٹس پر بیرونی اور مقامی کرنسی کو رجسٹرڈ کروانا لازمی قرار دے رکھا ہے جس کی وجہ سے عوام جیب میں ڈالر لانے کے بجائے ہنڈی کے ذریعے پاکستان بھیج رہے ہیں اور اسی راستے سے تاجر ممنوعہ اور مہنگی امپورٹڈ اشیا سمگل کرنے کے لیے ڈالرز بیرون ملک بھیج رہے ہیں۔ پاکستان میں ہنڈی کا نظام پھر سے مضبوط ہو رہا ہے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ فیٹف کے تحت ڈالر کی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے جو قوانین بنائے گئے تھے اور چیکس اینڈ بینکس لگائے گئے تھے‘ ان کا عملی میدان میں تاحال کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔ دوسرے الفاظ میں اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان کی پانچ سالہ محنت رائیگاں ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو غلط نہ ہوگا۔