روس کے ساتھ تجارت کے معیشت پر ممکنہ اثرات

پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں اور دوست ممالک سے مطلوبہ امداد نہ آنے کے بعد متاثرین کی اکثریت کھلے آ سمان تلے رہنے پر مجبور ہے۔ ڈینگی اور وبائی امراض نے حالات مزید کشیدہ کر دیے ہیں۔ اس امتحان کی گھڑی میں کس کی کیا ذمہ داری ہے‘ ہمارے سیاستدان شاید یہ سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یا پھر وہ اس خود ساختہ نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ سب عوام کے گناہوں کا نتیجہ ہے‘ جس کا اظہار ایک سیاسی شخصیت کر چکی ہے جبکہ حقائق اس کے برعکس ہیں۔ یہ معاملہ گناہوں سے زیادہ مس مینجمنٹ کا نتیجہ ہے۔ چند سال پہلے تک سیلابوں سے چین کا بیشتر حصہ ڈوب جاتا تھا لیکن چینی حکومت نے اسے عوام کا مقدر قرار دینے اور گناہ ثواب میں تولنے کے بجائے اس مسئلے کا حل تلاش کرنے اور بہتر حل پر عملدرآمد کرنے پر توجہ دی۔ چین نے سیلاب سے بچنے کے لیے ڈیمز بنائے۔ اس وقت ڈیموں کی تعداد کے حوالے سے چین پہلے نمبر پر ہے اور دنیا کا سب سے بڑا ڈیم بھی چین میں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اب چین میں بارشوں سے نقصان نہیں ہوتا لیکن نقصان کی شرح بہت کم ہو گئی ہے۔ ہمارے حکمران چین سے دوستی کو پہاڑوں سے بلند اور سمندروں سے گہرا قرار دیتے ہیں لیکن وہ چین سے کچھ سیکھنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ تحریک انصاف نے پارٹی ورکرز اور قیادت کا اجلاس اسلام آباد میں بلایا جہاں سیلاب متاثرین کے مسائل حل کرنے کے بجائے یہ موضوع زیر بحث رہا کہ احتجاج کرنے کا لائحہ عمل کیا ہوگا۔ تحریک انصاف کی پنجاب‘ خیبرپختونخوا‘ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں حکومت ہے لیکن جب حکمرانوں کی ترجیحات خدمت کے بجائے احتجاج ہوں تو عوام کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے جو سیلاب متاثرین کے ساتھ ہو رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ دوست ممالک امداد دینے میں روایتی دلچسپی بھی نہیں دکھا رہے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے سیاستدانوں کے شاہی خرچے بھی امداد ملنے کی راہ میں رکاوٹ ہو سکتے ہیں۔ پاکستانی حکمران جب کسی ملک میں قرض یا امداد لینے جاتے ہیں تو مشیروں اور وزرا کی ایک فوج ظفر موج ساتھ چلتی ہے۔ ایسی صورتحال میں مدد کرنے والے ممالک بھی محتاط ہو جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں سرکاری دورے سادگی سے کرنے کی ایک روایت ڈالی گئی تھی جس کا بین الاقوامی میڈیا اور دوست ممالک پر کافی مثبت اثر ہوا تھا لیکن موجودہ حکومت نے یہ روایت ترک کردی۔
ایس سی او سمٹ میں پاکستانی مشیروں‘ وزرا اور اعلیٰ افسران کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جہاں سیلاب متاثرین کے لیے امداد کے حوالے سے پیش رفت مایوس کن رہی جس سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے روس سے تجارت بڑھانے اور گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ آئیے معاملے کا درست جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
پاکستان اور روس کے تعلقات کبھی مثالی نہیں رہے ہیں۔ پاکستانی معیشت کا زیادہ انحصار یورپ اور امریکہ پر رہا ہے۔ پاکستان کے کل قرضوں کا تقریباً 70 فیصدورلڈ بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف پر مشتمل ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستانی معیشت ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے کندھوں پر کھڑی ہے تو غلط نہیں ہوگا۔ اس وقت بھی ملک میں معاشی بحران کی وجہ ورلڈ بینک کی طرف سے ملنے والے ممکنہ قرض میں تاخیر بتائی جا رہی ہے۔ اگر پاکستان امریکی لابی کو چھوڑ کر روس کی لابی میں شامل ہو جاتا ہے تو روس سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے میں دس سے پندرہ سال لگ سکتے ہیں جس کے بھیانک نتائج بھگتنا پڑ سکتے ہیں اور وطن عزیز ادھر کا رہے گا نہ اُدھر کا۔ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف بھی وطن عزیز کو اپنے پینل سے نکال سکتا ہے۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا فیصلہ اکتوبر میں ہونا ہے۔ وہاں بھی وطن عزیز کے لیے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ روس میں پاکستانی بینک نہ ہونے کے برابر ہیں۔ روس پر عالمی پابندیوں کی وجہ سے انٹرنیشنل بینکنگ ٹرانزیکشنز تقریباً ناممکن ہو چکی ہیں۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ وطن عزیز کسی بھی ملک سے تجارتی تعلقات بحال ہونے کا مطلوبہ فائدہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اس کی ممکنہ وجہ ملکی برآمدات پر انحصار کم ہونا ہے۔ پاکستان زرعی ملک ہے لیکن اپنی ضروریات کے مطابق بھی زرعی اجناس پیدا نہیں کر پاتا۔ ہر سال گندم‘ چینی اور کپاس درآمد کرنا پڑتی ہیں۔ پاکستان یورپ اور امریکہ کے ٹیکسٹائل آرڈرز پورے نہیں کر پا رہا ہے۔ پاکستان کا بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب کسی ملک سے تجارتی حجم بڑھنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے تو درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے اور برآمدات نہیں بڑھ پاتیں۔ پاکستان بزنس کونسل کے مطابق سال 2020ء میں روس کو پاکستانی برآمدات کا حجم صرف 144 ملین ڈالر تھا جبکہ درآمدات 613 ملین ڈالرز تھیں۔ 2011ء سے 2020ء کے درمیان روس اور پاکستان کے درمیان درآمدات میں 270 فیصد اضافہ ہوا اور درآمدات میں 24 فیصد کمی واقع ہوئی۔ اگر پاکستان روس کے ساتھ برآمدات نہیں بڑھا سکتا تو ایسی تجارت کا پاکستان کو فائدے سے زیادہ نقصان ہوگا۔ پاکستان کا مسئلہ برآمدات کے لیے مارکیٹ کا نہ ہونا نہیں ہے بلکہ برآمدات کرنے کی صلاحیت نہ ہونا ہے۔
ہر ملک کے لیے اپنی معاشی صورتحال سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی ملک کسی کا دوست نہیں ہے۔ ہر ملک پہلے اپنی ملکی مفادات دیکھتا ہے اس کے بعد فیصلے لیتا ہے۔ پاکستان کو صرف پاکستانی ہی معاشی بحران سے نکال سکتے ہیں۔ کوئی باہر سے آکر مدد نہیں کرے گا۔ اگر اہل اقتدار اس ملک کے ساتھ مخلص ہیں تو ملک میں سیاسی استحکام کا راستہ ہموار کریں۔ یہ واحد حل ہے جو پاکستان کو معاشی بحران سے نکال سکتا ہے۔ چین اور گلف ممالک بھی پاکستان کی مدد کے لیے آگ بڑھنے سے گریزاں ہیں۔ اس صورتحال میں روس کا پاکستان کی مدد کرنے کے خیال کو ایک خوش فہمی قرار دینا زیادہ مناسب ہوگا۔
روس کو پاکستان کے لیے نجات دہندہ قرار دینے والے حلقے شاید مکمل حقائق سے لاعلم ہیں۔ اس وقت روس کی یوکرین سے جنگ ہارنے کی اطلاعات ہیں۔ یوکرین نے کئی علاقے روسی فوج سے آزاد کروا لیے ہیں۔ امریکہ اور یورپ تقریباً چالیس ارب ڈالرز کی امداد یوکرین کو دے چکے ہیں اور مزید امداد دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ روس شدید مالی بحران کا شکار ہو رہا ہے۔ شرح نمو گر رہی ہے اور روسی تاجر اپنا سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل کر رہے ہیں۔ دنیا گلوبل ویلج ہے۔ کوئی ایک ملک مکمل طور پر اپنے وسائل پر انحصار نہیں کر سکتا۔ یورپ اور امریکہ کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں نے روس کے عام شہری کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ ان حالات میں اگر روس اپنی معیشت کو بچا لیتا ہے تو اسے بڑی کامیابی مانا جائے گا۔
عوامی سطح پر یہ رائے بھی تقویت اختیار کر رہی ہے کہ اگر بھارت امریکہ کی مخالفت کے باوجود روس سے بڑے پیمانے پر تجارت کر رہا ہے تو پاکستان کو بھی روس کے ساتھ تجارت کرنی چاہیے۔ یہ مطالبہ سننے کی حد تک بہتر دکھائی دیتا ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔ بھارت تقریباً ڈیڑھ ارب لوگوں کی مارکیٹ ہے اور دنیا کا کوئی ملک اتنی بڑی مارکیٹ کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا۔ بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت بننے جا رہا ہے۔ اس کے زرمبادلہ کے ذخائر 550 ارب ڈالرز سے زیادہ ہیں جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً آٹھ ارب ڈالرز ہیں۔ ان حالات میں بھارت اور پاکستان کی معاشی آزادی کا موازنہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ پاکستان اگر روس سے تیل کی خریداری کرتا ہے تو ممکنہ طور پر سعودی عرب کو تحفظات ہو سکتے ہیں۔ اگر روس سے ایل این جی درآمد کرتا ہے تو ممکنہ طور پر قطر اپنے تحفظات کا اظہار کر سکتا ہے اور اگر روسی کرنسی روبیل میں تجارت پر راضی ہو جائے تو امریکہ کو اس پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستانی معیشت ان تینوں دوست ممالک کی مدد سے تھوڑی بہت سانس لے رہی ہے۔ اس لیے پاکستان ان تینوں ممالک کو ناراض کرکے روس کے ساتھ تجارتی پینگیں نہیں بڑھا سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں