روس سے تیل لینے کے معاشی اثرات

پاکستان میں سیاسی منظرنامہ تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے لیکن یہ صورتحال عوام کے لیے نئی نہیں ہے۔ 2011ء میں یوسف رضا گیلانی اور پانچ سال بعد 2017ء میں میاں نواز شریف بھی نااہل قرار پائے تھے اور اب پانچ سال بعد عمران خان کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کی نوعیت اور حساسیت پر مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی بڑا دعویٰ کرنا شاید ممکن نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی قیادت کے مستقبل کا انحصار اس بات پر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں اس فیصلے کے خلاف دائر کی جانے والی اپیل پر کیا فیصلہ آتا ہے۔ ماضی قریب میں ہی شہباز شریف‘ حمزہ شہباز اور مریم نواز سمیت کئی سیاسی شخصیات کو بیشتر مقدمات میں ریلیف مل چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں عمران خان کو بھی ریلیف ملنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن تحریک انصاف کے سربراہ پر لگنے والے الزامات اور ان الزامات کی بنیاد پر ان کی نا اہلی کے فیصلے نے عمران خان کے امیج کو کسی حد تک متاثر ضرور کیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی توہینِ عدالت میں نااہل ہوئے اور نواز شریف بیٹے کی کمپنی سے نہ لی گئی تنخواہ کو اپنے اثاثوں میں ظاہر نہ کرنے کی بنیاد پر نااہل ہوئے لیکن الیکشن کمیشن کے مطابق عمران خان کی نااہلی کرپٹ پریکٹس میں ملوث ہونے کی بنیاد پر کی گئی ہے۔کمیشن کے مطابق توشہ خانہ سے ملنے والے اثاثوں کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائی گئی تفصیلات میں ظاہر نہ کرنا کرپٹ پریکٹسز کے زمرے میں آتا ہے۔
تحریک انصاف فی الحال لانگ مارچ کی تیاری میں مصروف ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ اس حوالے سے کیا نیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں‘ اس بارے میں مکمل یقین سے کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ خود فرما چکے ہیں کہ انہوں نے اگلی چال سے متعلق اپنے ساتھیوں کو بھی نہیں بتایا ہے۔ جبکہ وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ انہیں سب معلوم ہے اور انہوں نے مطلوبہ حکمت عملی بھی تیار کر رکھی ہے۔ اب حکومتی حکمت عملی کام کرتی ہے یا نہیں اس کا علم چند روز میں ہو جائے گا لیکن جس حکمت عملی کی ملک کو سب سے زیادہ ضرورت ہے‘ وہ معیشت سے جڑی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی ریٹنگ بی مائنس کیٹیگری سے گرا کر ٹرپل سی پازیٹو کر دی ہے جس سے ایک مرتبہ پھر کچھ حلقوں کی جانب ملک کے دیوالیہ ہونے کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن میرے خیال میں اب ملک کے دیوالیہ ہونے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں جن کا میں ماضی میں ذکر کرتا آیا ہوں۔
اُدھر فیٹیف کی جانب سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال کر وائٹ لسٹ میں شامل کرنا بھی اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان دیوالیہ نہیں ہونے جا رہا۔ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے پاکستانی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہو سکے گی۔ پاکستان بغیر کسی ہچکچاہٹ کے دنیا کو سرمایہ کاری کرنے کی دعوت دے سکے گا۔ اس کے علاوہ بینکنگ سیکٹر میں درپیش مشکلات بھی کم ہو سکیں گی۔ فی الحال بیرونِ ممالک سے بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان ڈالرز بھیجنا ایک مشکل عمل بن چکا تھا۔ خصوصی طور پر این جی اوز کی جانب سے ڈالرز پاکستان بھیجنے کے لیے پہلے دبئی کے بینکوں کا سہارا لینا پڑتا تھا‘ اس کے بعد یہ رقم پاکستان منتقل ہوتی تھی۔ اب یہ عمل براہِ راست ہو سکے گا۔ میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ جس طرح پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے نکالنے کے لیے مل کر کام کیا ہے‘ اسی طرح ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے بھی مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
اچھی خبر یہ بھی ہے کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالرز قرض کی منظوری دے دی ہے۔ اس حوالے سے تقریب ممکنہ طور پر اگلے ہفتے ہو گی۔ قرض کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ایک ارب پچیس کروڑ ڈالرز کی مدت اور شرح سود مختلف ہے اور بقیہ پچیس کروڑ ڈالرز کی شرائط مختلف ہیں۔ یہ قرض ایسے وقت میں مل رہا ہے جب پاکستان کے ڈالرز ذخائر تقریباً ایک ماہ کی درآمدات کے برابر رہ گئے ہیں۔ یہ قرض کافی عرصہ سے تعطل کا شکار تھا۔ آئی ایم ایف سے معاملات بروقت طے نہ پانے کے باعث اس میں تاخیر ہوئی ہے۔ اس سے وقتی طور پر ڈالر ریٹ پر فرق پڑ سکتا ہے لیکن میں یہاں یہ کہنا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہ عارضی حل ہیں۔ اس طرح قرض لینے سے دو تین ماہ تو نکالے جا سکتے ہیں لیکن اس کے بعد کیا ہوگا۔ پھر ایک نئے قرض کے لیے کوششیں شروع ہو جائیں گی۔ ایسا کب تک چلے گا۔ یہ اپروچ معاشی مسائل کا مستقل حل نہیں ہے‘ صرف وقت گزارنے سے ملکی معاشی مسائل حل نہیں ہوں گے۔ ڈالرز قرض کی مد میں لانے کے بجائے برآمدات کی مد میں لانا ضروری ہے۔ بصورت دیگر چند ماہ بعد حالات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں۔
معاشی حالت میں بہتری لانے کے لیے روسی تیل کی درآمدات پر کام کیے جانے کی اطلاعات بھی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس سے پاکستانی معیشت کو سہارا مل سکتا ہے اور اس پروگرام پر عملدرآمد پاکستان کے لیے کس حد تک ممکن ہے۔ میرے مطابق یہ فیصلہ چھ ماہ پہلے ہی کر لینا چاہیے تھا۔ پاکستان سالانہ تقریباً 15 ارب ڈالر کا تیل درآمد کرتا ہے۔ اگر تیس فیصد ڈسکاؤنٹ مل جائے تو تقریباً 4 ارب 50کروڑ ڈالرز کی بچت کی جا سکتی ہے۔ یہ معاہدہ اگر چھ ماہ قبل ہو جاتا تو اب تک تقریباً 2 ارب 25 کروڑ ڈالرز بچائے جا سکتے تھے۔ روس سے سستا تیل خریدنے سے ڈالر ریٹ نیچے آ سکتا ہے‘ مہنگائی کم ہو سکتی ہے‘ شرح سود میں کمی لائی جا سکتی ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم ہو سکتا ہے۔ لیکن موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس کا اثر عوام تک منتقل ہوتا نظر نہیں آتا۔ حکومت نے ابھی پیٹرولیم لیوی میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ روس سے ملنے والا ڈسکاؤنٹ اس میں ایڈجسٹ ہو سکتا ہے۔ اس وقت تقریباً دو لاکھ ایل سیز پائپ لائن میں ہیں۔ انہیں ریلیز کرنے سے ڈالر کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بڑھ سکتا ہے۔
اس میں کئی الجھنیں بھی ہیں۔ روس سے پاکستان تیل پہنچنے میں 25 سے 26 دن درکار ہیںاور خرچ بھی پانچ گنا زیادہ ہے۔ جبکہ گلف ممالک سے تیل تین سے چار دن میں پہنچ جاتا ہے اور خرچ بھی کم ہے۔ اگر روس 35 فیصد سستا تیل بیچے تو راستے کا خرچ نکال کر بچت ہو سکتی ہے۔ اس سے کم پرڈیل فائدہ مند نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ روس پر پابندیوں کی وجہ سے کوئی بینک ایل سی نہیں کھولے گا۔ ڈالرز کے بجائے روبیل میں ادائیگی کرنا ہو گی جو شاید امریکہ کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔ جہاں تک بات ہے امریکہ سے اجازت ملنے کی تو فی الحال وزیرخزانہ صاحب کے امریکہ سے اجازت ملنے کے دعوے پر یقین کرنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے امریکی امداد کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ امریکہ نے ساڑھے چار ارب ڈالر جیب سے ادا کرنے کے بجائے پاکستان کو روس سے سستا تیل خریدنے کی اجازت دی ہو تاکہ ساڑھے چار ارب ڈالر پاکستان کو بچت ہو سکے اور امریکہ پر بھی بوجھ نہ پڑے۔
ماضی میں روسی تیل کے پاکستان میں ریفائن نہ ہونے کی خبریں بھی آتی رہی ہیں لیکن حقائق اس سے مختلف ہیں۔ روس سے خام تیل درآمد کرکے ریفائن کرنا ممکن ہے لیکن اس کی کوالٹی اربین لائٹ آئل کے برابر ہونی چاہیے۔ کیونکہ پاکستان میں تمام ریفائنریز اربین لائٹ آئل کے معیار کے مطابق بنائی گئی ہیں۔ دوسری طرح کے کروڈ سے پٹرول ڈیزل کی مطلوبہ مقدار حاصل نہیں ہو سکے گی۔ میرے مطابق روس سے سستا تیل حاصل کرنا اسی صورت میں فائدہ مند ہو گا جب مکمل معاشی اصلاحات بھی کی جائیں۔ ورنہ سستے تیل سے ہونی والی بچت سود کی ادائیگی اور حکومتی شاہ خرچیوں میں ضائع ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں