حکومت نے وفاقی شرعی عدالت کے سودی بینکنگ نظام کے خاتمے کے فیصلے سے متعلق کی گئی سرکاری اپیلیں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ عوامی حلقوں میں اس فیصلے کو پذیرائی مل رہی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت سودی نظام کو ختم کرنے کیلئے واقعی سنجیدہ ہے یا پھرپوائنٹ سکورنگ کیلئے یہ اعلان کیا گیا ہے۔ ماضی میں اس طرح کے کئی وعدے اور دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن مطلوبہ عملی اقدامات دکھائی نہیں دیے۔ اسلام نے آج سے چودہ سو سال پہلے ہی سودی لین دین کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان کے وقت یہ واضح کیا تھا کہ پاکستان کا معاشی نظام اسلامی اصولوں کے مطابق بنایا جائے گا۔ اس کے علاوہ 1973ء کے آئین کے مطابق بھی پاکستان میں سود کا نظام غیر آئینی ہے لیکن واضح دینی احکامات اور قوانین کے باوجود بھی سرکاری اور نجی سطح پر سود کا نظام نافذ ہے۔ وزیر خزانہ نے دو سرکاری اپیلیں واپس لینے کا اعلان کیا ہے جبکہ اس وقت سود کے خاتمے کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے خلاف 67 اپیلیں جمع کرائی جا چکی ہیں جو سٹیٹ بینک، نجی بینکوں، نجی مالیاتی اداروں اور حکومتی اداروں کی جانب سے جمع کرائی گئی تھیں۔ دو اپیلیں واپس لینے کے بعد 65 اپیلیں باقی رہ جائیں گی اورقانونی طور پر جب تک تمام اپیلوں پر سپریم کورٹ کا فیصلہ نہیں آ جاتا تب تک وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ کالعدم تصور کیا جائے گا۔ اگر حکومت سودی نظام کے خاتمے کے لیے سنجیدہ ہے تو سٹیٹ بینک کے ذریعے تمام نجی بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں کو بھی پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنی اپیلیں واپس لیں لیکن اس حوالے سے ابھی تک کوئی پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
وزیر خزانہ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ پانچ سال میں مکمل اسلامک بینکنگ نظام نافذ کیا جائے گا جبکہ موجودہ حکومت کے پا س زیادہ سے زیادہ دس ماہ کی مدت باقی ہے۔ اس اعلان کے بعد بھی کوئی واضح پالیسی اور حکمت عملی سامنے نہیں آ سکی‘ نہ ہی متعلقہ اداروں کو اس حوالے سے آن بورڈ لیے جانے کی اطلاع ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل اور ایک بڑے اسلامی بینک کے اہم عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت کی جانب سے مشاورت کے لیے تاحال کوئی میٹنگ نہیں بلائی گئی۔ میں یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ وزیر خزانہ جب آئی ایم ایف حکام سے مبینہ ناکام مذاکرات کے بعد وطن لوٹے تھے تو ایئرپورٹ پر ہی انہوں نے سودی بینکنگ کے خاتمے پر زور دینا شروع کر دیا تھا۔ میں نے اس وقت بھی اپنے کالموں کے ذریعے یہ واضح کیا تھا کہ ڈالر ریٹ میں مزید کمی نہ ہونے اور قرضوں میں ریلیف نہ ملنے کے بعد وزیر خزانہ کے پاس عوام میں پیش کرنے کے لیے کوئی نیا منصوبہ نہیں‘ شاید اسی لیے عوامی سپورٹ حاصل کرنے کیلئے انہوں نے اسلامک بینکنگ کے نفاذ کی بات کی۔ اس کے علاوہ یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے اس کیس کو ہر پہلو سے جانچنے کے بعد فیصلہ دیا ہے۔اگر کیس چلتا رہے تو فیصلہ ممکنہ طور پر حکومت کے خلاف ہی آئے گا۔ شاید اسی لیے حکومت نے بروقت اپیلیں واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اگر حکومت ملک سے سودی نظام کے خاتمے میں سنجیدہ ہے تو سودی کاروبار سے متعلق ایسے کئی قوانین ہیں جنہیں فوری ختم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان منی لنڈنگ ایکٹ 1960ء کے مطابق پاکستان میں انفرادی سطح پر بھی سود کا کاروبار کرنے کی اجازت ہے جس میں سود کی حد 8 فیصد مقرر کی گئی ہے۔ اگرچہ خیبرپختونخوا اور پنجاب میں نجی سودی کاروبار کے خلاف قانون سازی ہو چکی ہے لیکن وفاقی دارالحکومت‘ صوبہ سندھ اور صوبہ بلوچستان میں یہ قانون اب بھی موجود ہے اور انفرادی سطح پر سودی کاروبار کے لیے لائسنس بھی جاری کیے جاتے ہیں۔ اس قانون کو ختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان میں اسلامک بینکنگ کا نظام تیزی سے پھل پھول رہا ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ زیادہ منافع بھی ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق اثاثہ جات اور ڈِپازٹس کے حوالے سے اسلامک بینکنگ کا شیئر تقریباً بیس فیصد ہے۔ 22 بینک مکمل طور پر اسلامک بینکنگ سسٹم پر منتقل ہو چکے ہیں اور 17 بینکوں کی تقریباً 1418برانچیں اسلامک بینکنگ میں تبدیل کی جا چکی ہیں۔ 2015ء میں کنونشنل بینکوں کو مزید لائسنس دینے پر پابندی لگائی گئی تھی جو آج تک برقرار ہے۔ کنونشنل بینکوں کو 2019ء تک اسلامک بینکنگ کی برانچیں کھولنے کا ٹارگٹ دیا گیا تھا اور تمام کنونشنل بینکوں کیلئے لازم تھا کہ وہ کچھ برانچیں اسلامک بینکنگ کی بھی کھولیں۔ اس وقت کوئی بھی بینک ایسا نہیں ہے جس کی اسلامک بینکنگ برانچ نہ ہو۔بعض حلقوں میں اسلامک بینکنگ کو زیادہ صاف اور شفاف قرار دیا جاتا ہے اور اس میں قرض معاف کرانا تقریباً ناممکن سمجھا جاتا ہے۔
اس بارے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور چینی بینکوں سمیت دیگر عالمی مالیاتی ادارے پاکستان میں سود کے خاتمے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔ اس حوالے سے مختلف آرا سامنے آ رہی ہیں لیکن میرے مطابق ان اداروں کو سود سے پاک نظام پر اعتراض نہیں ہو گا بشرطیکہ ان کے قرضوں کی اقساط بروقت ادا کی جاتی رہیں۔ البتہ اس نظام کو دیر پا بنیادوں پر چلانے کیلئے یہ ثابت کرنا پڑ سکتا ہے کہ ملکی معاشی نظام کیلئے اسلامی نظام سودی نظام سے بہتر ہے۔ اگر نئے نظام پر منتقل ہونے سے معاشی چیلنجز مزید بڑھ جاتے ہیں تو ملک کے معاشی مسائل بھی بڑھ سکتے ہیں۔ یہ ایک‘ دو سال کا معاملہ نہیں ہے بلکہ اس نظام سے حقیقی فوائد حاصل کرنے کے لیے کافی عرصہ درکار ہو گا۔ اس وقت پاکستانی بینکنگ نظام ملکی معیشت کا شاید ایک فیصد ہے۔ڈیفنس سیونگ سرٹیفکیٹس سمیت دیگر سینکڑوں پروڈکٹس اور منصوبے ایسے ہیں جنہیں سودی نظام سے غیر سودی نظام پر منتقل کرنے کی ضرورت ہے۔ جن اکائونٹ ہولڈرز نے اربوں روپے کے قرض پندرہ‘ بیس سالوں کے معاہدوں پر لے رکھے ہیں ان کے معاہدے اسلامک بینکنگ میں تبدیل کرنے کا لائحہ عمل طے کرنا اہم مرحلہ ہو سکتا ہے۔میرے ذرائع کے مطابق عالمی بینکوں نے اسلامک بینکنگ کو پروموٹ کرنے پر زور دیا ہے تا کہ بین الاقوامی ادارے بھی پاکستان کو قرض منصوبوں کی بنیاد پر دیں نہ کہ کیش ڈالرز میں قرض دیں۔ ان اداروں کو ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ جس مقصد کے لیے قرض لیا جاتا ہے اس پروجیکٹ پر فنڈز خرچ نہیں کیے جاتے۔
اسلامک بینکنگ صرف مسلم ممالک کی ہی پروڈکٹ نہیں بلکہ غیر مسلم ممالک بھی ان اصولوں پر بینکنگ کو زیادہ منافع بخش قرار دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہانگ کانگ کے ایچ ایس بی سی بینک میں اسلامک بینکنگ کا علیحدہ نظام موجود ہے جہاں متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک کے اربوں ڈالرز ڈِپازٹ کیے جاتے ہیں۔ کئی بین الاقوامی بینکوں میں اسلامک بینکنگ کو ایڈونچر بینکنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اسے بین الاقومی سطح پر رائج کرنے کے لیے شاید مزید ریسرچ درکار ہے۔ مغرب نے کنونشنل بینکنگ کو آسان بنانے کے لیے تقریبا پانچ سو سال تک ریسرچ جاری رکھی جبکہ اسلامک بینکنگ میں کچھ شخصیات نے انفرادی سطح پر پچھلے پچاس سالوں میں محنت کی ہے جس کی وجہ سے آج کل کچھ بہتر شکل دیکھنے میں آ رہی ہے۔ صدر ضیاء الحق کے دور میں بھی اسلامک بینکنگ پر کام کیا گیا تھا اور پرافٹ اینڈ لاس پی ایل ایس اکاؤنٹس کھولنے کے حوالے سے کافی کام ہوا تھا۔ اس کے بعد مفتی تقی عثمانی صاحب کا کام قابلِ ذکر ہے۔ ملائشیا میں بھی اسلامک بینکنگ کی بہتر شکل موجود ہے۔ میں نے ملائیشین تابونگ حاجی پروجیکٹ کو بنیاد بنا کر پاکستان میں حج فنڈ متعارف کرایا تھا جس پر قانون سازی تقریباً مکمل ہو چکی ہے اور یہ جلد ہی منظر عام پر آ سکے گا۔ اسی طرح دیگر منصوبے بھی پاکستان میں آزمائشی بنیادوں پر شروع کیے جا سکتے ہیں جن سے معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن سب سے پہلے سرکار کی توجہ اور ترجیحات کا رخ اس معاملے کی طرف موڑنا ضروری ہے۔ اگر حکومت نے عدم دلچسپی دکھائی تو سود سے پاک پاکستانی معیشت کا منصوبہ شاید اگلے بیس سالوں میں بھی مکمل نہ ہو پائے۔