دیوالیہ پن اور حکومتی بیانیہ

پاکستان میں اس وقت ایک اہم تقرری زیر بحث ہے‘ میری اطلاعات کے مطابق اب اس تقریری میں زیادہ ابہام نہیں رہا‘ فیصلہ ہو چکا ہے۔ پی ڈی ایم کے اندر بھی اب کوئی اختلاف نہیں اور صدر مملکت سے وزیر خزانہ نے ملاقات کرکے مبینہ طور پر انہیں اعتماد میں لیا ہے تاکہ اس نئی تقرری کے بعد کوئی بد مزگی پیدا نہ ہو۔ وزیراعظم چونکہ کورونا کا شکار ہیں‘ اس لیے وزیر خزانہ نے صدر سے ملاقات کی ہے۔ وزیراعظم نے لندن میں ہی صحافیوں سے کہا تھا کہ انہیں بخار ہے اور پاکستان پہنچتے ہی انہیں کورونا ہونے کی خبر سامنے آ گئی۔ممکن ہے کہ یہ حسنِ اتفاق ہو لیکن ایسا بھی ممکن ہے کہ لندن میں ہونے والی ملاقاتوں میں یہ طے کر لیا گیا ہو کہ اہم تعیناتی تک تمام اہم معاملات وزیر خزانہ دیکھیں گے تا کہ احسن طریقے سے نئی تقرری ہو جائے۔ وزیر خزانہ کو مذاکرات کا ماہر مانا جاتا ہے اور جب وہ مذاکرات کرتے ہیں تو یہی تصور کیا جاتا ہے کہ نواز شریف مذاکرات کر رہے ہیں۔ دوسری طرف چیئرمین تحریک انصاف بھی کسی حد تک مطمئن دکھائی دے رہے ہیں بلکہ ایک تقریر میں ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم تو اب اس معاملے سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ شاید انہیں یقین ہو گیا ہے کہ اس تقرری پر مزاحمت کا کوئی فائدہ نہیں یا پھر یہ بھی ممکن ہے کہ کسی سطح پر انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تحریک انصاف کے لانگ مارچ میں بھی اب کوئی دم خم نہیں ہے اور یہ فطری بھی ہے۔ جب کارواں میں رہنما موجود نہ ہو تو عوام کی اس میں شمولیت بھی محدود ہی رہتی ہے۔ میں پہلے بھی کئی مرتبہ ذکر کر چکا ہوں کہ تحریک انصاف ایک بڑی جماعت ضرور ہے لیکن عمران خان کے بغیر اس جماعت کا کوئی وجود نہیں ہے۔ فی الحال یہ تاثر بھی موجود ہے کہ حملے کے بعد چیئرمین تحریک انصاف زیادہ محتاط ہو گئے ہیں‘ انہیں شاید توقع نہیں تھی کہ ان پر ایسا کوئی حملہ ہو سکتا ہے۔ عمران خان ایک سمجھدار سیاستدان ہیں۔ انہوں نے ماضی سے بہت سیکھا ہے۔ بینظیر پہلے قاتلانہ حملے میں بچ گئیں تھیں لیکن دوسرے حملے میں وہ جان کی بازی ہار گئیں۔ چیئرمین تحریک انصاف ماضی سے سیکھنے پر یقین رکھتے ہیں اس لیے اب ممکنہ طور پر ایگریسو اپروچ سے گریز کر ر ہے ہیں لیکن کیا ہی اچھا ہوتا اگر پہلے ہی سمجھداری سے کام لیا جاتا۔
اُدھرسوشل میڈیا پر ہونے والے پروپیگنڈا کی وجہ سے ریاستی اداروں کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ ملکی سلامتی کا انحصار اداروں کی مضبوطی اور کریڈیبلٹی پر ہوتا ہے۔ ملک دشمن قوتیں جن اہداف کو حاصل کرنے کے لیے اربوں ڈالرز خرچ کرتی ہیں‘ ان کے لیے اپنی منزل حاصل کرنا ملک کے اندر پھیلے سیاسی اختلافات کے باعث زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ سیاسی حلقوں کو اپنا اختلاف رجسٹر کروانا چاہیے لیکن اس میں توازن برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ غیر ملکی خصوصی طور پر ہندوستانی میڈیا پاکستان میں جاری سیاسی عدم استحکام کی جس طرح رپورٹنگ کرتا نظر آتا ہے‘ وہ تشویشناک ہے۔تحریک انصاف کی قیادت کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیے۔ ملکی مسائل شاید اسی لیے بڑھ رہے ہیں کہ شاید ہمارے حکمران کوئی بھی فیصلہ کرتے وقت اُس کے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں زیادہ نہیں سوچتے۔ ایوب خان دورِ حکومت کے بعد پاکستان میں معاشی تنزلی کا تسلسل جاری ہے۔ یہاں حکومتیں بس اپنا وقت بہتر طور پر گزارنے کے لیے کوشاں رہیں لیکن ایک بھی ایسی لانگ ٹرم معاشی پالیسی نہیں بنائی جا سکی جس کی بدولت حکومتوں کے بدلنے سے ملکی معیشت متاثر نہ ہوتی۔ آج پاکستان جن معاشی مسائل کا شکار ہے وہ ایک سال یا ایک دورِ حکومت کی وجہ سے نہیں ہیں بلکہ یہ کئی سالوں کا گند ہے جو اکٹھا ہو چکا ہے۔ ملک اب مزید اس گند کو ساتھ لے کر نہیں چل سکتا۔ جو بھی اقتدار سنبھالتا ہے اسے انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا۔ موجودہ وزیر خزانہ کو معاشی بحرانوں سے نمٹنے کا ماہر مانا جاتا تھا لیکن وہ بھی بظاہر ناکام ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ اس وقت سی ڈی ایس 80فیصد سے زیادہ ہو چکا ہے یعنی ملک ڈیفالٹ کرنے کا خطرہ 80 فیصد بڑھ چکا ہے۔ خدانخواستہ اگر ملک ڈیفالٹ کر گیا تو جن مشکلات کا ہمیں سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اُس کا تصور ہی بہت ہولناک ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کا حصول سب سے بڑا مسئلہ بن کر سامنے آئے گا۔ وہ غذائی اجناس جو مقامی سطح پر پیدا نہیں ہوتی اُن کی درآمد کیونکر ممکن ہو سکے گی۔ جو قومی اثاثہ جات بھاری قرضوں کی عوض گروی رکھوائے گئے ہیں اُن کا مستقبل کیا ہوگا۔ کورونا لاک ڈائون اور اب سیلاب کے بعد عوام کی معاشی سکت پہلے ہی بہت زیادہ متاثر ہو چکی ہے‘ دیوالیہ پن کے بعد تو اُن کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بالکل ہی نا ممکن ہو جائے گا۔جب تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوئی تو سی ڈی ایس تقریباً 5فیصد تھا۔ گزشتہ روز اسی فیصد سی ڈی ایس کے بعد بھی وزیر خزانہ نے بیان دیا ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ کرنے کا کوئی خطرہ موجود نہیں ہے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وزیر خزانہ کے اس دعوے پر کس حد تک یقین کیا جا سکتا ہے۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ ڈالر کو دو سو روپے سے نیچے لائیں گے لیکن آج کل وہ اسے سٹیٹ بینک کی ذمہ داری قرار دے رہے ہیں۔ وہ پٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی نہ بڑھانے کے بدلے آئی ایم ایف کو متبادل آمدن پر راضی کرنے کا دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں لیکن بعدازاں پٹرولیم مصنوعات پر لیوی بھی بڑھائی اور سبسڈی بھی ختم کرنا پڑی۔آئی ایم ایف کے مطابق موجودہ مالی سال میں پاکستان کوتقریباً چونتیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہے جبکہ حکومت نے بجٹ میں تقریباً بائیس ارب اسی کروڑ ڈالرز کا تخمینہ لگایا ہے اور اس میں سے بھی اب تک صرف چار ارب بیس کروڑ ڈالرز پاکستان کو مل سکے ہیں۔بیرونی سرمایہ کاروں نے پچھلے چھ ماہ میں نیا پاکستان سرٹیفکیٹس سے چھ سو ساٹھ ملین ڈالرز نکلوا لیے ہیں۔ سٹیٹ بینک ذرائع کے مطابق یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی پاکستانی معیشت پر عدم اعتماد کو ظاہر کر رہی ہے۔ سیلاب سے ہونے والے نقصان کے حوالے سے فرانس اور اقوام متحدہ کے تعاون سے نومبر میں ہونے والی ڈونر کانفرنس بھی ملتوی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ چین کی جانب سے قرضوں کو ری شیڈول کرنے کے حوالے سے بھی ابھی تک مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید دنیا پاکستان کی مدد نہیں کرنا چاہتی۔یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ وزیر خزانہ صاحب سے گزارش ہے کہ وہ عوام کو سکوک بانڈز‘ یو اے ای قرض اور دیگر قرض ادائیگیوں کے لیے اپنی منصوبہ بندی سے آگاہ کریں۔پانچ دسمبر کو سکوک بانڈز کی ادائیگی کے لیے کیا کوئی نیا قرض ملنے کی امید ہے یا موجودہ تقریباً آٹھ ارب ڈالرز کے ذخائر میں مزید کمی کی جائے گی۔وزارتِ خزانہ کے معیشت کو کنٹرول کرنے کے صرف زبانی دعوے عوامی رائے عامہ کو بدلنے کے لیے ناکافی ہیں۔
آنے والے دنوں میں معاشی صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے اس بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ این ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر نے قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں یہ اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس سیلاب کے باعث ضلعی سطح پر ہونے والے نقصانات کے اعدادوشمار تاحال موجود نہیں ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف نے واضح اعدادو شمار کے بغیر پاکستان کا دورہ کرنے سے معذرت کی ہے۔ سال 2010ء میں آنے والے سیلاب کے بعد Damages & Need Assessment رپورٹ تیار کی گئی تھی جس کی بنیاد پر بیرونی ملکوں نے پاکستان کو امداد دی تھی لیکن 2022ء کے سیلاب کے حوالے سے ابھی تک ایسی کوئی رپورٹ تیار نہیں کی جا سکی ہے۔ جو بھی اعدادوشمار موجود ہیں وہ اندازوں پر مبنی ہیں۔ حکومت نے اب چند ہفتوں میں یہ رپورٹس تیار کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے لیکن آئی ایم ایف اس رپورٹ کو منظور کرتا ہے یا نہیں اس بارے کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بیوروکریسی کی اس نااہلی کی وجہ سے آئی ایم پروگرام میں جو تاخیر ہو رہی ہے اس کا احتساب کون کرے گا؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں