2022ء معاشی اعتبار سے کیسا رہا؟… (2)

2022ء کا آغاز خوشگوار نہیں تھا۔ مہنگائی اور بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہورہا تھا اور شرحِ نمو کم ہو رہی تھی۔ان حالات میں حکومت نے معیشت کی ''ری بیسنگ‘‘ کی‘ جس کی منظوری نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس میں دی گئی۔ اس حوالے سے کمیٹی کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق‘ نئی بیس لائن کے بعد پاکستان کی مجموعی معاشی پیداوار کا حجم 347 ارب ڈالر ہو گیا جبکہ فی کس سالانہ آمدن 1666 ڈالر ہو گئی۔ ری بیسنگ کا مطلب یہ ہے کہ معیشت کی شرحِ نمو کی جانچ کے لیے ریفرنس کے طور پر استعمال ہونے والا سال 2005-06ء سے تبدیل کر کے 2015-16ء کر دیا گیا۔ اگر ری بیسنگ کے بعد حساب لگایا جائے تو 2020-21ء میں شرحِ نمو تقریباً 6 فیصد ہو جاتی ہے۔ معیشت کو 10 سے 15 سال بعد ری بیس کرنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا کیونکہ آپ نئے اندازے لگانے کے قابل ہو جاتے ہیں لیکن تحریک انصاف شرحِ نمو کے بہتر ہونے کا جو دعویٰ کرتی ہے اس سے عام آدمی کی زندگی پر زیادہ اثر نہیں پڑا تھا بلکہ جنوری 2022ء میں عوامی سطح پر یہ سوال زیادہ شدت سے اٹھایا جا رہا تھا کہ اگر معیشت کی شرحِ نمو اتنی ہی اچھی ہے تو اس کا اثر عام افراد کی جیب پر کیوں نہیں پڑ رہا؟ عام آدمی کی جیب پر فرق اس وقت پڑنا شروع ہوا جب انڈسٹری ایمنسٹی سکیم لانچ کی گئی۔ پچھلے پانچ سالوں میں شاید ہی کوئی سال ایسا گزرا ہو جس میں ایمنسٹی سکیم لانچ نہ کی گئی ہو۔ مشینری کی درآمد کے لیے سستے قرضے دیے گئے۔ شرحِ نمو میں چھ فیصد تک اضافہ ہوا لیکن یہ تمام اقدامات تھوڑے وقت کے لیے کیے گئے تھے۔ مبینہ طور پر یہ حکومت بچانے کی آخری کوشش تھی۔ تحریک انصاف کا یہ اقدام دو طرفہ تھا۔ ایک طرف عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں کامیابی ملی اور دوسری طرف یہ پاپولر فیصلے پی ڈی ایم کے لیے بارودی سرنگ ثابت ہوئے۔ تحریک انصاف دعویٰ کرتی ہے کہ جب ہماری حکومت ختم ہوئی تو شرحِ نمو چھ فیصد سے زیادہ تھی لیکن عوام کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ شرحِ نمو کتنی دیر کے لیے بہتر ہوئی تھی۔ جتنے وقت کے لیے شرحِ نمو چھ فیصد رہی اس کا ملک کوکوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ایسا نہیں کہ یہ کام پہلی بار صرف تحریک انصاف نے ہی کیا بلکہ ہر حکومت جانے سے پہلے مقبول مگر غیر حقیقی فیصلے کرکے جاتی ہے۔ لہٰذا یہ سال اس حوالے سے ماضی سے مختلف نہیں رہا۔ اس سال بھی جماعتوں کی سیاست اور ذاتی مفادات ملکی مفاد پر غالب رہے۔
2022ء فیٹف کے حوالے سے بہتر رہا۔ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل کر وائٹ لسٹ میں آ گیا‘ تقریباً پانچ سال سے زیادہ عرصے تک فیٹف کی شرائط مکمل کرنے کے بعد یہ کامیابی ہاتھ آئی لیکن اس کامیابی کا پاکستان کو عملی میدان میں زیادہ فائدہ نہیں ہوا۔ یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستان میں منی لانڈرنگ، ڈالرائزیشن اور ہنڈی؍ حوالے کا کام کم ہو جائے گا لیکن حالات برعکس نکلے۔ گرے مارکیٹ اور انٹربینک میں انٹرنیشنل کرنسیوں کے ریٹ میں پینتیس سے چالیس روپے کا فرق آ گیا جو پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ ہوا۔ یہ اعزاز بھی اسی سال کو حاصل ہوا۔ گرے لسٹ سے نکلنے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ بیرونِ ممالک سے بینکنگ چینلز کے ذریعے ترسیلاتِ زر بھیجنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا اور کوئی پابندی بھی نہیں رہتی لیکن پاکستان کے لیے حالات جوں کے توں ہیں۔ کسی بھی بین الاقومی ادائیگی یا وصولی کے لیے غیر ضروری قوانین ابھی تک راستے کی رکاوٹ ہیں۔
یہ سال ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بڑے کاروباری گروپس کے لیے بھی زیادہ اچھا نہیں رہا۔ وفاقی وزیرِ خزانہ نے اپنی بجٹ تقریر میں بڑی صنعتوں پر چار فیصد اضافی ٹیکس لگانے کا اعلان کیا تھا مگر پھر چند روز بعد جب آئی ایم ایف نے بجٹ اعداد و شمار کا جائزہ لیا تو ٹیکس کی وصولی کے اہداف کو ناکافی قرار دیا گیا اور ٹیکس وصولی کے 7 ہزار ارب روپے کے ہدف میں مزید 400 ارب کے اضافے کے ساتھ مجموعی ہدف 7 ہزار 400 ارب کردیا گیا۔ اس کے علاوہ تیزی سے گرتے زرِمبادلہ ذخائر کے باوجود آئی ایم ایف نے بے رحمی کے ساتھ بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے واپس کر دیا اور مزید ٹیکس لگانے کا مطالبہ کیا۔ ایسے میں وزیراعظم شہبار شریف نے سپر ٹیکس کے نفاذ کا اعلان کیا۔ اس میں پیداواری اور خدمات کے شعبے کی 10 صنعتوں پر چار فیصد ٹیکس کے علاوہ ان کے نفع پر مزید چھ فیصد اضافی ٹیکس لگا دیا گیا۔ اس طرح 13 شعبہ جات کی کمپنیوں پر سپر ٹیکس کی شرح 10 فیصد کر دی گئی۔ وزیراعظم صاحب نے فرمایا تھا کہ یہ سپر ٹیکس عوام کو غربت سے نکالنے کے لیے لگایا گیا ہے لیکن نتیجہ دعووں سے بالکل مختلف نکلا۔ وزیراعظم کا یہ اعلان سرمایہ کاروں اور سٹاک مارکیٹ کے لیے حیران کن تھا اور یہی وجہ تھی کہ جیسے ہی سپر ٹیکس کا اعلان کیا گیا‘ سٹاک مارکیٹ کریش کرگئی اور انڈیکس دو ہزار پوائنٹس تک گر گیا۔
اگر زراعت پر نظر ڈالی جائے تو اسے دو ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ ایک دور سیلاب سے پہلے اور دوسرا سیلاب کے بعد۔ پاکستان میں زرعی اعداد و شمار مالی سال کے حساب سے جاری کیے جاتے ہیں۔ اس سال جون میں ختم ہونے والا مالی سال زراعت کے حوالے سے بہتر رہا۔ زرعی ترقی تقریباً ساڑھے چار فیصد ریکارڈ کی گئی جبکہ ہدف ساڑھے تین فیصد تھا۔ فصلوں کی پیداوار تقریباً سات فیصد رہی جو پچھلے مالی سال میں تقریباً چھ فیصد تھی۔کپاس کی فصل کی پیداوار تقریباً سات ملین بیلز سے بڑھ کر سوا آٹھ ملین بیلز ہوئی۔ چاولوں کی پیداوار ساڑھے آٹھ ملین ٹن سے بڑھ کر تقریباً سوا نو ملین ٹن رہی۔ گنے کی پیداوار اسّی ملین ٹن سے تقریباً نواسی ملین ٹن تک بڑھ گئی۔ صرف گندم کی پیداوار میں معمولی سی کمی دیکھی گئی۔ یہی وجہ تھی کہ کسانوں کی مالی حالت بہتر ہوئی۔ لیکن جب سیلاب آیا تو زرعی ترقی بری طرح متاثر ہوئی۔ تقریباً تین ملین ٹن کپاس کی فصل کا نقصان ہوا۔ چھبیس لاکھ ٹن چاول کی فصل تباہ ہوئی ہے اور تقریباً ستاون لاکھ ٹن گنے کی فصل کو نقصان پہنچا۔ زراعت کے حوالے سے 2022ء کی شروعات شاندار تھی لیکن اختتام اچھا نہیں رہا۔ اگر یہ کہا جائے کہ موجودہ سال زراعت کی عروج و زوال کا یکساں سال تھا تو غلط نہ ہو گا۔
سی پیک کے حوالے سے بھی موجودہ سال میں کوئی بہتر خبر نہیں آ سکی۔ سی پیک کے تحت پہلے مرحلے میں انرجی پروجیکٹس مکمل کرنا تھے اور دوسرے مرحلے میں اکنامک زونز بنائے جانا تھے۔ انرجی منصوبوں کی بروقت ادائیگیاں نہ ہونے کی وجہ سے منصوبہ تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ چین نے اس سال کئی طریقوں سے پاکستانی حکام کو آگاہ کیا لیکن پاکستان کی کمزور معاشی صورت حال کے باعث چین کو ادائیگیاں نہیں ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں چینی صدر شی جن پنگ نے براہِ راست وزیراعظم شہباز شریف سے مطالبہ کیاکہ چینی سرمایہ کاروں کو قانونی تحفظ دیا جائے۔ اس سے قبل ہیڈ آف دی سٹیٹس کے لیول پر کبھی ایسا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ معاملات سٹاف لیول پر ہی ڈسکس کیے جاتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چین کمفرٹیبل نہیں رہا اور وہ مزید سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔ ادائیگیوں کی صورتحال یہ ہے کہ 2017ء تک کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں تقریباً 255 ارب روپوں کی ادائیگی کی گئی اور 2022ء میں یہ رقم 1200 ارب روپے تک بڑھ گئی، جس کا تقریباً 35 فیصد چینی کمپنیوں کو واجب الادا ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2025ء تک یہ رقم 3600 ارب روپوں تک بڑھ سکتی ہے جس کی ادائیگی تقریباً ناممکن ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر چین مزید سرمایہ کاری کرنے سے گریزاں ہے۔پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال بھی سی پیک منصوبوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ رہی۔ حکومتوں کے تبدیل ہونے اور لانگ مارچ، دھرنوں کے نام پر ملک میں بے یقینی کی صورت حال پیدا ہو ئی۔ چینی انجینئرز اور سٹاف پر ہونے والے حملوں پر بھی چین کو شدید تحفظات ہیں۔ جولائی میں چینی شہریوں پر ہونے والے دہشت گرد حملے کے بعد سی پیک پر کام کی رفتار میں نمایاں کمی آ گئی تھی۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں