ڈالر ریٹ اور قرضوں کے معاشی اثرات

اگلے روز چیئرمین تحریک انصاف کا ایک وڈیو بیان میں کہنا تھا کہ اُن کو قتل کرنے کی ایک اور سازش کی گئی ہے۔ اس سے پہلے بھی انہوں نے یہ دعویٰ کیا تھا اور لانگ مارچ کے دوران ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے نے ان کے خدشات کو تقویت دی تھی۔ ریاستی اداروں اور سرکار کو چاہیے کہ وہ صورتحال کی سنگینی کا جائزہ لیں تاکہ مزید کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ بینظیر بھٹو نے بھی اپنے قتل سے قبل ایک خط میں ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا تھا لیکن اُن کے خط کو نظر انداز کیا گیا اور ملک ایک بہادر خاتون لیڈر سے محروم ہو گیا۔
ایک طرف ملک میں سیاسی عدم استحکام روز افزوں ہے تو دوسری طرف غیرمقبول حکومتی فیصلوں نے عوام میں اضطراب بڑھا دیا ہے۔ قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آ ہی جاتا ہے کہ جب انتہائی مشکل فیصلے لینا ناگزیر ہو جاتا ہے اور ان فیصلوں کے بعد حالات اکثر نارمل ہو جاتے ہیں لیکن پاکستانی عوام کی زندگیوں سے یہ مشکل وقت گیا ہی نہیں۔ حالات نارمل ہونے کے بجائے مزید خراب ہو رہے ہیں اور کوئی بھی اس کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔ ناکام حکمرانوں کی ایک نشانی یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی ناکامیوں کا بوجھ دوسروں پر ڈالتے رہتے ہیں‘ جس کی وجہ سے وہ مسائل کا درست ادراک نہیں کر پاتے اور حالات مزید خراب ہوتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک میں یہ روایت عام ہے کہ جب کوئی وزیراعظم یا وزیر یہ سمجھتا ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر عملدرآمد نہیں کر سکا اور اس کے دعوے بھی غیرحقیقی ہیں تو وہ مستعفی ہونے کو ترجیح دیتا ہے۔ حال ہی میں نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کا مستعفی ہونا اس کی بڑی مثال ہے۔ ایسے حکمران اللہ کی طرف سے تحفہ ہوتے ہیں۔ قومی ترقی کے لیے اعلیٰ کردار کے حامل سیاستدان بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ پاکستان مگر اس نعمت سے محروم ہے۔
اسحاق ڈار صاحب جب وزیر خزانہ بنے تو ان کا دعویٰ تھا کہ ڈالر دو سو روپے سے نیچے لائیں گے۔ وہ جیسے ہی وطن واپس لوٹے‘ ڈالر ریٹ میں کمی آنے لگی۔ جس کا انہوں نے بھرپور کریڈٹ بھی لیا لیکن میں نے اس وقت بھی یہ نشاندہی کی تھی کہ حکومت نے تین سو ملین ڈالرز مارکیٹ میں پھینکے تھے تاکہ ڈالر کا ریٹ نیچے لایا جا سکے۔ تب حکومت اس کی تردید کرتی رہی لیکن بعدازاں میری خبر درست ثابت ہوئی۔ میں نے ڈار صاحب کے حوالے سے انہی صفحات پر لکھا تھا کہ وہ ڈالر کو زیادہ عرصہ تک کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ آج وہ بات درست ثابت ہو چکی ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ پہلی میٹنگ میں ہی انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ڈالر کنٹرول کرنا ان کے بس میں نہیں لیکن وہ پھر بھی عوام کو تسلیاں دیتے رہے۔ صرف دو روز میں ڈالر ریٹ میں تقریباً بتیس روپے اضافے کے بعد بھی اُن کا کہنا ہے کہ قدرت پاکستان کو چلا رہی ہے اور آگے بھی چلاتی رہے گی لیکن وہ شاید یہ نہیں جانتے کہ قدرت بھی انہی کی مدد کرتی ہے جو اپنی مدد آپ کریں اور ذاتی مفاد پر ملکی اور عوامی مفاد کو ترجیح دیں۔ پاکستان جب وجود میں آیا تب بھی اسی قسم کے نعرے لگائے گئے کہ پاکستان قدرت کے رازوں میں سے ایک راز ہے اور کوئی اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے ہی پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور اُس وقت کی قیادت کی غلطیوں کی سزا ملکِ عزیز کو بھگتنا پڑی۔
ادھر مریم نواز کی وطن واپسی سیاسی ماحول کو مزید گرما سکتی ہے۔ دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑے ملک کی حکمران جماعت کی رہنما کی شاہانہ انداز میں وطن واپسی مناسب عمل نہیں ہے۔ جو جماعت عوام کو ریلیف فراہم نہ کر سکی‘ اس کے رہنماؤں کا شاہانہ طرزِ زندگی عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ آنے والے دنوں میں سیاسی ماحول کیا رخ اختیار کرتا ہے‘ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن معاشی صورتحال مزید خراب ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد کرتے ہوئے ڈالر کی قیمت تو بڑھا دی ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ قیمت درست ہے اور کیا یہ اضافہ آخری مرتبہ ہے؟ کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے آئی ایم ایف کی ہر قسط ملنے سے پہلے روپے کی قدر گھٹنا معمول بن چکا ہے۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا تو ڈالر کی قیمت پانچ سو روپے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ انٹربینک اور گرے مارکیٹ میں ڈالر ریٹ تقریباً ایک سطح پر آ گیا ہے۔ اس وقت افغانستان میں ایک ڈالر تقریباً پاکستانی دو سو ستر روپے کے برابر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں ڈالر کا ریٹ تقریباً دو سو پینسٹھ کے قریب رہ سکتا ہے۔ اگر حکومت نے برآمدات بڑھانے اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کے لیے ٹھوس اقدامات نہ کیے تو ایکسپورٹرز اور بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ایک مرتبہ پھر گرے مارکیٹ کا رخ کر سکتے ہیں اور ڈالر ریٹ مزید بڑھانا حکومت کی مجبوری بن سکتا ہے۔ اس وقت ڈالر ذخائر نو سال کی کم ترین سطح پر ہیں۔ اگر اگلے ہفتے آئی ایم ایف کا وفد پاکستان نہ پہنچا تو زرِمبادلہ کے موجودہ ذخائر سے صرف چند روز کی درآمدات ہی ہو سکیں گی جو کہ تشویشناک ہے۔ یہاں کچھ ذمہ داری پاکستانی برآمد کنندگان پر بھی عائد ہوتی ہے۔ انٹر بینک میں ڈالر ریٹ بہتر ہو چکا ہے۔ امید ہے کہ وہ ڈالرز ہنڈی اور حوالے کے بجائے بینکنگ چینلز کے ذریعے پاکستان منگوائیں گے۔ حکومت کو بھی ہنڈی حوالہ کے راستے بند کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک کا درآمدکنندگان سے یہ کہنا کہ وہ ڈالر کی ضرورت جہاں سے پوری کر سکتے ہیں کر لیں‘ انتہائی تشویش ناک ہے۔ اس بیان کو واپس لیے جانے کی ضرورت ہے۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی گورنر سٹیٹ بینک کے بیان پر ردِعمل آ سکتا ہے۔ ڈالر ریٹ بڑھانے سے متعلق تاخیری حربے پاکستان کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئے ہیں۔ اگر اکتوبر یا نومبر میں یہ فیصلے کر لیے جاتے تو متحدہ عرب امارات کے بینکوں کو تقریباً ایک ارب ڈالرز واپس نہ کرنا پڑتے اور ان کی مدت بڑھائی جا سکتی تھی۔ ورلڈ بینک اور دوست ممالک سے بروقت مالی امداد مل سکتی تھی۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ مزید منفی ہونے سے بچ سکتی تھی۔ ایکسپورٹ انڈسٹری بہتر ہو سکتی تھی اور ڈالر ذخائر میں اضافہ ہو سکتا تھا۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ پاکستان اس مالی سال میں تقریباً پانچ ارب ساٹھ کروڑ ڈالرز ہی قرض حاصل کر سکا ہے۔ جبکہ حکومت نے یہ تخمینہ لگایا تھا کہ وہ تقریباً بائیس ارب ڈالرز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ کمرشل بینکوں سے بھی صرف دو ارب ڈالرز حاصل ہو سکے ہیں جبکہ تخمینہ تقریباً سوا سات ارب ڈالرز لگایا گیا تھا۔ حکومت نے زری پالیسی ریٹ میں بھی اضافہ کیا ہے تاکہ مزید قرض مل سکے لیکن ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں انویسٹرز پاکستانی بانڈز لینے کو تیار نہیں ہیں۔ دوست ممالک بھی قرض نہیں دے رہے۔ صرف ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں نے قرض دیے ہیں۔ اگر بروقت اصلاحات نہ کی گئیں تو ممکن ہے کہ یہ بینکس بھی مزید قرض دینے سے معذرت کر لیں اور پاکستان کے پاس قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کروانے کے علاوہ کوئی آپشن نہ بچے۔ آئی ایم ایف نے سری لنکا سے کہا ہے کہ وہ پہلے پیرس کلب‘ چین اور دیگر ممالک سے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کروائے۔ اس کے بعد ہی قرض مل سکے گا۔ ری سٹرکچرنگ آخری حربہ ہوتا ہے۔ اسحاق ڈار صاحب نے چند ماہ قبل اس آپشن پر کام کرنے سے انکار کر دیا تھا لیکن اب شاید وقت آ چکا ہے کہ سب سے پہلے چین سے قرضوں کی ری سٹرکچرنگ اور کچھ قرض معاف کرنے کی بات کی جائے۔ اس کے لیے اگر کوئی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تو قوم کو اعتماد میں لے کر سخت فیصلے کیے جا سکتے ہیں‘ آخر ملکی اثاثے ملک بچانے کے لیے ہی ہوتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں