اسحاق ڈار صاحب ستمبر 2022ء کے آخری ہفتے پاکستان پہنچے اور اکتوبر سے آئی ایم ایف پروگرام التوا کا شکار ہو گیا۔ ڈالر ریٹ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے کے بجائے اسے کنٹرول کیا گیا نتیجتاً کچھ عرصہ ڈالر بڑھنے کے بجائے کم ہوا۔ اعداد و شمار کے مطابق ایسا ہونا ناممکن تھا لیکن مبینہ طور پر ڈار صاحب نے سٹیٹ بینک کے ذریعے 3سو ملین ڈالرز مارکیٹ میں پھینکے تاکہ ڈالر کا ریٹ نیچے لایا جا سکے۔ وہ لیکن زیادہ دیر تک اس میں کامیاب نہ ہوئے۔ نہ صرف تین سو ملین ڈالرز ضائع ہوئے بلکہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر کے پانچ ریٹ مارکیٹ میں آئے اور ڈالرز کی گرے مارکیٹ بھی پیدا ہو گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ اسحاق ڈار کی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک کو نقصان ہوا ہے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔ ڈالر کو کنٹرول کرنے کا مقصد مہنگائی میں اضافے کو روکنا تھا جبکہ وہ کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی کیونکہ جو اشیا درآمدات کے ذریعے نہیں آئیں‘ وہ سمگلنگ کے ذریعے ملک میں پہنچ گئیں اور سمگلرز کا ریٹ حکومت کے ریٹ سے زیادہ ہوتا ہے۔ آج مہنگائی اڑتالیس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ جب ڈار صاحب وزیر خزانہ بنے تو سٹیٹ بینک کے ذخائر تقریباً 8ارب ڈالرز تھے جوکہ اب تین ارب سے کچھ زیادہ ہیں۔ ڈار صاحب نے آتے ہی برآمدکنندگان سے بڑے وعدے کیے لیکن پالیسی پر عملدرآمد نہ کرنے کی وجہ سے برآمدات میں اضافے کے بجائے بتدریج کمی واقع ہو رہی ہے۔ پچھلے مہینے برآمدات میں تقریباً 15فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ پچھلے چار ماہ میں ایکسپورٹرز نے تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز غیرقانونی طریقے سے پاکستان منگوائے۔ اگر ترسیلاتِ زر کی بات کی جائے تو آئی ایم ایف کی شرائط نہ ماننے سے پیدا ہونے والی گرے مارکیٹ کی وجہ سے ڈالرز بینکنگ چینلز سے نہیں آئے‘ جس سے ایک اندازے کے مطابق پچھلے چھ ماہ میں ترسیلاتِ زر میں 11فیصد سے زائد کمی ہوئی۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نہ ہوتی تو متحدہ عرب امارات کے بینکوں کو تقریباً ایک ارب ڈالرز کا قرض نہ لوٹانا پڑتا۔ انہیں پاکستانی معیشت پر اعتماد ہوتا اور قرض کی مدت بڑھوائی جا سکتی تھی۔ اسی طرح چین کو بھی تقریباً 70کروڑ ڈالرز کی ادائیگی نہ کرنا پڑتی۔ اسحاق ڈار صاحب نے پٹرولیم مصنوعات پر لیوی کو بھی فوری طور پر نہیں بڑھایا۔ گیس اور بجلی کے شعبوں کے گردشی قرضوں کو ختم کرنے کیلئے ان کے نرخوں میں اضافہ بھی نہیں کیا۔ اگر نرخوں میں بتدریج اضافہ ہوتا رہتا تو عوام اسے کسی حد تک برداشت کر لیتے لیکن اب یکایک پٹرول‘ ڈیزل‘ گیس‘ بجلی اور مہنگائی بڑھنے سے عوام کی مشکلات زیادہ بڑھیں گی۔ اس کے علاوہ جو کنٹینرز ایک کروڑ روپے میں کلیئر ہونا تھا وہ اب ڈیڑھ کروڑ میں بھی کلیئر نہیں ہو رہا جس سے مہنگائی کا نیا طوفان آ سکتا ہے۔ موجودہ فیصلوں کا اثر تین ماہ بعد سامنے آئے گا۔ اور حالات مزید خراب ہوں گے۔
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتحال کی ساری ذمہ داری کسی ایک فرد پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ ملکی حالات اگست 2021ء کے بعد سے خراب ہونا شروع ہو ئے۔ اگست 2021ء میں ڈالرز ذخائر تقریباً 20ارب ڈالرز تھے۔ فروری 2022ء میں جب اس وقت کی حکومت نے پٹرولیم سبسڈی دی تو یہ گر کر 12ارب ڈالرز رہ گئے۔ اپریل میں جب نئی حکومت آئی تو ذخائر تقریباً 10 ارب ڈالرز تھے۔ جب اسحاق ڈار وزیر خزانہ بنے تو یہ تقریباً آٹھ ارب ڈالرز تھے اور آج یہ 3ارب سے کچھ زیادہ رہ گئے ہیں۔ اتحادی حکومت زرِ مبادلہ کے ذخائر میں اضافے میں ناکام رہی ہے۔ زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ گردشی قرضوں کا ہے۔ جب پرویز مشرف کا دور حکومت ختم ہوا تو پاکستان کے انرجی سیکٹر کے گردشی قرضے تقریباً سو ارب کے قریب تھے۔ جب پیپلز پارٹی کا دور ختم ہوا تو گردشی قرضے تقریباً پانچ سو ارب تک پہنچ چکے تھے۔ (ن) لیگ کے دورِ حکومت کے اختتام پر گردشی قرضے ایک ہزار ارب روپے سے زیادہ تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے ختم ہونے پر گردشی قرضے تقریباً دو ہزار ارب تک پہنچ چکے تھے اور اب پی ڈی ایم کی حکومت میں گردشی قرضے تقریباً چھبیس سو ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ اگر گیس اور دیگر شعبوں کو بھی شامل کر کیا جائے تو گردشی قرضے چار ہزار ارب سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک بھی حکومت نے ملک کے گردشی قرضوں کو کم کرنے کا کوئی کامیاب فارمولا نہیں بنایا۔ اس وقت ملک انتہائی نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اگر آئی ایم ایف نے بندرگاہ پر تمام امپورٹ فوراً کلیئر کرنے کا حکم دے دیا اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے منافع کو بیرونِ ملک منتقل کرنے کا کہہ دیا تو حالات کیا ہوں گے‘ عوام شاید اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ حکومت اب بھی کچھ معاملات پر آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے ہوتے ہیں یا نہیں‘ اس کا اندازہ آئندہ چند روز میں ہو جائے گا۔ اگر آئی ایم ایف معاہدہ بحال نہیں ہوا تو پھر حالات کی خرابی کی مکمل ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوگی۔ اس کے علاوہ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ڈار صاحب نے ڈالر کو روک کر پاکستانی عوام کی مشکلات میں اضافہ کیا اور جب ڈالر کو آزاد چھوڑا تو ساتھ میں امپورٹرز کو یہ بھی اجازت دے دی کہ وہ گرے مارکیٹ سے جتنا چاہے ڈالر خرید لیں۔ ایسے فیصلوں سے ڈالر نے بے قابو تو ہونا ہے۔ ڈار صاحب افغانستان کے وزیر خزانہ سے بھی ڈالر سمگلنگ معاملے پر بات نہیں کر سکے کیونکہ جب پاکستان میں ڈالر ریٹ افغانستان کے برابر ہو جاتا ہے تو افغانستان میں پھر دس روپے ڈالر بڑھا دیا جاتا ہے۔ اور ڈالر پھر سے افغانستان سمگل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار پکڑتی جا رہی ہے کہ اسحاق ڈار صاحب سے اس مرتبہ آئی ایم ایف کو سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہے۔ ان کے وزیر خزانہ بننے سے ملک کو فائدے کے بجائے نقصان ہوا ہے۔
اس کے علاوہ آئی ایم ایف کا وفد اس وقت پاکستان میں موجود ہے۔ مذاکرات جاری ہیں لیکن ابھی تک کوئی مثبت خبر سامنے نہیں آ سکی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف شرائط ماننے کے بعد پاکستان کی معاشی مشکلات کم ہو جائیں گی۔ میرے مطابق آئی ایم ایف قرض ملنے کے بعد معاشی مسائل کم ہونے کے امکانات نہیں ہیں بلکہ عوامی سطح پر مالی بحران سنگین ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اگر آئی ایم ایف پروگرام بحال ہوتا ہے تو تقریباً 1.1ارب ڈالر آئی ایم ایف سے ملیں گے۔ 2ارب ڈالرز سعودی عرب سے آئیں گے‘ 1ارب ڈالرز متحدہ عرب امارات دے گا اور تقریباً 1ارب ڈالرز چین سے مل جائیں گے۔ یہ تقریباً 5 ارب دس کروڑ ڈالرز بنتے ہیں۔ اس وقت پاکستان کی بندرگاہوں پر تقریباً چار ارب ڈالرز کی درآمدات کے کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں۔ جون تک 8ارب ڈالرز قرض ادا کرنا ہے۔ 5ارب ڈالرز ملتوی ہو سکتے ہیں لیکن تین ارب ڈالرز کیش ادا کرنے ہیں۔ دیکھا جائے تو 5ارب دس کروڑ ڈالرز آ بھی جائیں تو تقریباً 7ارب ڈالرز ادا کرنے ہیں۔ اس حساب سے بھی پاکستان کو تقریباً 2ارب ڈالرز خسارے کا سامنا رہے گا۔ یہ جون تک کی صورتحال ہے۔ اس کے بعد کیا ہوگا‘ کسی کو کچھ معلوم نہیں ہے۔ اس وقت ڈالرز کہاں سے آئیں گے۔ کیا پاکستان کی برآمدات بڑھیں گی؟ کیا بیرونِ ملک پاکستانی ملک میں ڈالرز بھیجنا شروع کر دیں گے؟ کیا پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہو چکا ہوگا؟ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کے در پر ہوگا۔ مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا اور نئے قرض کی نئی سخت شرائط ہوں گی۔ آئی ایم ایف کا یہ پروگرام ختم ہونے کے بعد بھی پاکستان کو دوبارہ آئی ایم ایف کا پروگرام لینا پڑے گا اور شاید اگلے دو سے تین سال اسی طرح گزارنا پڑیں۔ ممکن ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ ڈکلیئر نہ ہو لیکن مہنگائی اور بے روزگاری کی جو صورتحال بن جائے گی‘ وہ ڈیفالٹ ہونے والے ممالک سے بدتر ہو سکتی ہے۔