اگلے روز لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کو 90روز کی آئینی مدت میں پنجاب میں انتخابات کے انعقاد کیلئے انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم جاری کردیا ہے۔ عدالتی فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن گورنر پنجاب سے مشاورت کے بعد فوری تاریخ کا اعلان کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ اسمبلی تحلیل ہونے کے 90روز کے اندر الیکشن ہوں۔ تحریک انصاف اس فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دے رہی ہے۔ پی ڈی ایم کے لیے آپشنز مزید محدود ہو گئی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد الیکشنز کی تاریخ دینے کیلئے الیکشن کمیشن کے پاس بھی زیادہ وقت نہیں ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اپیل کا حق تو موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ اپیل کن بنیادوں پر کی جائے گی؟ موجودہ صورتحال گمبھیر ہے۔ ایک طرف عدالتی حکم ہے اور دوسری طرف متعلقہ اداروں نے الیکشنز کروانے یا اس میں سہولت فراہم کرنے سے متعلق معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ موجودہ حالات میں پی ڈی ایم کیا راستہ اختیار کرتی ہے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک میں سیاسی جماعتوں کا مثبت کردار تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔ سیاست مسائل کا حل میز پر بیٹھ کر مشاورت سے نکالنے کا نام ہے۔ اگر سیاستدانوں نے الیکشنز کیلئے بھی معزز عدالتوں سے ہی رجوع کرنا ہے تو سیاسی جماعتوں میں جمہوریت اور مفاہمت کا نعرہ لگانے والے سینئر سیاستدانوں کا کردار بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔ سیاستدانوں کے انہی غیرسنجیدہ رویوں کی وجہ سے ملک کے معاشی مسائل کا حل نہیں نکل پا رہا ہے۔ آئی ایم ایف مشن مذاکرات کے بعد واپس جا چکا ہے۔ مذاکرات کے بعد بھی آئی ایم ایف کی جانب سے سٹاف لیول معاہدہ نہ ہونا اچھی خبر نہیں ہے۔ وزیر خزانہ صاحب چاہے کچھ بھی کہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ابھی تک آئی ایم ایف کی جانب سے مثبت رائے سامنے نہیں آئی ہے۔ میری اطلاعات کے مطابق ابھی بہت سے اقدامات ایسے ہیں جو پاکستان کے ذمہ ہیں اور ان کو کیے بغیر آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ نہیں ہو سکے گا۔ سٹاف لیول معاہدہ ہونے کے تقریباً تین ہفتوں بعد آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہے جس میں پاکستان کو قرض دینے سے متعلق حتمی فیصلہ لیا جائے گا۔ میں نے نومبر ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا کہ آئی ایم ایف کی قسط مارچ کے مہینے میں ملے گی۔ اس تاخیر کی ذمہ داری موجودہ وزیر خزانہ پر عائد ہوتی ہے۔ اگر بروقت فیصلے لے لیتے تو ڈالر ذخائر اتنے نہ گرتے اور روپیہ بھی آہستہ آہستہ مستحکم ہو جاتا۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آئی ایم ایف کا یہ پروگرام ختم ہونے کے بعد اگلا پروگرام بھی اِتنا ہی ضروری ہوگا کیونکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کو اگلے کئی سالوں تک ڈالر کرنچ کا سامنا رہے گا۔ سالانہ 35 ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی برآمدات یا ترسیلاتِ زر سے ہونا تقریباً ناممکن ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان اسی طرح چلتا رہے گا یا پھر اس صورتحال سے باہر نکلنے اور ترقی کے راستے پر جانے کا کوئی راستہ بھی موجود ہے؟ اس حوالے سے ماضی میں جھانکنے سے کئی ایسی مثالیں مل سکتی ہیں جو پاکستان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
1991ء میں انڈیا کی اقتصادی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی۔ 21مئی 1991ء کو سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو انتخابی مہم کے دوران قتل کر دیا گیا اور نرسہما راؤ وزیراعظم بن گئے۔ من موہن سنگھ جو بعد میں انڈیا کے وزیراعظم بنے‘ وہ ان کی کابینہ میں وزیر خزانہ تھے۔ جب نرسہما راؤ نے عنانِ اقتدار سنبھالا تو اس وقت بھی خلیجی جنگوں کی وجہ سے تیل کی قیمتیں اسی طرح آسمان پر تھیں جیسی آج کل روس یوکرین جنگ کی وجہ سے ہیں۔ جس کی وجہ سے انڈیا کے زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہو رہے تھے۔ انڈیا کے پاس بھی اپنی درآمدات کے لیے سرکاری خزانے میں پیسے ختم ہو چکے تھے۔ انڈیا کا بجٹ خسارہ اس کے جی ڈی پی کے آٹھ فیصد سے اوپر جا چکا تھا۔ مہنگائی بھی تاریخی حدوں کو چھو رہی تھی اور عام آدمی کی زندگی سخت مصائب میں گھر چکی تھی۔ نرسہما راؤ کی اولین ترجیح انڈیا کو دیوالیہ ہونے سے بچانا تھا اور اس مقصد کے لیے انہوں نے پہلا قدم یہ اٹھایا کہ بھارتی روپے کی قدر کو یکم جولائی کو نو فیصد گرا دیا جبکہ اس کے دو دن بعد ہی مزید 11فیصد گرایا‘ جس کا مقصد یہ تھا کہ بھارتی برآمد کنندگان کو مزید سازگار ماحول فراہم کیا جائے اور ملکی برآمدات میں اضافہ ہو۔ نرسہما راؤ جانتے تھے کہ اس اقدام کی سیاسی قیمت انہیں چکانا پڑے گی۔ زرِمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کیلئے ایک قدم یہ اٹھایا گیا کہ انڈیا کے پاس جو سونے کے ذخائر تھے‘ انہیں بینک آف انگلینڈ کے پاس گروی رکھا گیا جس سے انڈیا کو 400 ملین ڈالر ملے‘ جبکہ اس سے پہلے انتخابی مہم کے دوران ہی سٹیٹ بینک آف انڈیا نے یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ کو 20 ٹن سونا فروخت کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ انڈیا نے آئی ایم ایف سے دو ارب ڈالر کا قرضہ لیا۔ درآمدات کی ادائیگیوں کیلئے زرمبادلہ کا انتظام وقتی طور پر تو سود مند ثابت ہو سکتا تھا مگر انڈیا کو مستقل طور پر مالی بحران سے نکالنے کیلئے اس کے مالیاتی ڈھانچے میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ناگزیر تھیں‘ جس کیلئے نرسہما راؤ نے اپنی قوم کو اعتماد میں لیا۔ انہوں نے سب سے زیادہ توجہ برآمدات بڑھانے پر مرکوز کی اور اس مقصد کیلئے نئی تجارتی پالیسی کا اعلان کیا جس کے تحت لائسنس راج کا خاتمہ کر دیا گیا یا اسے بہت حد تک محدود کر دیا گیا۔ یعنی جو بندہ صنعت لگانا چاہے‘ وہ سرمایہ لائے اور لگائے‘ اسے ہر قسم کے اجازت ناموں اور سرخ فیتے سے آزاد کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی غیرضروری درآمدات پر پابندی لگا دی گئی اور ملکی سرمایہ کاروں کو کہا گیا کہ وہ یہ مصنوعات اپنے ملک میں پیدا کریں۔ برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی حکومت نے برآمدی مال پر صنعت کاروں کو مراعات بھی دیں۔ ان کیلئے کسٹم ڈیوٹیوں اور دیگر ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی۔ سرکاری فرموں کے ذریعے ہونے والی درآمدات کو بھی ختم کر دیا گیا اور پرائیویٹ سیکٹر کو کہا گیا کہ اب مارکیٹ کی ضرورت کے مدنظر رکھ کر ہی مال درآمد کریں۔ نئی حکومت نے پہلے سال کے بجٹ میں ہی ملک کیلئے نئی صنعتی پالیسی متعارف کروائی جو گیم چینجر ثابت ہوئی۔ بیرونی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو مکمل چھوٹ دی گئی اور انہیں ہر قسم کے این او سی اور لائسنسوں سے مبرا کر دیا گیا‘ جس سے کئی شعبوں میں سرکاری اجارہ داری ختم ہو گئی۔ غیرملکی سرمایہ کاری کی اس حد تک حوصلہ افزائی کی گئی کہ پہلے انڈیا میں کسی بھی منصوبے میں غیرملکی سرمایہ کاری کی حد 40فیصد تھی جسے بڑھا کر 51فیصد کر دیا گیا۔ سرکار کی درآمدات کا دائرہ صرف ان شعبوں تک محدود کر دیا گیا جن کا تعلق قومی سلامتی کے امور سے تھا۔ ان پالیسیوں کی بدولت اگلے سالوں میں انڈیا میں بیرونی سرمایہ کاری میں خاصا اضافہ دیکھنے کو ملا۔
پاکستان کو آج انہی حالات کا سامنا ہے‘ جن سے انڈیا 1991ء تک نبرد آزما رہا ہے۔ جب تک انڈیا نے سوشلسٹ اکانومی ماڈل کے بجائے آزاد تجارت‘ ڈی ریگولیشن اور پرائیویٹائزیشن کی پالیسیاں اختیار نہیں کی تھیں تب تک انڈیا کی اکانومی بھی زبوں حالی کا شکار ہی رہی تھیں۔ اصلاحات کے بعد سے انڈیا کی حالت بدلنا شروع ہوئی جس کے بعد وہاں غیرملکی سرمایہ کاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوا اور اس کے جی ڈی پی میں اضافے کی شرح آٹھ فیصد سے بھی زیادہ ہو گئی۔ 1991ء میں متعارف کروائی گئی اصلاحات کی وجہ سے ان کے زرِمبادلہ کے ذخائر 2000ء میں 81ارب ڈالر تھے جو آج چھ سو ارب ڈالر سے بھی اوپر ہیں کیونکہ ان کی برآمدات 16ارب ڈالر سے بڑھ کر 240ارب ڈالر ہو چکی ہیں۔ 3ٹرلین ڈالر کے حجم کے ساتھ انڈیا آج دنیا کی چھٹی بڑی معیشت بن چکی ہے اور اس کی فی کس آمدنی 2500ڈالر سالانہ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان کے لیے اس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا اور اسے اب اپنی معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ہوگا۔ کب تک آئی ایم ایف سمیت عالمی اداروں کے آگے گھٹنے ٹیکتے رہیں گے؟