سیاست، منی بجٹ اور معیشت

اس وقت پی ڈی ایم نامی سیاسی اتحاد کا مقابلہ صرف ایک جماعت یعنی تحریک انصاف سے ہے لیکن اس اتحاد کی مقبولیت مزید کم ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ عوام کا مسئلہ بجلی، گیس، پٹرول اور اشیائے خور و نوش کی قیمتیں ہیں۔ جو حکومت ان میں کمی لانے میں کامیاب ہو گی‘ وہی عوام کی آنکھ کا تارا بنے گی لیکن فی الحال مہنگائی میں کمی آنے کے کوئی آثار موجود نہیں ہیں بلکہ مہنگائی اور بیروزگاری میں روز بروز اضافہ ہو گا۔ مہنگائی کی شرح بڑھا کر ملک چلانا ایک ناکام حکمت عملی ہے۔ تجربہ کار وزیر خزانہ اور ماہرِ معاشیات کی فوج ظفر موج لاکھوں روپے تنخواہیں اور مراعات لے رہی ہے لیکن ملک کی معاشی بہتری کے لیے کوئی مؤثر پالیسی سامنے نہیں آ رہی۔
موجودہ دور میں وزارتِ خزانہ کا کردار ربڑ سٹمپ سے زیادہ نظر نہیں آ رہا۔ آئی ایم ایف جو پالیسیاں فائنل کرتا ہے ان پر عمل درآمد ہونے لگتا ہے۔ وزارتِ خزانہ آئی ایم ایف کے احکام کی تعمیل کیلئے کبھی صدرِ پاکستان اور کبھی پارلیمنٹ کا رخ کرتی ہے۔آئی ایم ایف کا تجویز کردہ منی بجٹ پاس ہو گیا ہے لیکن اس کے ملکی معیشت پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ان حالات میں وزیراعظم نے معیشت پر ایک ٹاسک فورس بنائی ہے تا کہ ملک کو درپیش معاشی مسائل سے نکلنے کی راہ تلاش کی جا سکے۔ اس ٹاسک فورس میں ملک کے بڑے صنعتکار، ماہرِ معاشیات اور بڑے تجارتی گروپوں کے سربراہ شامل ہیں۔ وزیراعظم صاحب کا یہ فیصلہ حوصلہ افزا ہے لیکن اس کا فائدہ اسی وقت ہو گا جب دعووں اور عمل میں فرق نہیں ہو گا۔ ایک طرف معیشت پر ٹاسک فورس بنائی جا رہی ہے اور دوسری طرف مزید پانچ معاونِ خصوصی کابینہ میں شامل کر لیے گئے ہیں جبکہ ان حالات میں کابینہ کا حجم پہلے سے بھی کم کیا جانا چاہیے۔ وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی کی لگژری گاڑیوں پر پابندی لگنی چاہیے۔ بھارت کے پاس 575 ارب ڈالرز سے زائد کے زرِمبادلہ کے ذخائر ہیں اور اس کے وزرا کو سرکاری سطح پر جو گاڑی الاٹ ہوتی ہے‘ وہ ہے جو بھارت میں تیار ہوتی اور ایک سستی اور چھوٹی گاڑی سمجھی جاتی ہے۔ پاکستان کے زرِمبادلہ کے ذخائر اس وقت دو ارب اسی کروڑ ڈالرز ہیں اور یہاں وزرا، مشیران اور معاونینِ خصوصی امپورٹڈ گاڑیاں استعمال کر رہے ہیں۔ سرکاری بابو بھی شاہانہ لائف سٹائل انجوائے کر رہے ہیں اور سارا بوجھ غریب عوام پر ڈالا جا رہا ہے۔
170ارب روپے کے نئے ٹیکسز کا منی بجٹ عوام کیلئے کسی ڈرائونے خواب سے کم نہیں ہے۔حکومت اس منی بجٹ کا بڑا حصہ جی ایس ٹی اور ایف ای ڈی بڑھا کر حاصل کرے گی۔ سیلز ٹیکس سترہ فیصد سے بڑھا کر اٹھارہ فیصد کیا گیا ہے جس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔ تقریباً 55 ارب روپے سیلز ٹیکس اور 60 ارب روپے سگریٹس پر ایف ای ڈی بڑھانے سے حاصل ہوں گے۔ اس کے علاوہ ایئر ٹکٹس پر 10 فیصد ایڈوانس ٹیکس لگایا گیا ہے۔ شادی ہال، موبائل فونز اور ہوٹلز پر بھی ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے۔ سیمنٹ پر ایف ای ڈی ڈیڑھ فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کی گئی ہے جبکہ پچاس پیسے فی کلو ٹیکس لگانے کی بھی تجویز ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ایک فیصد جی ایس ٹی اور سگریٹس پر ایف ای ڈی بڑھانے سے 115 ارب اور دیگر ٹیکسز سے 55 ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے، گو کہ یہ 170 ارب روپے چار ماہ میں اکٹھے کیے جائیں گے اور ایک سال میں ان اقدامات سے تقریباً ساڑھے پانچ سو ارب روپے اکٹھے ہوں گے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے بعد کیا ہو گا۔ کیا مزید ٹیکسز کا سلسلہ رک جائے گا اور مہنگائی کا بڑھتا ہوا گراف نیچے کی طرف سفر کرنے لگے گا؟ میری اطلاعات کے مطابق 170 ارب روپے کا منی بجٹ پاس ہونے کے بعد بھی یہ سلسلہ رکے گا نہیں کیونکہ حکومت نے آئندہ مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بھی آئی ایم ایف سے کئی وعدے کر لیے ہیں۔ بجلی اور گیس مزید مہنگی ہوں گی اور پٹرولیم مصنوعات پر سیلز ٹیکس بڑھایا جائے گا۔ دوسری جانب عالمی ریٹنگ ایجنسی فچ نے پاکستان کی غیر ملکی کرنسی ڈیفالٹ ریٹنگ مزید گھٹا دی ہے۔ اب پاکستان کی غیر ملکی ڈیفالٹ ریٹنگ کم کر کے منفی ٹرپل سی کر دی گئی ہے۔ اس سے پہلے یہ ریٹنگ مثبت ٹرپل سی تھی۔ فچ کی جانب سے ریٹنگ میں کمی کی وجہ گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر بتائے گئے ہیں۔ فچ کے مطابق ڈیفالٹ یا قرضوں کی ری شیڈولنگ کے واضح امکانات ہیں جبکہ آئی ایم ایف ریویو کی کامیابی ٹیکسز بڑھانے اور ایندھن کو مزید مہنگا کرنے پر منحصر ہے۔ ایجنسی کے مطابق ابھی پاکستان کے ذخائر کم سطح پر ہی رہیں گے۔ آنے والے دنوں میں معیشت کے پھلنے پھولنے کے امکانات کم اور مزید سکڑنے کے خدشات زیادہ ہیں۔ٹیکسٹائل پاکستان کا سب سے بڑا ایکسپورٹ سیکٹر ہے اور یہ صنعت روز بروز زوال کا شکار ہو رہی ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ٹیکسٹائل یونٹس بند ہو رہے ہیں۔ ایکسپورٹرز کو بجلی پر دی جانے والی سبسڈی ختم ہونے کے بعد حالات مزید کشیدہ ہونے کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کے اخراجات بین الاقوامی مارکیٹ کی نسبت بڑھ چکے ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی مال بنگلہ دیش، بھارت اور چین کی نسبت مہنگا پڑتا ہے۔ بین الاقوامی گاہک پاکستان کے آرڈرز بھی اب بنگلہ دیش اور چین منتقل کر رہے ہیں۔ کورونا کے دوران پاکستان نے جو نئی مارکیٹ حاصل کی تھی‘ وہ اب ہاتھ سے نکل چکی ہے۔
درآمدات پر پابندی کی وجہ سے کیمیکل سیکٹر بھی پریشانی کا شکار ہے۔ خام مال درآمد نہ ہونے کی وجہ سے پلانٹس بند رکھنے پڑ رہے ہیں۔ ملازمین کو نوکریوں سے نکالنے کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر آٹو انڈسٹری کی بات کریں تو موجودہ معاشی حالات نے اس صنعت کو بھی شدید متاثر کیا ہے۔ کورونا نے آٹو انڈسٹری کو اتنا متاثر نہیں کیا تھا جتنا موجودہ بدحالی نے کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گاڑیوں کی سیل میں گزشتہ سال کی نسبت رواں سال بڑی کمی دیکھنے کو ملی ہے، گاڑیوں کی سیل میں قریب 65 فیصد کمی ہوئی ہے۔پا کستان آٹوموٹو مینو فیکچررز ایسویسی ایشن کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گاڑیوں کی سیل میں جنوری میں 36 فیصد کمی دیکھنے کو ملی۔ جنوری23ء میں10867 گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ دسمبر 22ء میں یہ تعداد 17012 تھی۔ اس کے علاوہ پیسنجر گاڑیوں کی فروخت میں 56 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ گزشتہ ماہ 6021 مسافر گاڑیاں فروخت ہوئیں جبکہ دسمبر میں یہ تعداد 13780 تھی۔ پاکستان جیسی مارکیٹ میں گاڑیاں اب لگژری آئٹم نہیں بلکہ ضرورت بن چکی ہیں۔ جہاں آٹا، دال چینی اور پٹرول کی قیمتیں عوامی مسائل کی ترجمانی کرتی ہیں‘ وہیں گاڑیوں کی فروخت میں کمی کو بھی عوامی مسائل کو جانچنے کے پیمانے کے طور استعمال کیا جانے لگا ہے۔
گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی بڑی وجہ ان کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہونا ہے۔ حکومت کا ان گاڑیوں کی قیمتوں پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام انتہائی کمزور ہے۔ آٹو مینوفیکچررز کا کہنا ہے کہ ڈالر کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ ایک مینوفیکچرر گاڑی کی قیمت میں چار لاکھ روپے کا اضافہ کرتا ہے تو دوسرا اسی مالیت کی گاڑی کی قیمت میں دس سے بارہ لاکھ روپے کا اضافہ کردیتا ہے، یعنی بعض آٹو مینوفیکچرز کی جانب سے حالات کی خرابی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور کمپنیاں اپنے منافع میں اضافہ کر رہی ہیں۔ کاروں کی فروخت میں کمی کے باوجود کچھ کار کمپنیوں نے ریکارڈ منافع ظاہر کیا ہے۔اس وقت کئی نئی کار کمپنیاں بھی مارکیٹ میں داخل ہو چکی ہیں اور گمان تھا کہ مقابلے کی فضا پیدا ہو گی اور قیمتوں میں کمی آئے گی لیکن مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ شاید یہ موضوع حکمرانوں کی دلچسپی کے نہیں یا پھر ان میں ملک چلانے کی اہلیت ہی نہیں۔ ملکی اثاثے بیچنے کیلئے کئی ماہ سے کوششیں جاری ہیں لیکن کامیابی حاصل نہیں ہو پا رہی۔ گلف ممالک کا پاکستانی معیشت پر اعتماد پہلے ہی کم ہو چکا ہے۔ اثاثے بیچنے کی ڈیل میں تاخیر معاشی مسائل بڑھا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ دیگر کریڈٹ ریٹنگ ایجنسیز بھی جلد ہی پاکستان کی ریٹنگ مزید کم کر دیں گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں