سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آئین کے مطابق نوے دن میں انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے۔ حکومت اور اس کے اتحادی اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ سرکار اب بھی یہ منصوبہ بندی کرتی دکھائی دیتی ہے کہ انتخابات کا راستہ کس طرح روکا جائے۔ بظاہر تو اب سبھی راستے بند ہو چکے ہیں لیکن ہمارے یہاں ناممکنات کو ممکن کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ مسلم لیگی قیادت کی تقاریر اور دعوے کسی اور منصوبہ بندی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انتخابات وقت پر ہو جاتے ہیں تو عوام کسے ووٹ دیں گے؟ پاکستانی عوام کی یادداشت زیادہ اچھی نہیں ہے اور سیاستدانوں کو پرکھنے کا معیار بھی بہتر نہیں ۔ عوام کی اکثریت ایم پی اے یا ایم این اے کی سپورٹ کا فیصلہ ان کے موجودہ رویوں سے کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی نمائندوں کی توجہ پانچ سال تک عوام کی خدمت کرنے کے بجائے تین ماہ کی الیکشن کمپین پر ہوتی ہے۔جلسے کیے جاتے ہیں‘ جذباتی نعرے لگائے جاتے ہیں‘ عوام سے مسکرا کر اور جھک کر ملا جاتا ہے اور ان کے دلوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عوام کی اکثریت اس نمائشی حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر ووٹ دے دیتی ہے۔ ہر وقت سیاستدانوں پر تنقید کرتے رہنا درست نہیں ہے‘ عوام کو بھی ذمہ داری کا احساس کرنے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ملک کا تعلیمی نظام بھی ایسا نہیں ہے کہ وہ طالب علموں کی ووٹ کے حوالے سے تربیت کر سکے۔ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور مدرسوں میں ایسا کوئی مضمون نہیں پڑھایا جاتا جس میں یہ مدعا ڈسکس کیا جائے کہ کس طرح کے لوگوں کو ووٹ دینا چاہیے‘ کسی کو ووٹ دیتے وقت کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے‘ صحیح اور غلط امیدوار کا فیصلہ کن بنیادوں پر کیا جانا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ عام آدمی میں ابھی تک سیاسی شعور پیدا نہیں ہو سکاہے۔
اب ایک نظر معیشت پرڈالتے ہیں۔ پاکستان اس وقت ایک مشکل معاشی دور سے گزر رہا ہے۔ پٹرول کی قیمت پینتیس روپے بڑھا کر پانچ روپے کم کرنا عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ یہ روایت پاکستان میں کافی پرانی ہے۔ رمضان المبارک کے آنے سے پہلے اشیائے خورونوش کی قیمتیں بڑھانا اور رمضان پیکیج کے نام پر دس فیصد رعایت دینا پرانا طریقۂ واردات ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ حج کے لیے سعودی حکومت اور ایئرلائنز کو دینے کے لیے ڈالرز کی قلت ہے۔ایک ملٹی نیشنل کوریئر کمپنی نے درآمدات کے کئی آپریشنز بند کر دیے ہیں کیونکہ ادائیگی کے لیے سرکار کے پاس ڈالرز نہیں ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں منافع بیرونِ ملک منتقل کرنے سے قاصر ہیں۔ موڈیز نے پاکستان کے قرض لینے کی ریٹنگ سی اے اے ون سے کم کرکے سی اے اے تھری کردی ہے جو پچھلے تیس سالوں میں سب سے کم ہے۔ زرِ مبادلہ کی قلت اور ابتر معاشی صورتحال سے ڈیفالٹ کا خطرہ بڑھا ہے۔ حکومت کی روپے اور غیرملکی کرنسی میں قرض لینے کی ریٹنگ کم کی گئی ہے۔ یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ موڈیز کے مطابق جون 2023ء کے بعد پاکستان کے معاشی مسائل میں مزید اضافہ ہو جائے گا اور قرض واپس کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جائے گی۔
ایک طرف ملک میں زرِمبادلہ کے ذخائر بحران کا شکار ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف نے شرحِ سود بڑھانے سمیت چار مزید شرائط عائد کر دی ہیں۔ آئی ایم ایف بجلی کی قیمتوں میں 3.82 روپے فی یونٹ کے مستقل سرچارج، ایکسچینج ریٹ کو افغان باڈر ریٹ سے منسلک کرنے اور بیرونی فنانسنگ پر تحریری یقین دہانی کیلئے بضد ہے۔ حکومت نے شرحِ سود دو سو پوائنٹس مزید بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس حوالے سے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس آج ہو گا۔ یہ اجلاس دو ہفتے بعد بلایا جانا تھا لیکن آئی ایم ایف نے یکم مارچ تک تمام شرائط پر عمل درآمد کرنے کا وقت دیا تھا جو گزر چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق وزارتِ خزانہ نے مانیٹری پالیسی کمیٹی کا اجلاس 28 فروری کو بلانے کا فیصلہ کیا تھا۔ بعدازاں نامعلوم وجوہات کی بنا پر اسے دو مارچ تک ملتوی کر دیا گیا۔ اگر یکم مارچ سے پہلے اجلاس ہو جاتا اور پالیسی ریٹ میں مطلوبہ اضافہ سمیت دیگر شرائط پر پیش رفت سامنے آتی تو آئی ایم ایف کے ساتھ اعتماد بحال ہونے میں مدد مل سکتی تھی۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے عوام پر نیا بم گرانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ پچھلے سال سیلاب کے دنوں میں جو فیول ایڈجسٹمنٹ چارج نہیں کی گئی تھی‘ اب اس کی ریکوری بھی کی جائے گی۔ اس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کے قرض اتارنے کے لیے 10 روپے 24پیسے سے لے کر 14روپے 24پیسے تک بجلی کی قیمت بڑھائی جائے گی۔ یہ چارجز اگلے آٹھ ماہ میں عوام سے وصول کیے جائیں گے۔بجلی کی قیمتوں میں یہ اضافہ حالیہ اضافے کے علاوہ ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بجلی کی قیمتیں اس طرح بڑھانے سے بجلی کے نقصانات پورے ہو جائیں گے؟ میرے خیال میں اصل مسئلہ حل کیے بغیر بجلی کے بحران پر قابو نہیں پایا جا سکتا۔ پاکستان میں آج کے جدید دور میں بھی ایسے بیسیوں فیڈرز ہیں جہاں سے 98 فیصد ریکوری نہیں ہوتی۔ لوگ بجلی چوری کرتے ہیں اور سرکار ان پر ہاتھ ڈالنے سے قاصر ہے۔ مجبوراً یہ بوجھ بل ادا کرنے والے صارفین پر ڈال دیا جاتا ہے۔ یعنی کچھ لوگوں کی بجلی چوری کی سزا پورا ملک بھگت رہا ہے۔ یہ مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے جتنا اسے بنا دیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے یہ ایشو بھی سیاست کی نذر ہو گیا ہے۔ سندھ اور خیبرپختونخوا کے کئی علاقے ایسے ہیں جہاں سینہ تان کر بجلی چوری کی جاتی ہے اور وہ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔ آئی ایم ایف اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ آئی ایم ایف کو بجلی کا ریٹ بڑھانے کا مطالبہ کرنے کے بجائے بجلی چوری روکنے، سخت سزائیں لاگو کرنے اور ان سزاؤں پر حقیقی عمل درآمد کو یقینی بنانے کے لیے حکومت پر دبائو ڈالنا چاہیے۔ پری پیڈ میٹر لگانے کی پالیسی سے بھی بجلی چوری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس نظام کے تحت جو صارف بھی بجلی استعمال کرنا چاہتا ہے‘ وہ اس کی قیمت پہلے ادا کرے گا۔ جدید دنیا میں اب یہی نظام رائج ہے اور اس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔
اگلے چار ماہ تک سات ارب روپے کے ٹیکسز اکٹھا کرنے کے لیے حکومت مزید سخت فیصلے کرنے جا رہی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق حکومت نے ایک فیصد سیلز ٹیکس تو بڑھا دیا ہے لیکن لگژری اشیا پر پچیس فیصد تک سیلز ٹیکس لگانا ابھی باقی ہے۔ حکومت بہت سی ایسی اشیا کو لگژری آئٹمز میں ڈالنے کی تیاری کر رہی ہے جو عام استعمال کی ہیں۔ اس سے نہ صرف عام آدمی کو فرق پڑے گا بلکہ انڈسڑی کے لیے خام مال مزید مہنگا ہو سکتا ہے۔850 سی سی سے بڑی گاڑیوں کے پرزوں پر سیلز ٹیکس بڑھا کر پچیس فیصد کیا جا سکتا ہے جس سے گاڑیاں مزید مہنگی ہو سکتی ہیں۔ ڈار صاحب ماضی کی روایت کو برقرار رکھنے کے لیے بہت سے فیصلے ایس آر اوز کی ذریعے کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جو آئین کے آرٹیکل 77 کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ پارلیمنٹ سے منظوری ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ حال ہی میں پارلیمنٹ نے وفاقی حکومت کو اپنی مرضی سے ٹیکس ریٹس بڑھانے کا اختیار دیا ہے جس پر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ میں کئی مرتبہ بتا چکا ہوں کہ اربوں روپوں کے ٹیکسز صرف اس لیے وصول نہیں کیے جا سکتے کہ ان پر سٹے آرڈرز ہیں۔ اس معاملے کو قانونی ماہرین کے ساتھ مل کر حل کیا جانا چاہیے۔ جہاں ضروری ہو‘ وہاں نئی قانون سازی کی جانی چاہیے۔ ڈالر ریٹ کے مسلسل نیچے آنے پر بھی ادارے کے تحفظات موجود ہیں۔ حکومت کے مطابق ڈالر کو پھر سے کنٹرول کیا جارہا ہے۔ انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر ریٹ کا فرق بڑھ رہا ہے اور گرے مارکیٹ کے دوبارہ سر اٹھانے کی بھی اطلاعات ہیں۔ وزیر خزانہ کو اس معاملے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ فیٹف ایک مرتبہ پھر گرے لسٹ میں ڈال دے۔ ممکن ہے کہ چند دنوں تک آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہو جائے لیکن ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کرنے پر معاہدے کی آئی ایم ایف بورڈ سے منظوری التوا کا شکار ہو سکتی ہے۔