سعودیہ ایران تعلقات اور پاکستانی معیشت

حکومت نے ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان چین کی جانب سے سعودی عرب اور اسلامی جمہوریہ ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کا پُرتپاک خیرمقدم کرتا ہے۔ دونوں برادر ممالک کے درمیان خلیج کو پُر کرنے کیلئے مسلسل تعاون اور ہم آہنگی کی کوششوں کی تاریخ کے ساتھ‘ پاکستان مشرقِ وسطیٰ اور خطے میں تعمیری کردار ادا کر سکتا ہے۔ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات میں بہتری کا فائدہ پاکستان کو بھی ہو سکتا ہے۔ پاکستان نہ تو ایران کے ساتھ تعلقات خراب کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی سعودی عرب کے ساتھ۔ ماضی میں ایران کی سفارتی حمایت کی وجہ سے سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات متاثر ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران سعودی عرب تعلقات میں بہتری سے گلف اور ایشیائی ممالک کے درمیان تجارت کے نئے راستے کھلیں گے جس میں پاکستانیوں کیلئے بھی مواقع ہوں گے۔ آنے والے دنوں میں اگر ایران اپنے اوپر عائد عالمی پابندیاں ہٹوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پاکستان اور ایران کے مابین سمگلنگ کے راستے بھی بند کرنے میں مدد مل سکے گی۔ اس وقت پاکستان کو ڈالر کرنچ کا سامنا ہے اور ایک وفاقی وزیر کے مطابق پاکستان سے بوریوں میں ڈالرز بھر کے ایران بارڈر سے سمگل کیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان سے انسانی سمگلنگ کے لیے بھی ایران بارڈر استعمال ہوتا ہے۔ آج کے دور میں مضبوط ہمسایہ ملک بھی کسی نعمت سے کم نہیں ہے اور اگر ایران مضبوط ہو گا تو پاکستان بھی مضبوط ہوگا۔
مسائل بڑے ہوں یا چھوٹے‘ ان کا حل تلاش کرنے کیلئے مذاکرات ہی بہترین راستہ ہے۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہیں اور عالمی طاقتیں‘ خصوصاً چین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اختلافات برسوں پرانے ہیں‘ جس کی وجہ سے گلف ممالک میں کشیدگی رہتی ہے اور اس کا اثر عالمی معیشت پر بھی پڑتا ہے۔ اب چین نے اس مسئلے کے حل کیلئے اہم کردار ادا کیا ہے۔ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں سعودی عرب‘ ایران اور چین کی جانب سے جاری مشترکہ اعلامیے کے مطابق تہران اور ریاض نے اتفاق کیا ہے کہ آپس میں سفارتی تعلقات اور اپنے سفارت خانے اور مشنز دو مہینوں کے اندر بحال کر دیں گے۔ ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے حالیہ دورے کے بعد سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکریٹری نے چین کا دورہ کیا تاکہ چین کی وساطت سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان مسائل حل کرنے کے لیے وسیع مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ ایرانی نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری اور سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر کے درمیان کئی دنوں کے وسیع مذاکرات کے بعد دونوں ممالک نے تعلقات کی بحالی کا معاہدہ طے کر لیا۔ دونوں ممالک کے درمیان معاہدہ طے پانے کے دوران ایک تقریب میں ایران‘ سعودی عرب اور چین کی طرف سے ایک باضابطہ مشترکہ بیان جاری کیا گیا۔ خود مختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیتے ہوئے دونوں ممالک نے 17اپریل 2001ء کو طے پانے والے سکیورٹی تعاون کے معاہدے پر عملدرآمد پر بھی اتفاق کیا۔ دونوں ممالک نے 27 مئی 1998ء کو طے پا گئے معاہدے پر بھی اتفاق کیا ‘ جس کا مقصد اقتصادی‘ تجارتی‘ سرمایہ کاری‘ تکنیکی‘ سائنسی‘ ثقافتی‘ کھیلوں اور نوجوانوں کے امور میں تعلقات کو فروغ دینا تھا۔ تینوں ممالک نے علاقائی اور بین الاقوامی امن اور سلامتی کو مزید مضبوط بنانے کیلئے ہر کوشش بروئے کار لانے پر زور دیا۔ ایران اور سعودی عرب نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بحالی کیلئے کوششوں اور 2021-22ء میں مذاکرات کا انعقاد کرنے پر عراق اور عمان کا شکریہ ادا کیا جبکہ رواں مذاکرات کی میزبانی اور معاونت کرنے پر چینی قیادت کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کیاگیا۔ ذہن نشین رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان گزشتہ برسوں میں تعلقات کشیدہ رہے ہیں جب سعودی عرب کی طرف سے ایران پر الزام عائد کیا گیا کہ ایران نے 2019ء میں اس کے آئل ڈپو پر ڈرون حملہ کیا تھا‘ تاہم ایران اس الزام کو مسترد کر چکا ہے۔ البتہ یمن کے حوثی باغی‘ جن کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ وہ ایرانی حمایت یافتہ ہیں‘ اکثر سعودی عرب پر سرحد پار سے میزائل اور ڈرون حملے کرتے رہتے ہیں اور 2022ء میں یہ حملے متحدہ عرب امارات تک جا پہنچے تھے۔ دونوں حریف برسوں سے یمن سے شام تک مختلف پراکسی جنگوں میں مخالف سمت میں کھڑے رہے ہیں۔ سعودی عرب نے 2016ء میں تہران میں اپنا سفارت خانہ اس وقت بند کیا تھا جب سعودی عرب کی طرف سے ایک شخص کو پھانسی دینے کے خلاف دونوں ممالک میں کشیدگی چل رہی تھی اور ایران میں مظاہرین نے سعودی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ تاہم اب دونوں ممالک کے مابین سفارتی تعلقات کی بحالی کو خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔
چین ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ معیشت کی جنگ پر یقین رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں چین کاروبار نہ کر رہا ہو۔ ایک اندازے کے مطابق اگر آج چین دنیا کو اپنی پراڈکٹس کی سپلائی بند کر دے تو تاریخ کا بدترین عالمی معاشی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔ عالمی طاقتیں بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھی چاہتی ہیں کہ چین معاشی طور پر مضبوط رہے تاکہ دنیا کا نظام احسن طریقے سے چلتا رہے۔ سعودی عرب کے تیل کے کنوؤں پر حملے کے بعد عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتیں بڑھ گئی تھیں۔ چین سعودی عرب اور ایران سے تیل خریدتا ہے۔ امریکہ نے ایرانی تیل کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے‘ اسکے باوجود چین ایران سے تیل خریدتا ہے جو کہ ایرانی معیشت کیلئے بھی ایک بڑا سہارا ہے۔ وائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کے ترجمان نے کہا کہ امریکا اس معاہدے کی رپورٹس سے آگاہ ہے اور یمن میں جنگ کے خاتمے اور مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی کم کرنے کے سلسلے میں کسی بھی کوشش کاخیر مقدم کرتا ہے۔
سال 2020ء میں کورونا نے دنیا کو متاثر کیا۔ اس کے بعد یوکرین روس جنگ کا خمیازہ دنیا آج تک بھگت رہی ہے۔ ان حالات میں اگر تیل پیدا کرنے والے دنیا کے دو بڑے ملکوں کے درمیان بھی جنگ ہو جاتی تو اس کے بھیانک نتائج سامنے آ سکتے تھے۔ ایران اور سعودی عرب کے درمیان پہلے بھی مذاکرات اور معاہدے ہوتے رہے ہیں لیکن وہ زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہ سکے۔ موجودہ معاہدے کتنی مدت تک برقرار رہتے ہیں‘ اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے لیکن موجودہ صورتحال ماضی کی نسبت مختلف ہے۔ آج سعودی عرب جدت کی طرف گامزن ہے۔ وہ دنیا کا جدید ترین شہر آباد کررہا ہے۔ وہ پوری دنیا کے ہائی ٹیک اداروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا خواہاں ہے۔ وہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں جدید آئی ٹی سینٹرز قائم کرنا چاہتا ہے۔ آنے والے دنوں میں وہ چاند پر اپنا مشن بھیجنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔ سعودی عرب عالمی سیروسیاحت کا مرکز بننا چاہتا ہے۔ یہ تمام منصوبے اسی وقت مکمل ہو سکیں گے جب سعودی عرب اور ایران کے درمیان بہتر تعلقات قائم رہیں لیکن اگر مستقبل میں بھی یمن کے حوضی باغیوں کی جانب سے حملے جاری رہے تو سیاح سعودی عرب کا رخ نہیں کریں گے۔
آئیے اب ایک نظر آئی ایم ایف اور پاکستان کی موجودہ صورتحال پر ڈالتے ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ اب آئی ایم ایف شرح سود مزید چار فیصد بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ گروس فنانسنگ گیپ بھی پورا کرنے کا دباؤ ہے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ چین‘ قطر اور سعودی عرب پاکستان کے حق میں گارنٹی دینے کیلئے تیار ہیں۔ پاکستان درآمدات پر سے پابندی آہستہ آہستہ ہٹا رہا ہے اور انٹربینک‘ اوپن اور گرے مارکیٹ میں ڈالر ریٹ کا فرق بھی کم ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ شرح سود زیادہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار پاکستان میں ہاٹ منی لانے کو تیار ہو گئے ہیں۔ جس سے دو ارب ڈالرز پاکستان کو مل سکتے ہیں۔ امید ہے کہ اگلے دس دنوں میں آئی ایم ایف معاہدہ ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں