سیاست، ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور مہنگائی

پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ کہیں جشن منائے جا رہے ہیں اور کہیں سوگ کا سماں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی خوشیاں اور غم ملک کے حالات سے وابستہ نہیں ہوتے۔ ان کے لیے زیادہ اہمیت اس بات کی دکھائی دیتی ہے کہ ملکی منظر نامے پر ہونے والی تبدیلیاں ان کی پارٹی کے لیے فائدہ مند ہیں یا نقصان دہ۔ جب ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والے اپنی ذات اور اپنی پارٹی کو ملکی مفادات پر ترجیح دینے لگیں تو ملک کے لیے درست سمت کا تعین مشکل ہو جاتا ہے۔ وزیراعظم صاحب پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اعلیٰ عدالتوں اور معزز ججوں پر تنقید کر رہے ہیں جبکہ کابینہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو نہ ماننے کا پیغام دے رہی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ملک کا سب سے بڑا آئینی ادارہ ایک فیصلہ دے اور حکومت اسے ماننے سے انکار کر دے۔ دوسری جانب وزیر خارجہ ملک میں مارشل لا لگنے کے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کے نانا‘ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو 1973ء کا متفقہ آئین دیا تھا‘ ان کے منہ سے مارشل لا کی بات مناسب نہیں معلوم ہوتی، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود حکومت میں ہوں اور آئین کے پچاس سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہو۔ ان کے اس بیان کے بعد عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ شاید یہ بیان حکومت کے کسی ماورائے آئین اقدام یا ایمرجنسی کے نفاذ کا اشارہ ہے۔ ادھر چیئرمین تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ایک آدمی نے کبھی کسی کو اتنا نہیں ڈرایا جتنا آج سب ڈرے ہوئے ہیں۔یہ دعویٰ درست ہو سکتا ہے لیکن یہ وقت ان دعووں کا نہیں ہے۔ذمہ داری کا اظہار ہر طرف سے ہونا ضروری ہے۔ یہاں تو ایک بھی پارٹی ذمہ دارانہ بیان بازی نہیں کر رہی۔ میں نے گزشتہ کالم میں ذکر کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے جو مذاکرات کرنے کی آپشن دی ہے‘اس کا فائدہ نہیں ہو گا جبکہ متوقع فیصلے سے متعلق بھی آگاہ کر دیا تھا۔ ماضی کی طرح میرا یہ تجزیہ بھی درست ثابت ہوا لیکن مجھے اس بات کی بالکل بھی خوشی نہیں ہے کیونکہ سیاسی و آئینی بحران کے سبب ملکی معیشت روز بروز تنزلی کا شکار ہو رہی ہے۔
ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے مطابق جون 2023ء میں ختم ہونے والے مالی سال کے دوران پاکستان کی معاشی ترقی کی رفتار میں نمایاں کمی جبکہ مہنگائی کی شرح میں دو گنا سے بھی زائد اضافے کا امکان ہے۔معاشی ترقی کی رفتار میں کمی کی وجہ گزشتہ سال آنے والا تباہ کن سیلاب، مہنگائی میں اضافہ، کرنٹ اکاؤنٹ کا خسارہ اور زرمبادلہ کا بحران بتایا جا رہا ہے۔اے ڈی بی کی حالیہ فلیگ شپ اقتصادی رپورٹ ایشیائی ترقیاتی آؤٹ لک کے مطابق 2023ء میں پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار کی شرحِ نمو سست روی کا شکار ہو کر 0.6 رہنے کا امکان ہے جو گزشتہ سال لگ بھگ چھ فیصد تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ملکی معیشت بحالی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، لیکن امید ہے کہ حالات ہمیشہ ایسے نہیں رہیں گے۔ اگر معاشی استحکام، اصلاحات کے نفاذ، سیلاب کے بعد بحالی میں تیزی اور بیرونی حالات میں بہتری آئی تو مالی سال 2024ء میں شرحِ نمو دو فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔ مشکلات سے مقابلے کی صلاحیت اور مضبوط میکرو اکنامک اور ڈھانچہ جاتی اصلاحات کے ساتھ استحکام کی طرف تیزی سے واپسی پر انحصار کی بدولت معیشت تیزی سے ابھر سکتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی پاکستان کی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی ترقی کے لیے ایک سنگین چیلنج ہیں۔ گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس کے مطابق پاکستان گزشتہ دو دہائیوں میں دنیا کے دس سب سے زیادہ کمزور ممالک میں شامل ہے جہاں انتہائی موسم کی وجہ سے زراعت، بنیادی ڈھانچے اور معیشت کو بھاری نقصان کے علاوہ ہزاروں اموات بھی ہوئی ہیں۔ مالی سال 2023ء میں مالیاتی خسارہ تھوڑی سی کمی کے ساتھ 2023ء کی جی ڈی پی کے 6.9 فیصد کے مساوی ہونے کا امکان ہے۔ اگر آئی ایم ایف کا پروگرام ٹریک پر رہا تو ممکنہ طور پر خسارہ درمیانی مدت کے دوران کم ہو سکتا ہے کیونکہ مزید ریونیو حاصل کرنے کے لیے جنرل سیلز ٹیکس کو ہم آہنگ بنانے جیسے اقدامات میں تیزی آنے کی امید ہے۔ توانائی کی بلند قیمتوں، کمزور کرنسی، سیلاب کی وجہ سے سپلائی میں رکاوٹ، ادائیگیوں کے توازن کے بحران اور درآمدات میں کمی کی وجہ سے مالی سال کے پہلے سات مہینوں میں افراطِ زرتقریباً ساڑھے پچیس فیصد تک پہنچ گیا۔ تیل اور گیس کے خالص درآمد کنندہ کی حیثیت سے پاکستان کو مالی سال 2023ء کے باقی ماندہ مہینوں میں سخت افراطِ زر کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اے ڈی بی پاکستان کی اقتصادی بحالی اور ترقیاتی منصوبوں کی حمایت جاری رکھنے کے لیے پُرعزم دکھائی دیتاہے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سیاستدان ملک کی بہتری کے لیے پُر عزم ہیں یا نہیں۔ ملکی سیاست جس طرح ہچکولے کھا رہی ہے اس نے صورتحال کو مزید تشویشناک بنا دیا ہے۔ ڈالر ایک مرتبہ پھر بے قابو ہو گیا ہے۔ سٹرلنگ پاؤنڈ کی قیمت ڈالر سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے، آئی ایم ایف پروگرام بحال نہیں ہو رہا، کپاس کی پیداوار پچھلی چار دہائیوں میں سب سے کم ہوئی ہے، سیمنٹ کی فروخت 29 فیصد، پٹرولیم مصنوعات کی فروخت 39 فیصد تک گر چکی ہیں،برآمدات میں 10 فیصد کمی ہو گئی ہے، شرحِ سود 21 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے جبکہ دیوالیہ ہونے والے سری لنکا میں شرحِ سود اس وقت بھی 15 فیصد ہے۔ ان حقائق کے باوجود حکمران اتحاد کو ملک کی فکر لاحق دکھائی نہیں دے رہی۔
ایک طرف ملک تنزلی کی کھائی میں گرتا جا رہا ہے اور دوسری طرف عوام کے لیے زندگی مزید سخت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ رمضان المبارک رحمتوں کا مہینہ ہے اور دنیا بھر کے مسلمان اس بات کو سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں لیکن پاکستان میں یہ بات شایدکم ہی لوگ سمجھتے ہیں۔ یہاں رمضان شروع ہونے سے قبل ہی ہر چیز اتنی مہنگی کر دی جاتی ہے کہ وہ عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو جاتی ہے۔ میرے خیال میں موجودہ مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ لوگوں کی تنخواہوں میں اضافہ نہیں ہوا‘ ان کی قوتِ خرید وہیں پر رکی ہوئی ہے جبکہ مہنگائی آسمان کو پہنچ رہی ہے۔ روزمرہ کے استعمال کی چیزوں سمیت کھانے پینے کی تمام اشیا مہنگی ہوئی ہیں۔ پھل، سبزی اور گوشت‘ سب کچھ ہی انتہائی مہنگا ہے۔ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ایک سفید پوش گھریلو خاتون مجھے بتا رہی تھیں کہ پہلے کافی شوق ہوتا تھا کہ رمضان المبارک میں مختلف قسم کی چکن کی ڈشز بناؤں لیکن اب بون لیس چکن بھی 900 روپے کلو ہو گیا ہے‘ آپ خود سوچیں ایسے میں کون ہمت کرے گا۔ فروٹ چاٹ‘ جو افطار کی ضروری ڈش سمجھی جاتی تھی‘ لوگ مہنگائی کے باعث وہ بھی نہیں بنا سکتے۔ جو فروٹ چاٹ پہلے 1000 روپے میں بن جاتی تھی‘ وہی اب 2600 روپے میں بنتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس صورتحال میں مڈل کلاس لوگوں کے ساتھ پیسے والے لوگ بھی گھبرائے ہوئے ہیں۔ وہ سوچ رہے ہیں کہ ملکی اور معاشی حالات کس طرف جا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کا کیا ہو گا۔جو جمع پونجی انہوں نے کما رکھی ہے‘ اسے کیسے بچایا جائے یا ایسا کون سا کام کیا جائے کہ ملکی حالات خراب ہونے کی صورت میں ان کا سرمایہ محفوظ رہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ میری دانست میں مافیاز اور حکومت‘ دونوں پر اس کی برابر ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سرکار جانتی تھی کہ ماہِ رمضان سے قبل ملک بدترین سیلابوں سے گزرا ہے جس کی وجہ سے کھیت، فصلیں اور باغات تباہ ہو گئے ہیں‘ یہی نہیں لائیو سٹاک بھی پانی میں بہہ گئے۔حکومت کو علم تھا کہ آنے والے دنوں میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا مسئلہ درپیش ہو گالیکن کوئی پیشگی اقدامات نہیں کیے گئے۔ کیلے کی مثال لے لیں۔ کیلا رمضان میں متوسط اور خوشحال‘ ہر دو گھرانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا پھل ہے۔ زیادہ تر کیلا سندھ سے آتا ہے لیکن سیلاب کے باعث کیلے کے باغات تباہ ہو گئے۔ اسی لیے اس وقت کیلا چار سو سے پانچ سو روپے فی درجن تک فروخت ہو رہا ہے۔ جو بچا کھچا پھل اور اناج تھا‘ وہ دیگر ممالک کو برآمد کیا جاتا رہا اور حکومت نے اس پر کوئی روک نہیں لگائی۔
اس وقت چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے افراد اپناپیسہ مارکیٹ سے نکال کر بیرونِ ملک بھیج رہے ہیں کیونکہ ڈالر کا ریٹ بڑھتا جا رہا ہے۔ ڈالر ریٹ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے سے کسان پر بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں مڈل مین کا کردار اہم ہے جو اشیا کو ذخیرہ کرتا ہے اور جو مارکیٹ میں سامان لاتا ہے، اسے بھی اب نقل و حرکت کا کرایہ پہلے سے زیادہ دینا پڑتا ہے۔ یہ وہ تمام عناصر ہیں جو اس وقت مہنگائی کا سبب ہیں لیکن مافیاز کی سنگدلی ہو یا حکومت کی لاپروائی‘ اس کے نتیجے میں نقصان صرف عوام کا ہو رہا ہے۔ان حالات میں عوام کی آواز کون اٹھائے گا‘ عوام یہ تک جاننے سے قاصر ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں