آئی ایم ایف اور پاکستانی بانڈز

آج کل یہ نہیں شمار کیا جا سکتا کہ ہر روز تحریک انصاف کے کتنے لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔یہ گنتی کرنا شاید ممکن نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس میں دلچسپی لینی چاہیے۔جس انداز میں یہ پارٹی بنی تھی‘ اس سے کہیں برے انداز میں کمزور ہو رہی ہے۔ میں یہاں ختم کا لفظ استعمال نہیں کروں گا کیونکہ اوّل تو ایسی پارٹیاں فوراً ختم نہیں ہوتیں اور دوسرا یہ کہ اسے مکمل ختم کرنا منصوبے کا حصہ نہیں لگتا۔ مستقبل کا تو کسی کو پتا نہیں‘ لیکن ہو سکتا ہے کہ جب ملک میں الیکشن ہوں تو چیئرمین تحریک انصاف اس وقت قید و بند کی صعوبتیں جھیل رہے ہوں اورپارٹی کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے امیدوار ہی نہ ہوں۔ انصاف کا تقاضا ہے کہ جس نے جو جرم کیا ہے اسے اس کی سزا دی جائے۔ اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری سمیت متعدد سیاسی رہنما جیل جا سکتے ہیں تو چیئرمین تحریک انصاف کو بھی استثنا نہیں ہے۔ اور ان پر بھی وہی قانون لاگو ہوناچاہیے جو باقی لوگوں پر ہوتا ہے۔ اگر خان صاحب یہ سمجھ لیں کہ وقت خود کو دہرا رہا ہے اور یہ سب ان کے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے تو شاید انہیں اعصابی طور پر زیادہ مضبوطی مل سکے۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ تحریک انصاف پر برا وقت آنے پر آپ خوش کیوں ہیں‘میں کہتا ہوں کہ میں ہرگز خوش نہیں ہوں‘ میں صرف یہ چاہتا ہوں جو کچھ بھی ہو‘ عدالتوں میں قانون و انصاف کے ذریعے ہو۔ میرا ماننا ہے کہ ملک میں معاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام ضروری ہے اور سیاسی استحکام کے لیے نظامِ عدل کا مضبوط ہونا بہت اہمیت رکھتا ہے۔ عدالتی کارروائی اس طرح چلائی جانی چاہیے کہ نہ صرف انصاف ہو بلکہ انصاف ہوتا ہوا دکھائی بھی دے۔آنے والے وقت میں تحریک انصاف کا کیا ہو گا‘ اس بارے کچھ لکھنا قبل ازوقت ہے لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ اس وقت ملکی معیشت کی کشتی سمندر کی بے رحم موجوں کی زد میں ہے اور یہ اپنی سمت کھو چکی ہے جبکہ منزل دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔
آئی ایم ایف نے بجٹ سے قبل پاکستان کو دوبارہ یاد دلایا ہے کہ جو شرائط طے کی گئی تھیں ان پر عمل درآمد کیے بغیر معاہدہ نہیں ہو سکے گا۔ سٹاف کی سطح کا معاہدہ گزشتہ برس نومبر سے تاخیر کا شکار ہے۔پاکستان میں سٹاف لیول کے آخری مشن کو 100 سے زیادہ دن گزر چکے ہیں جو 2008ء کے بعد اپنی نوعیت کی سب سے طویل تاخیر ہے۔اس مرتبہ سیاسی استحکام اور آئین پر بھی بات کی گئی۔ شنید ہے کہ پہلے یہ باتیں ڈھکے چھپے انداز میں کی جاتی رہی ہیں لیکن جب وزارتِ خزانہ کے ہاتھ سے تمام کارڈز نکل گئے تو وزیراعظم صاحب کو درخواست کے لیے کہا گیا۔ انہوں نے آئی ایم ایف چیف سے بات کی اور وہاں سے جو جواب دیا گیا‘ اس نے عوام کے لیے مزید پریشانی پیدا کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق ایکسچینج ریٹ درست نہیں ہے جو ٹھیک بات ہے۔ اس وقت اوپن مارکیٹ میں ڈالر 316 روپے کا مل رہا ہے اور انٹربینک ریٹ 286 ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ گرے مارکیٹ کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کر سکتی تو انٹربینک میں ڈالر کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور اسے اپنی جگہ خود بنانے دی جائے۔ اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بڑھنے میں مدد ملے گی، ایکسپورٹرز کو بھی اس سے فائدہ ہو سکے گا اور آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ بھی پوری ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ نقصان میں چلنے والے سرکاری اداروں کو نفع بخش بنانے یا نجی شعبے کے حوالے کرنے کی بات بھی کی گئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ نجی شعبے کے حوالے کرنے کے بعد جب یہ ادارے منافع میں چلیں گے تو حکومت کے ووٹ بینک میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ چھ ارب ڈالر فنانسنگ کی شرط پہلے بھی عائد کی گئی۔ میں نے اس وقت بھی ذکر کیا تھا کہ جون سے پہلے حکومت چھ ارب ڈالرز حاصل نہیں کر سکے گی۔ بجٹ کے حوالے سے آئی ایم ایف کے تحفظات بالکل جائز معلوم ہوتے ہیں۔ اگر بجٹ 2024ء آئی ایم ایف کی مرضی کے خلاف پیش کیا جاتا ہے تو اس کی عمر زیادہ نہیں ہو گی اور اسے بہت جلد تبدیل کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیر خزانہ صاحب کا لب و لہجہ بھی آئی ایم ایف سے معاہدے میں ایک بڑی رکاوٹ سمجھا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے جب 2024ء کے بجٹ ڈاکیومنٹس مانگے تو یہ کہہ کر دینے سے انکار کر دیا گیا کہ آئی ایم ایف معاہدہ جون 2023ء تک ہے۔ جون کے بعد کے بجٹ ڈاکیومنٹس آئی ایم ایف کو نہیں دیے جائیں گے۔حالانکہ ڈار صاحب بخوبی جانتے ہیں کہ جون کے بعد بھی ہمیں دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس ہی جانا ہے۔ اگرچہ بعدازاں وزیراعظم کی ہدایت پر آئی ایم ایف کو بجٹ سفارشات بھیج دی گئیں۔
جہاں تک سیاسی استحکام اور آئین پر عمل درآمد کرنے کی شرط کا معاملہ ہے تو آئی ایم ایف کی جانب سے یہ مطالبہ درست دکھائی نہیں دیتا۔ آئی ایم ایف ماضی میں بھی کئی مرتبہ یہ بیان دے چکا ہے کہ اس کا سیاسی اور ملک کے اندرونی مسائل سے کوئی واسطہ نہیں۔ اگر آئی ایم ایف اس مطالبے سے پیچھے نہیں ہٹتا تو بجٹ سے قبل آئی ایم ایف پروگرام آگے بڑھنا ناممکن ہو جائے گا۔ عالمی انصاف کے چیمپئنز کو اس معاملے کو بھی دیکھنا چاہیے۔
پاکستان کے جاری کردہ بانڈز پر سود کی شرح اسی مدت کے امریکی ٹریژری بانڈ کے مقابلے میں 30 اور 40 فیصد پوائنٹس زیادہ ہے۔یہ فرق 2021ء کے آخر میں سنگل ہندسے میں تھا۔کوئی بھی بانڈ جو امریکی ٹریژری ریٹ سے 10 فیصد پوائنٹس سے زیادہ منافع کی پیشکش کرتا ہے اسے پریشان کن قرض سمجھا جاتا ہے یعنی یہ سیکنڈری مارکیٹ میں نمایاں رعایت پر تجارت کرتا ہے کیونکہ اس کے جاری کنندہ کو دیوالیہ ہونے کا شدید خطرہ ہوتا ہے۔ پاکستانی بانڈز پر شرحِ سود کا امریکی قرضوں کی شرح کے ساتھ بڑھتا ہوا فرق تشویشناک ہے لیکن یہ ملک کے دیوالیہ ہوجانے کا حتمی اشارہ نہیں ہے۔ پاکستان جب چاہے خود مختار ڈیفالٹ کو روک سکتا ہے لیکن اس کے لیے آئی ایم ایف پروگرام کی ضرورت ہے۔ شاید ابھی تک ہم اس نکتے پر نہیں پہنچے جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ اس وقت 10 سالہ پاکستان گورنمنٹ انٹرنیشنل بانڈ‘ جو اپریل 2024ء میں میچور ہونے والا ہے‘ ایک ڈالر کے مقابلے میں 52.4 سینٹ پر ٹریڈ ہو رہا ہے۔ آسان الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ قرض کا یہ آلہ اپنی قیمت کے صرف 52.4 فیصد پر ٹریڈ کر رہا ہے لیکن بین الاقوامی بانڈز اور سکوک کے ذریعے قرض لینے کا حصہ پاکستان کے عوامی بیرونی قرضوں میں نسبتاً کم ہے۔ مارچ تک 96 ارب 30 کروڑ ڈالر کے مجموعی سرکاری بیرونی قرضوں میں ان کا حصہ صرف 8.1 فیصد یا 7 ارب 80 کروڑ ڈالر تھا۔اس کے برعکس بین الاقوامی مالیاتی اداروں پر واجب الادا کثیر جہتی قرضے کا حصہ 38.5 فیصد یا 37 ارب ڈالر تھا۔خودمختار قرضوں پر بڑھتی ہوئی پیداوار کو آنے والے ڈیفالٹ کے ناقابل تردید اشارے کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے ممالک جن کی کارکردگی زیادہ خراب ہے‘ بین الاقوامی منڈی میں اب بھی اپنا سر پانی سے اونچا رکھے ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر تیونس کے پیش کردہ بانڈز کا امریکی ٹریژری پر پھیلاؤ پاکستانی بانڈ سے زیادہ ہے۔اسی طرح، گھانا اور بیلاروس وہ ممالک جو پہلے سے ہی دیوالیہ ہو چکے ہیں‘ ان کے جاری کردہ بانڈز پاکستانی بانڈز سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جس کا مطلب ہے کہ بانڈ کی پیداوار اس بات کا واحد اشارہ نہیں ہے کہ آیا کوئی ملک ڈیفالٹ ہونے جا رہا ہے لیکن ان بانڈز کے مثبت ہونے سے یہ تاثر ضرور جاتا ہے کہ عالمی مارکیٹ کو پاکستان پر اعتماد ہے۔ یہاں ہر گز یہ نہ سمجھا جائے کہ دیوالیہ ہونے کا کوئی خدشہ نہیں ہے بلکہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ آخر ان حالات میں کیا کرنا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالات میں قرضوں کی ری سٹرکچرنگ کی طرف جانا پڑ سکتا ہے۔ جتنی جلدی یہ فیصلہ ہو جائے کہ ملک کے لیے بہتر ہے۔ دیوالیہ ہونے کے بعد ری سٹرکچرنگ کا فیصلہ پانچ سال کے لیے دلدل میں دھنسا سکتا ہے۔ اگر آج یہ فیصلہ کر لیا جائے تو آئندہ ایک سال میں حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے کیونکہ صرف جون کا بجٹ اہم نہیں ہے۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر 2024ء کا قرض ادا کرنے کے لیے فنڈز کہاں سے آئیں گے؟ کیا حکومت کے پاس اس سوال کا کوئی جواب ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں