حکومت مالی سال 2023-24ء کا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ یہ بجٹ کسی چیلنج سے کم دکھائی نہیں دیتا۔ ایک طرف آئی ایم ایف کا دبائو ہے اور دوسری طرف ایک سال میں 25 ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی کا مرحلہ درپیش ہے۔ عوام بھی سرکار سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ شاید 38 فیصد تک بڑھی مہنگائی میں کچھ کمی آ سکے ۔ وہ چاہتے ہیں کہ بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کا کوئی بہتر فارمولا پیش کیا جائے تا کہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں اور غربت کی شرح میں کمی آسکے۔ حکومت کیلئے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ عالمی ریٹنگ ایجنسیاں مسلسل ملک کے دیوالیہ ہونے کے خدشے کا اظہار کر رہی ہیں۔ گو کہ وزیر خزانہ کئی مرتبہ ان دعووں کو غیر حقیقی قرار دے چکے ہیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سرمایہ کار ان کے دعووں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہے اور اسی لیے اربوں ڈالرز بیرونِ ملک منتقل کرنے کی خبریں مسلسل آ رہی ہیں۔ وزیر خزانہ کو زیادہ سنجیدہ نہ لینے کی وجہ شاید ان کے بیانات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کے پاس اربوں‘ کیا کھربوں ڈالرز کے اثاثے ہیں‘ یہ ملک دیوالیہ نہیں ہو سکتا۔حالانکہ ماضی میں جو ملک دیوالیہ ہوئے‘ ان کے پاس بھی اربوں‘ کھربوں ڈالرز کے اثاثے تھے۔ روس اور ارجنٹائن سمیت کئی ممالک جب دیوالیہ ہوئے تو اربوں ڈالرز کے اثاثے رکھتے تھے۔وزیر خزانہ یہ دعویٰ کرتے وقت شاید ان حقائق کو نظر انداز کر گئے۔اب بھی آئندہ بجٹ کے حوالے سے حکومتی شخصیات مختلف دعوے کرتی دکھائی دے رہی ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق حکومت ایسا بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جو آئندہ انتخابات میں حکومتی اتحاد کو فائدہ پہنچا سکے۔ قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کی منظوری دی ہے‘ اس کے برعکس ورلڈ بینک نے آئندہ مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت کی شرحِ نمو 2 فیصد رہنے کی پیش گوئی کی ہے۔ورلڈ بینک کے مطابق افغانستان، پاکستان اور سری لنکا میں غربت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ان علاقوں میں معاشی تنزلی کا رجحان دوبارہ شروع ہوجائے گا جو 21-2020ء میں تھم گیا تھا۔ ایسے حالات میں نیشنل اکنامک کونسل نے 950 ارب روپے کے وفاقی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دی ہے‘ پہلے یہ حد 700 ارب روپے تھی۔ ترقیاتی منصوبے شروع کرنا غلط نہیں لیکن جب عالمی ادارے مستقبل کے حوالے سے خطرناک حقائق پیش کر رہے ہوں تو ان وسائل کو ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کرنے کے بجائے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے اور آمدن کو بڑھانے کیلئے استعمال کیے جانے سے ہی مستقبل میں منفی اثرات سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پہلے سے شروع کیے گئے ترقیاتی منصوبوں کو ادھورا چھوڑ کر نئے منصوبوں میں عوامی ٹیکس کا پیسہ جھونکنے سے ملکی ترقی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً 47 فیصد نئے منصوبے شروع کیے جائیں گے۔ بجٹ میں ایسے منصوبے بھی شامل کیے جانے کی اطلاعات ہیں جن کے نام تک ابھی فائنل نہیں کیے گئے اور منظوری بھی نہیں لی جا سکی۔ شنید ہے کہ تمام حکومتی اتحادی پارٹیوں کا بخوبی خیال رکھا گیا ہے۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جس ملک کے کُل بجٹ کا نصف سے زیادہ حصہ قرضوں اور سود کی ادائیگیوں میں خرچ ہو جاتا ہو‘ اس ملک میں ترقیاتی منصوبوں کے بجٹ میں ہوشربا اضافے کو کن بنیادوں پر درست کہا جا سکتا ہے؟ ایسا بجٹ نئی آنے والی حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پنشنز اور تنخواہوں میں بھی تقریباً تیس فیصد تک اضافہ کیے جانے کی توقع ہے اور یہ اضافی خرچ پورا کرنے کیلئے حکومت کوئی منافع بخش سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی بلکہ عوام سے پٹرولیم لیوی کی مد میں آٹھ سے دس روپے اضافی وصول کرنے کا منصوبہ بنائے جانے کی اطلاعات ہیں۔ عوام پہلے ہی پچاس روپے پٹرولیم لیوی کی مد میں ادا کر رہے ہیں۔ اتحادی حکومت نے جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً ایک سو روپے تک اضافہ کیا تھا تو عوام کو یہ بتایا گیا تھا کہ آئی ایم ایف کے دبائو کی وجہ سے پٹرولیم لیوی بڑھائی گئی ہے۔ اب آئی ایم ایف کی جانب سے لیوی بڑھانے کا کوئی دبائو نہیں ہے اور سرکار خود ہی عوام پر مزید بوجھ ڈالنے کا فیصلہ کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ آئی ٹی کے شعبے کیلئے بڑے پیکیج کی تیاری کی گئی ہے۔خصوصی مراعات کی منظوری کی بھی اطلاعات ہیں۔ ایک لاکھ نوجوانوں کولیپ ٹاپ فراہم کیے جانے کا منصوبہ زیرِ غور ہے۔ ممکنہ طور پر یہ سکیم نوجوان ووٹرز کو مائل کرنے کیلئے اہم ہو سکتی ہے۔ عالمی مارکیٹ میں یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ حکومت کے ریلیف بجٹ دینے سے پاکستان کی عالمی معاشی اداروں کی ریٹنگ مزید نیچے جا سکتی ہے اور دوست ممالک کا اعتبار بھی کم ہو سکتا ہے۔ یہ تاثر بھی تقویت پکڑ سکتا ہے کہ سخت معاشی حالات میں حکومت کی جانب سے انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ملک کے بڑے معاشی مسائل چھوٹے اور سادہ فیصلوں سے حل کیے جا سکتے ہیں‘ یہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے لیکن اس کیلئے مضبوط حکومت اور دیر پا سیاسی استحکام کا ہونا ضروری ہے۔
اگر ہمسایہ ممالک پر نظر دوڑائی جائے تو بنگلہ دیش اور بھارت ایسے ممالک ہیں جن کے حالات اور واقعات کم و بیش پاکستان جیسے رہے ہیں لیکن ان کا بجٹ برائے 2024ء پاکستان سے بہتر دکھائی دیتا ہے۔ بنگلہ دیش نے 71 ارب ڈالر کا وفاقی بجٹ پیش کیا جس میں شرحِ نمو کا ہدف 7.5 فیصد جبکہ اوسط افراطِ زر کا تخمینہ 6.5 فیصد لگایاگیا۔اس کے برعکس پاکستان کا گروتھ ریٹ کا ممکنہ ہدف 3.5 فیصد جبکہ مہنگائی کا تخمینہ 21 فیصد ہے۔ بنگلہ دیش کے پاس تقریباً 31 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں جبکہ پاکستان کے زرمبادلہ ذخائر 4 ارب ڈالر سے بھی کم ہیں اور وہ بھی دوست ممالک سے لی گئی ادھار رقوم پر مشتمل ہیں۔ مالی سال 22ء میں بنگلہ دیش کی برآمدات 52 ارب ڈالرتک پہنچ چکی تھیں جبکہ اسی عرصے میں پاکستان کی ایکسپورٹ محض 31.78 ارب ڈالر تک محدود تھیں۔ رواں مالی سال بنگلہ دیش نے برآمدات کا ہدف 67 ارب ڈالر رکھا اورحالیہ مالی اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ بنگلہ دیش 65 ارب ڈالر سے زائد کا ہدف حاصل کرلے گاجبکہ مالی سال 2023ء میں پاکستان کا برآمدات کا ہدف 38 ارب ڈالر تھا اور گزشتہ نو ماہ کے اعداد و شمار سے پتا چلتاہے کہ اب تک برآمدات اور خدمات کی مد میں صرف 21.5 ارب ڈالر ہی حاصل ہو سکے ہیں جو ہدف سے بہت کم ہیں۔اکتوبر 2022ء سے پاکستانی برآمدات میں کمی کا سلسلہ جاری ہے اور خدشہ ہے کہ یہ 30 ارب ڈالر کی سطح کو بھی نہیں چھوپائیں گی۔ مالی سال 2023ء میں بنگلہ دیش میں فی کس آمدنی تقریباً 2675 ڈالر رہی جبکہ اسی عرصے میں پاکستان میں اس کا تخمینہ تقریباً 1568 ڈالر لگایا گیا۔ پاکستانی روپے کی قدراب 0.38 ٹکے کے برابر رہ گئی ہے۔ بنگلہ دیش نے معیشت کے تقریباً ہر شعبے میں ترقی کی ہے اور مزید ترقی کی طرف گامزن ہے اور اپنا جی ڈی پی بڑھا رہا ہے جبکہ پاکستان کی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔ بنگلہ دیش کے بجٹ میں 100فیصد ڈیجیٹل معیشت‘سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‘پیپرلیس اور نقدی سے پاک معاشرے جیسے اہداف نمایاں ہیں۔امکان ہے کہ پاکستانی حکومت 146.6کھرب کابجٹ پیش کرے گی، رواں مالی سال میں جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 0.299 فیصد ہے۔جہاں تک بھارتی معیشت کا تعلق ہے تو وہ بھی تیزی سے آگے بڑھتی معیشتوں میں شمار ہونے لگی ہے۔اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ہماری معیشت کا بھارت سے کوئی موازنہ ہی نہیں۔ بھارتی معیشت کا حجم 37کھرب 80 ارب ڈالر ہے جس میں شرحِ نمو 6.9 فیصد ہے جبکہ بھارت کے زرمبادلہ ذخائر 584 ارب ڈالر اور برآمدات 676ا رب ڈالرز ہیں۔ ان حالات میں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ان ممالک نے ایسا کیا کیا کہ وہ معاشی میدان میں بہتر کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ معاشی پالیسیوں میں مستقل مزاجی قائم رکھنے سے ہی مطلوبہ نتائج حاصل ہوتے ہیں۔ پاکستان میں آئے روز حکومتیں تبدیل ہونے اور اس سے بھی زیادہ مرتبہ وزیر خزانہ تبدیل ہونے کی روایت عام ہو چکی ہے جس کی وجہ سے معاشی پالیسیوں میں تسلسل نہیں رہتا۔ تحریک انصاف کے پونے چار سالہ دورِ حکومت میں تقریباً چار وزیر خزانہ تبدیل ہوئے اور موجودہ حکومت کے ایک سالہ دورِ حکومت میں دو وزیر خزانہ آچکے ہیں۔مستقبل میں کتنے عرصے بعد بار وزیر خزانہ تبدیل ہوا کرے گا‘ کوئی دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔