آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہونے کے بعد عوام کے ذہنوں میں اس وقت کئی سوالات گردش کر رہے ہیں۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ یہ معاہدہ ہونے کے بعد کیا ہو گا۔ کیا مہنگائی کم ہو گی‘ روزگار کے مواقع بڑھیں گے اور کاروبار میں آسانی ہو سکے گی یا نہیں؟ آئی ایم ایف معاہدہ ہونا اور اس پر عمل درآمد ہونا‘ دو مختلف پہلو ہیں۔ اگر پاکستان نے من و عن آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیا تو نو ماہ میں پاکستان کو آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالرز مل سکتے ہیں۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پاکستان کی مالی مدد کر سکتے ہیں۔ ورلڈ بینک اور اے ڈی بی بھی قرض فراہم کر سکتے ہیں اور کئی ڈونر پاکستان کے زرِمبادلہ ذخائر بڑھانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے ملکی معاشی حالات پر اثرات کی بات کریں تو چند دنوں میں درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو سکتا ہے‘ شرح نمو میں بہتری آ سکتی ہے‘ کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے‘ مہنگائی زیادہ ہو سکتی ہے اور ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتی ہے۔ لیکن اگر آئی ایم ایف کے مطالبات پر عملدرآمد نہیں ہوا تو اس معاہدے کا الٹا نقصان ہو سکتا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف قرض نہیں دے گا اور دوسری طرف عالمی طاقتیں پاکستان کی مدد کرنے میں ہچکچائیں گی۔ جس سے پاکستان کے ڈیفالٹ کرنے کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ اگر ملکی معاشی حالات پر اثرات کی بات کریں تو آئی ایم معاہدے پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں وزارتِ خزانہ مداخلت کر کے انٹربینک میں ڈالر ریٹ کم کر سکتی ہے۔ بینکوں کو تحریری احکامات کے بجائے درآمدات کے کاغذات کلیئر نہ کرنے اور ایل سی کھولنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کے زبانی احکامات جاری کیے جا سکتے ہیں۔ ڈیزل‘ پیٹرول کی قیمتوں میں سبسڈی دے کر کمی کی جا سکتی ہے۔ شرح سود کم ہو سکتی ہے اور مہنگائی کی شرح میں عارضی کمی لائی جا سکتی ہے لیکن یہ سب کچھ عارضی اعدادوشمار تک ہی محدود ہو سکتا ہے۔ تیسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ آئی ایم ایف کی کچھ شرائط پر عملدرآمد کر لیا جائے اور کچھ شرائط پر عملدرآمد روک دیا جائے۔ ایسے حالات میں غیریقینی کی صورتحال مزید کشیدہ ہو سکتی ہے اور مافیاز پیسہ بنانے کے نت نئے راستے نکال سکتے ہیں۔ ممکنہ طور پر آئی ایم ایف کو بھی یہی خدشات ہیں جس کی وجہ سے اس نے یکمشت تین ارب ڈالرز دینے کے بجائے نو ماہ کی اقساط میں ڈالرز دینے کا معاہدہ کیا ہے۔ صورتحال کوئی بھی ہو‘ پاکستانی عوام کو فوری طور پر حقیقی ریلیف ملنے کے امکانات کم دکھائی دے رہے ہیں۔
آئیے اب ایک نظر آئی ایم ایف معاہدے کی تاریخ پر ڈالتے ہیں۔ نیا معاہدہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ یا مختصر مدت کے انتظامات کے تحت کیا گیا ہے کیونکہ 2019ء میں دستخط شدہ توسیعی مالیاتی سہولت پروگرام جمعہ کو ختم ہو گیا ہے۔ کئی مشکلات کے بعد ہونے والے اس معاہدے کے بارے میں کچھ حقائق جاننا ضروری ہیں۔ 12مئی 2019ء کو آئی ایم ایف نے اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کی حکومت کیساتھ ہونے والے توسیع فنڈ سہولت کے سمجھوتے کے تحت پاکستان کیلئے 6ارب ڈالر کے پیکیج کی منظوری دی جس کی مدت 39ماہ تھی۔ 9اپریل 2022ء کو عمران خان کی حکومت کو پارلیمان میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے ذریعے ہٹا دیا گیا۔ 14جولائی 2022ء کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان توسیعی سہولت کے آخری کامیاب جائزے میں تقریباً ایک ارب 20کروڑ ڈالر کے اجرا کے لیے عملے کی سطح کا معاہدہ ہوا۔ 29اگست 2022ء کو آئی ایم ایف بورڈ نے بیل آؤٹ پروگرام کے ساتویں اور آٹھویں جائزوں کی منظوری دی‘ جس سے ایک ارب 10کروڑ ڈالر سے زائد کے اجرا اور ایک سال کی توسیع کی اجازت دی گئی۔ 31جنوری 2023ء کو آئی ایم ایف کے عملے کے وفد نے ہفتوں کی تاخیر کے بعد پاکستان کا دورہ کیا لیکن 10روزہ دورہ بورڈ کو معاملہ بھیجنے کے معاہدے کے بغیر اختتام پذیر ہوا جس سے معاشی غیر یقینی بڑھ گئی۔ 13فروری کو پاکستان‘ آئی ایم ایف نے نویں جائزے کا معاہدے کرنے کے لیے درکار اقدامات پر عملی طور پر بات چیت دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ 28فروری کو تاہم آئی ایم ایف نے عملے کی سطح کے سمجھوتے تک پہنچنے سے پہلے کم از کم چار اقدامات کی تشریحات کو تبدیل کر دیا جس پر حکومت کی جانب سے ناراضی کا اظہار کیا گیا۔ 5مئی کو آئی ایم ایف کے مشن کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ضروری فنانسنگ کے بعد نویں جائزے کو نتیجے تک پہنچانے کے لیے پاکستانی حکام کے ساتھ کام جاری رکھیں گے۔ 22جون کو شہباز شریف نے پیرس میں آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا سے ملاقات کی اور 30جون کو پروگرام کی مدت ختم ہونے سے پہلے آخری لمحات میں رکے ہوئے فنڈز کے اجرا کو محفوظ بنانے کی کوشش کی۔ 24جون کو پاکستان نے یکم جولائی سے شروع ہونے والے مالی سال کے لیے اپنے بجٹ میں نمایاں تبدیلیاں کیں جس میں آئی ایم ایف کے وضع کردہ تازہ ترین سخت مالیاتی اقدامات بھی شامل تھے۔
26جون کو پاکستان کے مرکزی بینک نے آئی ایم ایف پروگرام کی میعاد ختم ہونے سے چند روز قبل ایک ہنگامی اجلاس میں اپنی بینچ مارک شرح سود کو ایک فیصد مزید بڑھا دیا۔ 30جون کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ 3ارب ڈالر کی فنڈنگ پر سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے تحت عملے کی سطح پر معاہدہ کیا جو 9 ماہ پر محیط ہے اور توقع سے زیادہ ہے۔ تقریباً 8ماہ کی تاخیر کے بعد ہوا یہ معاہدہ جولائی کے وسط میں آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے جس سے ادائیگیوں کے توازن کے شدید بحران اور گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے مشکلات کے شکار پاکستان کو کچھ مہلت ملے گی۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس معاہدے میں اتنی تاخیر کیوں کی گئی اور اس سے ہونے والے نقصان کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ ماہرینِ معیشت یہ کہہ رہے تھے کہ درآمدات پر پابندی لگانا‘ زرِمبادلہ کو بڑھانے کے بجائے اس کی حوصلہ شکنی کرنا اور کرنسی ایکسچینج کرنے والوں پر بلاوجہ کی پابندیاں لگانا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ یہ معیشت کے اعدادوشمار درست رکھنے کے عارضی طریقے ہیں۔ وزیر خزانہ کو یہ سمجھنے میں تقریباً آٹھ ماہ لگ گئے۔ غلط فیصلوں سے ملک کو معاشی نقصان پہنچانے کے حوالے سے احتساب کا نظام موثر دکھائی نہیں دیتا۔ ترقی یافتہ ممالک میں غلط فیصلوں کا احتساب کیے جانے کی روایت ہے۔ اگر پاکستان جیسا معاملہ کسی ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو یقینا وزیر خزانہ مستعفی ہو جاتے اور وزیراعظم اپنی سیٹ چھوڑ دیتے۔ جبکہ پاکستان میں وزیراعظم اور وزیر خزانہ آئی ایم ایف معاہدہ ہونے پر کریڈٹ لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن وہ عوام کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ آٹھ ماہ تک یہ معاہدہ نہ ہونے سے کاروباری حضرات‘ عوام اور ملکی معیشت کا اربوں ڈالر کا جو نقصان پہنچا ہے‘ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ شاید اس کی ذمہ داری انہی پر ڈالنی چاہیے جو تقریباً ہر پروگرام اور پریس کانفرنس میں یہ فرما رہے تھے کہ پاکستان آئی ایم ایف کے بغیر بھی چل سکتا ہے۔ جبکہ معیشت دان ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف ہی آخری سہارا ہے۔ آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے جبکہ وزیر خزانہ صاحب آج بھی فرما رہے ہیں کہ اگر سٹاف لیول معاہدہ نہ ہوتا تو پلان بی بھی میرے پاس موجود تھا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پلان بی واقعی موجود تھا اور انتہائی موثر بھی تھا تو پھر پاکستانی عوام پر ٹیکسوں کے نیا بوجھ کیوں ڈالا گیا؟ بجلی تقریباً آٹھ روپے فی یونٹ مہنگی کرنے کی یقین دہانی کیوں کروائی گئی ہے لیکن وزیر خزانہ صاحب سے یہ سوال پوچھنا بے سود ہے کیونکہ آج کل وہ اپنی مرضی کے برعکس سوالات کے جوابات نہیں دیتے۔ لیکن ذہن نشین رہے کہ عوام ان سوالات کے جوابات چاہتے ہیں اور الیکشنز میں اس سے متعلق ردِعمل بھی سامنے آ سکتا ہے۔