ملکی سطح پر معاشی اعدادوشمار کچھ بہتر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان دیکھا گیا اور روپے کی قدر بھی بہتر ہوتی دکھائی دی۔ معاشی خبریں خوش آئند ہیں لیکن عوام کی اکثریت یہ سوال پوچھ رہی ہے کہ ڈالر ریٹ میں ہونے والی کمی اور سٹاک ایکسچینج میں بہتری مستقل ہے یا عارضی؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے ماہ عالمی سطح پر کریڈٹ کارڈز کی ادائیگی کے معاملات بینکوں کے سپرد کیے گئے تھے تو اوپن مارکیٹ میں ڈالر تقریباً پچیس روپے گر گیا تھا، اس سے قبل یہ ادائیگیاں منی ایکسچینجرز کر رہے تھے مگر چند دن بعد ڈالر کا ریٹ دوبارہ اتنا ہی بڑھ گیا۔ یہی صورتحال سٹاک مارکیٹ میں بھی دیکھی گئی تھی۔ شاید اسی لیے عوام شش و پنج کا شکار ہیں کہ آنے والے دنوں میں کیا ہو گا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کہہ رہے ہیں کہ بلوم برگ نے مئی میں یہ لکھا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر 244 روپے کے قریب ہے۔ لیکن وہ شاید یہ بتانا بھول گئے کہ بلوم برگ نے جون میں یہ بھی لکھا تھا کہ پاکستان سے متعلق ان کی رپورٹ کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ وزیر خزانہ موڈیز کی رپورٹ پر بھی تبصرہ کر دیتے جس میں کہا گیا ہے کہ مالی سال 2024ء میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی زیادہ رہے گی‘ اب بھی غیر یقینی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کی مکمل فنانسنگ حاصل کر سکے گا یا نہیں۔ پاکستان کو ریونیو میں اضافے کے علاوہ معاشی اور انتظامی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ قلیل مدت میں معاشی مشکلات کا سامنا رہے گا۔ بلند شرحِ سود کے باعث حکومتی اخراجات اور کاروباری سرمایہ کاری محدود رہے گی۔ اپنے مطلب کی رپورٹس کو بنیاد بنا کر ملکی معیشت کا فیصلہ کرنا مناسب عمل نہیں ہے۔
موجودہ حالات میں ڈالر ریٹ کا نمایاں حد تک کم ہونا نا ممکن نہیں ہے۔ وزارتِ خزانہ چاہے تو انٹربینک میں ڈالر دو سو روپے سے بھی نیچے گر سکتا ہے لیکن مارکیٹ کے ساتھ کھیلنے کے نتائج زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔ گرے مارکیٹ اور انٹربینک کے درمیان فرق بڑھ سکتا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ مارکیٹ آزاد ہے اور ڈالر ریٹ خود بخود کم ہو رہا ہے۔ جبکہ غالب امکان یہ ہے کہ تین جولائی کو چھٹی کی وجہ سے ڈالر ٹریڈ نہیں ہو رہے تھے اور انٹربینک میں ڈالر کا نیا ریٹ بھی جاری نہیں ہوا تھا۔ لیکن رات گئے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ آج انٹربینک میں ڈالر 270‘ 272 روپے پر رہا۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ شاید بینکوں کو رات گئے پیغام پہنچایا گیا کہ صبح مارکیٹ اس ریٹ پر کھولی جائے۔ اگر ڈیمانڈ اور سپلائی کی بنیاد پر انٹربینک میں ڈالر ریٹ کم ہو تو نئے مالی سال کے پہلے دن صبح دس بجے ہی ڈالر کا تقریباً پندرہ روپے گرنا ممکن نہیں ہوتا بلکہ پہلے ورکنگ ڈے کے اختتام پر ہی بینکوں کے پاس وافر ڈالرز آنا ممکن ہو سکتا تھا کیونکہ ڈالرز کی ڈیمانڈ اور سپلائی کا درست حساب دن کے اختتام پر ہی ممکن ہے۔ جو لوگ بینکنگ نظام کو سمجھتے ہیں وہ ضرور اس باریکی کو سمجھ گئے ہوں گے۔ وزیر خزانہ صاحب یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اس وقت کابل اور پاکستان میں ڈالر ریٹ کا فرق صرف پانچ روپے ہے اور گرے مارکیٹ کا فرق بہت کم ہو گیاہے۔ یہ بات درست ہے لیکن مبینہ طور پر اس کی وجہ حکومتی پالیسیاں نہیں بلکہ عید کا تہوار ہے۔ ہر سال عید الاضحی سے پہلے پندرہ دن اور عید کے بعد پندرہ دن تک ڈالرز کی ڈیمانڈ کم اور سپلائی زیادہ رہتی ہے کیونکہ اوورسیز پاکستانی ملک میں آ چکے ہوتے ہیں اور بھاری مقدار میں ڈالرز ایکسچینج کراتے ہیں۔ مارکیٹ کی اصل صورتحال کا اندازہ پندرہ جولائی کے بعد ہو سکتا ہے۔ عوام بھی اب ان معاملات کو سمجھنے لگے ہیں یہی وجہ ہے کہ ڈالر ریٹ کم ہونے کے بعد بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر نہیں مل رہا، یعنی کہ عوام پریشانی میں ڈالرز بیچنے کے بجائے انتظار کر رہے ہے کہ مارکیٹ میں جب ٹھہرائو آئے‘ تبھی ڈالرز بیچے جائیں۔
اگر سٹاک ایکسچینج پر نظر دوڑائی جائے تو مارکیٹ کے ردعمل کو نارمل نہیں کہا جا سکتا۔ مارکیٹ کھلنے کے 5 منٹ بعد ہی مارکیٹ انڈیکس 2230 پوائنٹس بڑھ گیا۔ اس زبردست تیزی کی وجہ سے پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا رسک مینجمنٹ سسٹم خود بخود آپریشنل ہوگیا۔ مارکیٹ کے کے ایس ای 30 انڈیکس میں آنے والی یہ تیزی چونکہ 4 فیصد سے زائد تھی اس لیے مارکیٹ میں ایک گھنٹے کے لیے کاروباری سرگرمی بند کرنا پڑی۔ اس طرح مارکیٹ میں لین دین صبح 9 بج کر 35 منٹ سے 10 بج کر 35 منٹ تک بند رہا۔ مارکیٹ کو بند کرنا اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ مارکیٹ کو جان بوجھ کر اٹھایا جا رہا ہے۔ماضی میں بھی ایسا کیا جاتا رہا ہے۔پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مقامی مارکیٹ کے تجربات اور عالمی سطح پر مارکیٹوں کے اختیار کردہ رسک مینجمنٹ کے طریقہ کار کو اپناتے ہوئے ایک جامع رسک مینجمنٹ کا نظام وضع کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد مارکیٹ میں کاروبار کرنے والوں کو بلاوجہ کے نقصانات، مارکیٹ میں بے یقینی اور سٹے بازی سے بچانا ہے۔ مارکیٹ میں سرمایہ کار بروکر کے ذریعے کاروبار کررہا ہوتا ہے اور اس کو ایک حد تک ہی مارکیٹ میں خریداری کی اجازت ہوتی ہے۔ اگر غیرمعمولی تیزی یا غیر معمولی مندی میں کسی سرمایہ کار کی یہ حد متاثر ہوجائے تو نیشنل کلیئرنگ کمپنی آف پاکستان حرکت میں آتی ہے اور وہ سرمایہ کار‘ جو سرمایہ کاری کی حد سے زائد کی سرمایہ کاری کرچکے ہوتے ہیں یا انہیں مقررہ حد سے زائد نقصان ہوچکا ہوتا ہے‘ انہیں نقصان کی رقم ادا کرنے اور بروکر اکاؤنٹ میں جمع کرانے کا کہا جاتا ہے۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں یہ عمل کسی ایک مخصوص شیئر کی قیمت میں غیر معمولی اتار چڑھاؤ کی صورت میں بھی اپنایا جاتا ہے اور اگر 5 فیصد تک قیمت میں اضافہ دیکھا جائے تو اس حصص کی خرید و فروخت 45 منٹ تک روک دی جاتی ہے۔ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ ڈار صاحب کے پچھلے دور کے آخری دنوں میں بھی سٹاک مارکیٹ اسی طرح اوپر گئی تھی جو عارضی تھی۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں گزشتہ کئی مہینوں سے مندی کا رجحان غالب تھا؛ تاہم سوموار کو انڈیکس میں ہونے والا اضافہ ایک دن میں ہونے والا اب تک کا سب سے بڑا اضافہ ہے۔اس سے پہلے سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں کسی ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ 11 اپریل 2022ء کو ریکارڈ کیا گیا تھا جب انڈیکس 1700 پوائنٹس بڑھ گیا تھا۔یہ اضافہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دو دن بعد ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے پانچ جون 2017ء کو 1566 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ سٹاک مارکیٹ کا بہتر ہونا یا ڈالر ریٹ کا نیچے آنا معیشت کی بہتری کی گواہی نہیں ہو سکتے۔ یہ معیشت کا ایک رخ ہے جبکہ دوسرا رخ شرحِ نمو ہے۔ اگر شرحِ نمو بہتر نہیں ہو رہی تو دیگر اعدادوشمار کا زیادہ دیر تک مثبت رہنا ممکن نہیں ہو پاتا۔ اس سے وقتی پذیرائی ضرور ہو سکتی ہے لیکن دیر پا معاشی ترقی کے اہداف حاصل نہیں کیے جا سکتے۔
ڈالر اور سٹاک ایکسچینج کی طرح مہنگائی کی صورتحال میں بھی بہتری دیکھی جارہی ہے۔ مئی میں افراطِ زر یا قیمتوں میں اضافے کی شرح موجودہ صدی کی بلند ترین سطح یعنی 38 فیصد تھی جو جون کے اختتام پر 8.6 فیصد کم ہوکر 29 فیصد رہ گئی۔ مہنگائی کی شرح میں کمی کا یہ تسلسل شاید جولائی میں نظر نہ آئے کیونکہ آئی ایم ایف معاہدے کے تحت بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت توانائی کے شعبے میں گردشی قرضہ 4300 ارب روپے ہوگیا ہے جس میں سے 1700 ارب روپے تیل و گیس جبکہ 2600 ارب روپے بجلی کے شعبے کے ہیں۔ اس حوالے سے اوگرا نے ایس این جی پی ایل کے صارفین کیلئے قیمت میں 50 فیصد اضافے کا اعلان کیا تھا جس سے قیمت بڑھ کر 1238 روپے 68 پیسے فی ایم ایم بی ٹی یو ہو گئی ہے جبکہ سوئی سدرن گیس کے صارفین کیلئے قیمت میں 45 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جبکہ اس میں مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے۔ بجلی کی قیمتوں کے حوالے سے نیپرا کا اعلان آئندہ چند روز میں متوقع ہے اور بجلی کے بیس ریٹ میں کم از کم 4 روپے سے زائد فی یونٹ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد بھی عوام کے حالات میں بہتری کے امکانات کم ہیں۔