ایگزیکٹو بورڈ اجلاس میں پاکستان کو قرض جاری کرنے کی حتمی منظوری دینے سے پہلے آئی ایم ایف کے وفد نے ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ عمومی طور پر آئی ایم ایف ایسا نہیں کرتا لیکن پاکستان کے حالات مختلف ہیں۔ شاید ہی کسی ملک کی حکومت مخالف جماعت نے آئی ایم ایف کوخط لکھ کر اپنے ہی ملک کو قرض دینے سے منع کیا ہو لیکن پاکستان میں ایسا ہوا ہے۔ شاید اسی لیے وہ تمام پارٹیوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں تاکہ اگر کسی کو کوئی اعتراض ہے تو وہ براہِ راست اس کا ذکر کر سکے۔ اس مرتبہ تحریک انصاف نے سیاسی میچورٹی کا مظاہرہ کیا ہے اور آئی ایم ایف پروگرام پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پر تمام جماعتوں میں ''میثاقِ معیشت‘‘ ہو چکا ہے۔ جب وزیراعظم شہباز شریف ماضی میں میثاقِ معیشت کا مطالبہ کرتے تھے تو تحریک انصاف اسے حکومتی سازش قرار دیتی رہی۔ ہماری سیاسی جماعتیں نفرت اور عداوت میں اس قدر آگے جا چکی ہیں کہ ملکی مفاد میں بھی اکٹھا ہونے کے لیے بیرونی اداروں کو کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ آئی ایم ایف جو کر رہا ہے‘ وہ اصول اور قانون کے مطابق درست ہے۔ پاکستانی عوام کو آئی ایم ایف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ ان نازک حالات میں بھی وہ مصلحت سے کام لے رہا ہے اور کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان اپنی معاشی سمت درست کر سکے۔ اس حوالے سے وزیراعظم صاحب کی کاوشیں بھی قابلِ ستائش ہیں۔ آئی ایم ایف سے لگاتار مذاکرات جاری رکھنا اور ملک کے لیے آئی ایم ایف پروگرام حاصل کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ گو کہ ابھی تک مکمل کامیابی نہیں ملی ہے لیکن اب صرف رسمی طور پر اجلاس منعقد ہونا اور دستخط کرنا باقی ہے۔ اگر وزیراعظم صاحب چاہتے تو وہ پالیسی بھی اختیار کر سکتے تھے جو چیئرمین تحریک انصاف نے اپنی حکومت کو جاتا دیکھ کر کی تھی۔ وہ بھی آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے توڑ دیتے‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ریکارڈ کمی کر دیتے اور ڈالر کی قیمت بھی فکس کر دیتے۔ عوامی سطح پر انہیں پذیرائی مل جاتی اور سیاسی کیپٹل بھی کسی حد تک واپس مل جاتا۔ لیکن انہوں نے وہ کیا جس کی ملک کو ضرورت تھی۔
وزیراعظم نے اپنی ذمہ داری پوری کر دی ہے۔ اب سٹیٹ بینک اور وزارتِ خزانہ کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور پروگرام کو طے شدہ اصولوں کے مطابق لے کر چلنا چاہیے۔ سٹیٹ بینک نے بینکوں سے کہا ہے کہ ایل سیز کھولنے سے پہلے ڈالرز کا بندوبست کریں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بینک کن ذرائع سے ڈالرز اکٹھا کر سکتے ہیں۔ بینکوں کے پاس ڈالرز کا انتظام کرنے کے تین بڑے ذرائع ہیں۔ برآمدات‘ ترسیلاتِ زر اور اوپن مارکیٹ۔ پہلے دو ذرائع پر بینکس کا کنٹرول نہیں اور تیسرے پر سٹیٹ بینک نے غیر اعلانیہ پابندی لگا رکھی ہے۔ قانون کے مطابق بینک ضرورت پڑنے پر اوپن مارکیٹ سے ڈالرز خرید سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہونہیں رہا۔ ایک نجی بینک کے پریزیڈنٹ کے مطابق اگر ایل سیز کی ادائیگی کے لیے بینک اوپن مارکیٹ سے ڈالر خرید لے تو سخت سرزنش کی جاتی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ درآمدات پر سے پابندی ابھی صرف نوٹیفیکیشن کی حد تک ہی ہٹائی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ایل سیز کھولنا ایک بڑا چیلنج ہی رہے گا۔ آئی ایم ایف وفد نے پاکستان تحریک انصاف کے وفد سے ملاقات میں بھی درآمدات پر موجودہ پابندی اور ایکسچینج ریٹ کو مصنوعی طور پر روکنے سے ہونے والے نقصانات پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ امید ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف کو اپنی غلطیوں کا احساس بھی ہوا ہوگا۔اس سے پہلے سٹیٹ بینک نے درآمد کنندگان کو خام مال کی درآمدات کی ایل سی کھولنے کے لیے ڈالر کا بندوبست کرنے کی ذمہ داری دی تھی جس سے صنعتوں کے لیے حالات نسبتاً بہتر ہوئے لیکن حکومتی موقف کے مطابق اس صورتحال نے ڈالر کی بلیک مارکیٹنگ کو تقویت دی۔ درآمد کنندگان نے گرے مارکیٹ سے 20سے25روپے فی ڈالر تک زیادہ قیمتوں پر امریکی کرنسی خریدنا شروع کر دی تھی جس سے انٹربینک اور اوپن مارکیٹ کے درمیان ریٹ میں بڑا فرق آگیا تھا‘ جس کے نتیجے میں ترسیلاتِ زر میں کمی آئی اور برآمدی آمدنی کی گرے مارکیٹ میں فروخت کی گئی یا ان ڈالرز کو مزید منافع کیلئے ذخیرہ کر لیا گیا۔ میں کئی کالمز میں گرے مارکیٹ سے ڈالرز کی خریداری کے نقصانات کے بارے میں لکھ چکا ہوں۔ آج گرے مارکیٹ اور انٹربینک میں ڈالر کا فرق دوبارہ بیس روپے تک بڑھ گیا ہے اور یہ تین سو سے تین سو پانچ روپے تک بلیک میں بک رہا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان اور ایران بارڈرز سے سمگلنگ کو قرار دیا جا رہا ہے۔ شنید ہے کہ ملکی ضرورت کا تقریباً تیس فیصد ڈیزل ایران سے سمگل ہو کر پاکستان آ رہا ہے‘ جس کی ادائیگی ڈالرز میں کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان بھی ڈالرز کی ضرورت پوری کرنے کے لیے پاکستان کا سہارا لیتا ہے۔
دیکھا جائے تو ڈالر کی غیرقانونی تجارت کا ایک راستہ بند کرکے سرکار نے دو نئے راستے کھول دیے ہیں۔ ایران افغانستان سمگلنگ کو مبینہ طور پر حکومتی آشیرباد حاصل ہے تاکہ تجارتی خسارے پر قابو پایا جا سکے اور درآمدات میں کمی ہو سکے لیکن وہ مقصد بھی حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ سالانہ بنیادوں پر 31فیصد کمی کے باوجود مالی سال 2023ء میں 27ارب 55کروڑ ڈالر کے تجارتی خسارے کے ساتھ درآمدات کا مجموعی حجم 55ارب 29کروڑ ڈالر رہا۔ جو کہ توقعات سے زیادہ ہے۔ ان حالات کے پیشِ نظر عالمی منڈی میں پاکستانی روپیہ مشکلات کا شکار ہے۔ ٹریڈنگ اکنامکس گلوبل میکرو ماڈلز کی توقعات کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے اختتام تک امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی تجارت 293روپے 52پیسے پر ہونے کی توقع ہے۔ 12ماہ میں روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 317.29پر تجارت کرے گا۔ اس سے قبل بدھ کو بینک آف امریکا سکیورٹیز نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستانی روپیہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پہلے ہی اپنی مناسب قیمت‘ 286 روپے تک پہنچ چکا ہے لیکن 25کھرب روپے کے ملکی قرضے اسے مزید 15سے 25فیصد کمزور کرکے تقریباً 340روپے فی ڈالر تک لے جا سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ چین اور پاکستان نے ''بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ کے ذریعے اقتصادی تعاون کے پروگرام سی پیک کے10سال مکمل کر لیے ہیں۔ ملٹی بلین ڈالر پروگرام چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) 2013ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور اسے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو یا BRI کی فلیگ شپ توسیع کا نام دیا گیا تھا‘ اس توقع کے ساتھ کہ یہ منصوبہ پاکستان کو اقتصادی رابطے کے لیے ایک علاقائی مرکز میں بدل دے گا۔ ایک اندازے کے مطابق اس منصوبے کی وجہ سے تقریباً دو لاکھ براہِ راست مقامی ملازمتیں پیدا ہوئیں جبکہ 14سو کلومیٹر سے زیادہ شاہراہیں اور سڑکیں بنائی گئیں اور آٹھ ہزار میگا واٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی گئی۔ سی پیک منصوبے کے تحت لگائے گئے بجلی کے منصوبوں سے لگ بھگ 25کروڑ آبادی والے ملک میں بجلی کی بندش کی وجہ سے برسوں کے بلیک آؤٹ کا خاتمہ ہوا ہے۔ لیکن گوادر بندرگاہ اور اس سے ملحقہ شہر بجلی کی شدید کمی کا شکار رہا جس کے باعث نہ صرف عوام کے معمولاتِ زندگی متاثر ہوئے بلکہ بندرگاہ بھی مکمل طور پر فعال نہیں ہو سکی ہے۔ سی پیک نے براہِ راست چینی سرمایہ کاری 25بلین ڈالر سے زیادہ کر دی ہے‘ جو کہ 2030ء تک بڑھ کر 62 ارب ڈالر تک پہنچنے کی توقع ہے‘ جبکہ متعدد صنعتی زونز سمیت سی پیک کے تمام منصوبے مکمل ہونے کی توقع بھی ہے۔ لیکن اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ مستقبل میں پاکستان میں کس سیاسی جماعت کی حکومت ہو گی۔ اگر پیپلز پارٹی یا (ن) لیگ کی حکومت رہے تو سی پیک سے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اگر تحریک انصاف وفاق میں حکومت بنا لیتی ہے تو نتائج مختلف ہو سکتے ہیں۔