حکومت کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً بیس روپے اضافے کے بعد عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بجلی کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کے بعد پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایسا بے تحاشا اضافہ عوام پرایٹمی میزائل بن کر گراہے۔ عوام سرکار کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، سرکار آئی ایم ایف کو قصور وار بتاتی ہے اور آئی ایم ایف کے مطابق بجلی، گیس یا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے میں آئی ایم ایف کا کوئی کردار نہیں ۔ کسی بھی ملک کی حکومت جب ٹیکس اہداف حاصل نہیں کر پاتی تو وہ ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے متبادل مگر آسان حل پیش کرتی ہے۔ آئی ایم ایف حکومتی تجاویز ہی کی منظوری دیتا ہے۔ کچھ وزرا عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کو وجہ بنا کر پیش کررہے ہیں کہ چند دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں 72 ڈالرز فی بیرل سے بڑھ کر 83 ڈالرز فی بیرل تک پہنچ گئی ہیں یعنی تقریباً 12 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں تو گزشتہ دس‘ بارہ دنوں میں بڑھی ہیں۔ حکومت کی موجودہ ادائیگیاں تقریباً دو سے تین ماہ پرانی انوائس کی ہیں جب پٹرولیم مصنوعات کی قیمت کم تھیں۔ اس کے علاوہ سرکار نے چند ماہ قبل روسی تیل کی آمد پر قوم کو بڑی مبارکبادیں دی تھیں اور پٹرول کی قیمت 30 روپے تک کم ہونے کی نوید سنائی تھی۔ لیکن یہ کم ہونے کے بجائے 20 روپے مزید بڑھ گیا ہے۔ روسی تیل کے مثبت اثرات ابھی تک سامنے نہیں آ سکے ہیں۔ عوام کی اکثریت اس بارے میں سوال کر رہی ہے کہ آخر روسی تیل آنے کے بعد بھی قیمتیں کم کیوں نہیں ہو رہیں۔ سوشل میڈیا پر سوال کیا جا رہا ہے کہ روس کا سستا تیل کون پی گیا ہے۔ سرکاران باتوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ میں کچھ حقائق سامنے رکھ رہا ہوں تاکہ اصل تصویر سامنے آنے میں مدد مل سکے۔ پاکستان میں اس وقت پانچ ریفائنریاں پٹرولیم مصنوعات مارکیٹ میں سپلائی کر رہی ہیں۔ تاہم ان مقامی ریفائنریوں کی پیداوار ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی ضرورت کو پورا کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے پاکستان پٹرولیم مصنوعات درآمد کرتا ہے۔ پاکستان میں خام تیل کی سالانہ کھپت دس سے گیارہ ملین ٹن ہے، جس میں تین ملین ٹن خام تیل مقامی طور پر پیدا ہوتا ہے جبکہ باقی سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور کویت سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مشرقِ وسطیٰ سے آنے والا خام تیل تین‘ چار اقسام کا ہے۔ پاکستانی ریفائنریاں خلیجی ممالک کے تیل کو مدنظر رکھ کر ڈیزائن کی گئی ہیں۔ پاکستانی ریفائنریاں روس سے آنے والے خام تیل کو پراسیس کرنے کی صلاحیت کی حامل تو ہیں مگر روسی خام تیل سے زیادہ تر فرنس آئل بنے گا کیونکہ اس تیل کی تکنیکی فزیبلٹی کے مطابق اس سے فرنس آئل زیادہ اور ڈیزل اور پٹرول کم بنتے ہیں۔ اس خام تیل کو پٹرولیم مصنوعات میں بدلنے کے لیے لاگت بھی زیادہ آئے گی۔ اس کے مقابلے میں انڈیا میں کام کرنے والی ریفائنریاں اس سے زیادہ ڈیزل پیدا کر کے مقامی ضرورت پوری کرنے کے علاوہ اسے برآمد بھی کر رہی ہیں۔ بھارت بھی یہ خام تیل خرید رہا ہے؛ تاہم اس کی ریفائنریاں زیادہ جدید ٹیکنالوجی کی حامل ہیں۔ وہاں ''ڈیپ کنورژن‘‘ ریفائنریاں ہیں جو خام تیل سے ڈیزل اور پٹرول زیادہ نکالتی ہیں اور فرنس آئل کم۔ اس کے مقابلے میں پاکستان کی ریفائنریاں پُرانی ٹیکنالوجی کی حامل ہیں جو خام تیل سے فرنس آئل زیادہ پیدا کرتی ہیں۔ اگر پاکستان میں بھی ریفائنریوں کو اَپ گریڈ کیا جائے تو وہ اس تیل سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ریفائنریوں کی اَپ گریڈیشن کی پالیسی تیار ہو چکی ہے؛ تاہم اس کی منظوری ابھی تک نہیں ہو سکی۔ واضح رہے کہ روس کی جانب سے بھارت کو اپریل کے مہینے میں اوسطاً روزانہ سولہ لاکھ بیرل سے زائد کی سپلائی کی گئی اور روس سے خریدے گئے تیل کا بھارت کی آئل درآمدات میں چالیس فیصد تک حصہ ہے۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ روسی تیل کو صرف سیاسی سٹنٹ کے لیے استعمال کیا گیا۔ عوام کو فائدہ پہنچانا شاید مقصود نہیں تھا۔ پاکستان نے تقریباً پینتالیس ہزار بیرل تیل روس سے منگوایا جبکہ سالانہ ضرورت تقریباً ساٹھ لاکھ بیرل ہے۔ اس حساب سے یہ کُل ملکی کھپت کا صرف0.8فیصد بنتا ہے۔ اسے بھی خلیجی ممالک کے تیل میں ملا کر استعمال کیا جا سکے گایعنی تقریباً 0.3 فیصد ہی استعمال میں آ سکے گا۔ پاکستان ریفائنری لمیٹڈ (پی آر ایل) کو روسی خام تیل ریفائن کرنے میں کم از کم دو ماہ کا وقت لگے گا کیونکہ اسے مشرقِ وسطیٰ سے درآمد شدہ تیل میں ملانے کی ضرورت ہوگی تاکہ ایندھن کی اعلیٰ طلب کو پورا کیا جا سکے۔ سفری اخراجات اور ریفائنری کے بعد اگر حساب لگایا جائے تو روسی تیل صرف دو یا تین روپے سستا پڑے گا۔ پاکستان نے گزشتہ سال مجموعی طور پر اوسطاً روزانہ ایک لاکھ 54 ہزار بیرل خام تیل درآمد کیا، رواں سال یہ ہدف طے کیا گیا تھا کہ روزانہ ایک لاکھ بیرل روسی خام تیل درآمد کیا جائے گا جس سے امید ظاہر کی گئی کہ درآمدی بل میں کمی واقع ہوگی اور زرِمبادلہ کے بحران سے نمٹنے میں مدد ملے گی‘ ساتھ ہی یہ بڑھتی مہنگائی پر قابو پانے میں بھی مددگار ثابت ہو گا۔ لیکن روسی تیل سے ایندھن کی مصنوعات کی کم پیداوار کے باعث پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں اضافہ کرنا پڑ سکتا ہے، اس کے لیے بیرونی ادائیگیوں کی مد میں ڈالرز کی طلب میں اضافہ ہو سکتا ہے جس سے بحران کی شکار معیشت پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ اگرچہ اسلام آباد اور ماسکو نے تیل کی قیمتوں اور ان میں کمی کے حوالے سے مکمل تفصیلات جاری نہیں کیں لیکن روسی تیل کی ادائیگی کے لیے چینی کرنسی یوآن کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہو سکتی ہے۔ چین‘ جو روس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے‘ روس کو اس سے تجارت کیلئے یوآن کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے روسی تیل کی پہلی کھیپ کی ادائیگی مبینہ طور پر یوآن میں کی تھی۔ روس کو یوآن میں ادائیگی کرنے کے بجائے بارٹر ڈیل زیادہ بہتر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ روسی تیل کی ترسیل کی لاگت مشرقِ وسطیٰ سے درآمد شدہ تیل سے کئی گنا زیادہ ہے، ایسا صرف اس لیے نہیں کہ پاکستان اور روس کے درمیان فاصلہ زیادہ ہے بلکہ اس کے پیچھے یہ ایشو ہے کہ پاکستان کی بندرگاہوں پر روس سے آنے والے بڑے جہاز لنگر انداز نہیں ہو سکتے۔ مشرقِ وسطیٰ سے براہِ راست تیل کی ترسیل کرنے کے بجائے یورال خام تیل کو پاکستان بھیجنے سے پہلے عمان میں لائٹرنگ آپریشن کے ذریعے سپرٹینکر سے چھوٹے جہازوں میں منتقل کیا جاتا ہے۔ سرکار یہ تمام حقائق جانتی ہے۔ لیکن جب پوچھا جاتا ہے کہ روسی تیل کی کیا قیمت ہے اور اس کے فائدے یا نقصانات کیا ہیں تو بتایا جاتا ہے کہ یہ ایک نیشنل سیکرٹ ہے۔ اسی وجہ سے آج تک حکومت نے روسی تیل کی آفیشل قیمت جاری نہیں کی۔ ان حالات میں عوام سمجھنے سے قاصر ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں، اپنے مسائل کس کو سنائیں اور اپنی مشکلات کا ذمہ دار کسے ٹھہرائیں۔
وزیر مملکت برائے پٹرولیم نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی زمین میں 61 ٹریلین ڈالر کی معدنیات ہیں۔ امریکہ اس وقت دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت ہے، اس کی تین بین الاقوامی کمپنیوں ایپل، گوگل اور ایمیزون کی مجموعی قیمت 60 کھرب ڈالر ہے اور ان تین کمپنیوں کو ہی امریکہ کی معاشی طاقت کا محور مانا جاتا ہے۔ مشیر صاحب نے صرف ایک تقریر میں امریکہ اور پاکستان کا نہ صرف موازنہ کر دیا بلکہ پاکستان کو امریکہ کے مقابلے پر لا کھڑا کیا اور پاکستان کو ایک نمبر زیادہ بھی دے دیا۔ یہ بھی شاید روسی تیل جیسے نعرے ہیں۔ یہاں مجھے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی ایک تقریر یاد آ رہی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ حکمرانوں کے پاس معیشت کا علاج نہیں‘ یہ ملک و قوم پر بوجھ ہیں اور بات بات پہ جھوٹ بولتے ہیں۔
عالمی مالیاتی ادارے سے 22 مرتبہ قرض لیا گیا اور پھر اس قرض کی سود سمیت ادائیگی کے لیے مزید قرضے لیے گئے۔ قوم کو آج تک پتا نہیں چلا کہ اربوں ڈالر کے قرضے کہاں گئے۔ اس وقت ملک کو ایسی لیڈرشپ کی ضرورت ہے جو حقیقی طور پرجمہوری ہو اور عوام کے سامنے سچ بولنے پر یقین رکھتی ہو۔