پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا بینچ مارک‘ کے ایس ای 100انڈیکس‘ چھ سال بعد 49ہزار پوائنٹس کی حد عبور کر گیا ہے۔ حکومت اس پر خوشی کے شادیانے بجا رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیا ہوا کہ سٹاک ایکسچینج کے پوائنٹس میں تاریخی اضافہ ہو رہا ہے اور کیا حکومت کو اسے معاشی کامیابی سمجھنا چاہیے؟ آئی ایم ایف سے معاہدے کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے لیکن ایسے معاہدے تو پہلے بھی ہوئے ہیں تب یہ اضافہ کیوں نہیں دیکھا گیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت جان بوجھ کر سٹاک مارکیٹ کو اٹھا رہی ہے تاکہ جاتے جاتے وہ یہ نعرہ لگا کر جائے کہ ہمارے دور میں ملک ترقی کر رہا تھا جس کا ثبوت سٹاک ایکسچینج ہے۔ واضح رہے کہ اسحاق ڈار صاحب جب پچھلے دورِ حکومت میں وزراتِ خزانہ چھوڑ کر جانے والے تھے‘ اس وقت بھی سٹاک ایکسچینج کے پوائنٹس میں تاریخی اضافہ ہوا تھا اور ان کے جانے کے بعد سٹاک مارکیٹ گر گئی تھی۔ اس مرتبہ بھی شبہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں یہ اضافہ عارضی ہو سکتا ہے۔ آخری بار سٹاک مارکیٹ میں اتنے پوائنٹس چھ برس قبل 9جون 2017ء کو دیکھے گئے تھے۔ اس کے بعد اکتوبر 2017ء میں اسحاق ڈار صاحب ملک چھوڑ کر لندن روانہ ہو گئے تھے۔ نگران سیٹ اَپ میں ڈار صاحب کی کیا پوزیشن رہتی ہے‘ اس بارے پیش گوئی نہیں کی جا سکتی لیکن نواز شریف صاحب کی پوری کوشش ہے کہ انہیں نگران وزیر خزانہ لگا دیا جائے۔ اگر ایسا ہوا تو مارکیٹ میں استحکام رہنے کی توقع ہے بصورت دیگر موقع پرست عناصر چوکے اور چھکے لگانے کے لیے تیار بیٹھے ہیں۔
دنیا میں لوگوں کی بڑی تعداد سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرتی ہے‘ اس لیے اسے معیشت کے اشاریے کے طور پر دیکھا جاتا ہے‘ جب کہ پاکستان کی آبادی تقریباً 24کروڑ ہے اور صرف اڑھائی لاکھ لوگ سٹاک مارکیٹ سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ آبادی کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ اس لیے پاکستان میں سٹاک ایکسچینج کو معیشت جانچنے کا پیمانہ نہیں سمجھا جا سکتا۔ پاکستان کے صرف 33خاندان ہیں جو سٹاک مارکیٹ پر حکمرانی کرتے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ کی بہتری سے فائدہ صرف انہی 33خاندانوں کو ہوتا ہے نہ کہ عام عوام کو۔ اگر سٹاک ایکسچینج میں بہتری پر نظر دوڑائیں تو اس کی ممکنہ طور پر درج ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں؛ کمپنیوں کی کارکردگی‘ بروکرز کی نیت اور افواہیں۔ اس وقت ان تمام پہلوؤں میں بہتری نظر آرہی ہے۔ جب تک پاکستان کے ڈیفالٹ ہونے کی خبریں آ رہی تھیں تو کمپنیوں کے شیئرز کی ڈیفالٹ پرائسنگ ہو رہی تھی۔ آئی ایم ایف معاہدے کے بعد اب ڈیفالٹ پرائسنگ نہیں ہو رہی ہے جس کی وجہ سے شیئرز کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ 2017ء کے مقابلے میں اب کیپٹلائزیشن میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے‘ اس حساب سے شیئرز کی قیمت بہتر ہونی چاہیے لیکن روپے کی قدر گرنے سے بھی مطلوبہ اضافہ نہیں ہو سکا۔ موجودہ حالات میں شیئرز کی قیمت بڑھنا نارمل ہے لیکن مستقبل میں کیا ہو گا‘ اس بارے مکمل یقین سے کوئی دعویٰ کرنا ممکن نہیں ہے۔ عمومی طور پر نگران سیٹ اَپ میں معاشی استحکام برقرار نہیں رہتا۔ فی الحال آئی ایم ایف پروگرام کے بعد فارن انویسٹرز کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ پچھلے ایک ماہ میں فارن انویسٹرز نے تقریباً 22 ملین ڈالرز کے شیئرز خریدے ہیں اور ان میں سب سے زیادہ خریداری بینکنگ سیکٹر میں ہوئی ہے۔ مارکیٹ میں بہتری کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے۔ حکومت وقت پر جا رہی ہے‘ یہ ایک مثبت اشاریہ ہے۔ اگر انتخابات تین ماہ میں ہو جاتے ہیں تو مارکیٹ میں بہتری برقرار رہ سکتی ہے لیکن اگر انتخابات اگلے سال میں ہوتے ہیں تو سٹاک مارکیٹ میں غیریقینی کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔ چین‘ سعودی عرب‘ یو اے ای‘ قطر‘ امریکہ‘ ورلڈ بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستانی معیشت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس کی علاوہ کمپنیوں نے شیئر ہولڈرز کو اچھے منافع دیے ہیں۔ نگران حکومت کو اوور کانفیڈنس ہونے کی ضرورت نہیں۔ اگر نگران حکومت آئی ایم ایف پروگرام پر من و عن عمل کرتی ہے تو مارکیٹ بہتر ہو گی‘ مزید معاشی استحکام آ سکتا ہے اور مہنگائی میں وقتی طور پر کمی آ سکتی ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے بعد سٹاک مارکیٹ کا بہتر ہونا فطری تھا لیکن مارکیٹ اس قدر اوپر آئے گی‘ اس کی توقع نہیں تھی۔ ممکنہ طور پر یہ اضافہ مصنوعی ہے‘ جس تیزی سے مارکیٹ اوپر گئی ہے اس سے زیادہ تیزی سے نیچے گر سکتی ہے۔ گلف ممالک کی طرف سے آئل اور گیس میں سرمایہ کاری کی خبروں سے مارکیٹ اٹھ رہی ہے۔ اس طرح کی خبریں پہلے بھی آتی رہی ہیں لیکن یہ نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں۔ ماضی میں بھی دس ارب ڈالرز سے گوادر میں آئل ریفائنری لگانے کے وعدے ہوئے لیکن عمل درآمد نہیں ہو سکا۔ عوام کو سوچ سمجھ کر سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے۔ بروکرز حضرات پہلے مارکیٹ بڑھاتے ہیں پھر اپنا سستا مال مہنگا بیچ کر نکل جاتے ہیں اور عام سرمایہ کار نقصان اٹھاتا ہے۔
حکومت سٹاک مارکیٹ میں بہتری کے شادیانے بجا رہی ہے لیکن عوام مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ مہنگائی میں اضافے سے کمپنیوں کا منافع بڑھ جاتا ہے اور عوام کی قوتِ خرید کم ہو جاتی ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور بلیک مارکیٹ پر کنٹرول نہ ہونے کے سبب چینی کی خوردہ قیمت 165روپے فی کلو تک پہنچ چکی ہے۔ ایک دو روز میں چینی کی ہول سیل قیمت 8روپے فی کلو اضافے کے بعد 143روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے جبکہ جولائی کے پہلے ہفتے میں یہ قیمت 131سے 132روپے فی کلو تھی۔ چینی کے حجم اور قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے لِسٹڈ شوگر سیکٹر کی آمدنی مالی سال 2022-23ء کے آخری 9ماہ (اکتوبر 2022ء سے جون 2023ء) کے دوران سالانہ بنیادوں پر 23فیصد بڑھ کر‘ 14ارب روپے کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ فروری سے جون 2023ء تک دو لاکھ 16ہزار ٹن کی برآمدات کی وجہ سے مالی سال 2022-23ء کے آخری 9ماہ میں اس شعبے کی فروخت 25فیصد سالانہ سے بڑھ کر 235ارب روپے تک پہنچ گئی جس سے 10کروڑ 40لاکھ ڈالرز حاصل ہوئے۔ حکومت نے جنوری 2023ء سے جون 2023ء کے دوران دو لاکھ 50ہزار ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔ حکومت کے لیے یہ خوشی منانے کا وقت نہیں بلکہ عوام کی فکر کرنے اور اس بحران سے نکلنے کے لیے کنٹرول مضبوط کرنے کا وقت ہے۔ جولائی کے بجلی کے بِلوں نے عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل کر دیا ہے کہ وہ بجلی کا بل ادا کریں یا دو وقت کا کھانا پورا کریں۔ ابھی تو پٹرولیم لیوی بھی 55روپے ہے جو کہ آئی ایم ایف معاہدے کے مطابق 60روپے تک کرنی ہے۔ یعنی کہ آنے والے دنوں میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں مزید اضافہ ہو گا۔ رواں مالی سال2023-24ء کے پہلے مہینے (جولائی) کے دوران مہنگائی میں ماہانہ بنیادوں پر 3.46فیصد اور سالانہ بنیادوں پر 28.31فیصد اضافہ ہوا ہے۔ جولائی میں چاول‘ گندم‘ چینی‘ گوشت اور دالوں کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق شہری علاقوں میں مہنگائی کی شرح میں 3.57فیصد اور دیہی علاقوں میں 3.30فیصد کا اضافہ ہوا۔ ادارۂ شماریات کے مطابق ایک سال میں آٹے کی قیمت میں 102.43فیصد کا اضافہ ہوا۔ چائے 97.26‘ چاول 68.87 اور گندم 66.58 فیصد مہنگی ہوئی۔ ایک سال میں آلو 60.66 فیصد اور مرغی 58.13فیصد مہنگی ہوئی۔ گوشت‘ دالیں‘ تازہ دودھ‘ تازہ سبزیاں‘ کوکنگ آئل اور بیسن بھی مہنگی ہونے والی اشیاء میں شامل ہیں۔ عام آدمی کے مسائل مہنگائی اور بیروزگاری ہیں۔ سٹاک ایکسچینج تو امیروں کا دھندا ہے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ جاتے ہوئے مہنگائی کو کم کرنے کا بھی کوئی فارمولا دے کر جائیں اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو عوام کے سامنے اپنی ناکامی کااقرار کرکے جائیں۔ وزیراعظم صاحب صرف یہ فرما رہے ہیں کہ اگر ہمارے پاس اپنا تیل ہوتا تو عوام کو سستے داموں فراہم کرتے۔ شاید وہ بھول رہے ہیں کہ وہ اس ملک کے حاکم اعلیٰ ہیں اور ملک کو تیل‘ گیس‘ خوارک‘ تعلیم اور صحت کی سہولیات میں خود مختار کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ملک سے اپنا تیل نہ نکالنے کے لیے بھی حکمران ہی ذمہ دار ہیں۔ بلوچستان میں جو 61ارب ڈالرز کی معدنیات بتائی جا رہی ہیں‘ چالیس سال تک اس ملک پر حکومت کرنے والے قصور وار ہیں کہ انہوں نے ان سے فائدہ کیوں نہیں اٹھایا۔ شریف خاندان اَسی کی دہائی سے سیاست میں ہے اور وزیراعظم صاحب نے سب سے زیادہ وقت اقتدار میں رہے ہیں۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی کی ذمہ داری ان پر عائد ہوتی ہے کہ انہوں نے اس ملک کے عوام پر حکومت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔