بھارت میں منعقدہ حالیہ جی 20 سربراہی اجلاس میں ''انڈیا‘مڈل ایسٹ‘ یورپ اکنامک کوریڈور‘‘ کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت مشرقِ وسطیٰ کے ممالک کو ریل نیٹ ورک کے ذریعے جوڑا جائے گا جس کے بعد وہ سمندری راستے سے بھارت سے منسلک ہوں گے۔ مشرقِ وسطیٰ سے آگے اس نیٹ ورک کو یورپ تک توسیع دی جائے گی۔ بھارت، مشرقِ وسطیٰ اور یورپی ممالک کے درمیان یہ معاہدہ بنیادی طور پر ایک انفراسٹرکچر پروجیکٹ ہے۔ اس کے تحت بندرگاہوں سے لے کر ریل نیٹ ورک تک سب کچھ تعمیر کیا جانا ہے۔ بھارت اور یورپ میں ریل کا نیٹ ورک بہت وسیع ہے لیکن اگر ہم مشرقِ وسطیٰ پر نظر ڈالیں تو وہاں ریل نیٹ ورک اتنا بڑا نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ وہاں مال برداری بنیادی طور پر سڑک یا سمندری راستے سے ہوتی ہے۔ ریلوے نیٹ ورک بچھانے کی صورت میں مشرقِ وسطیٰ کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک سامان کی ترسیل آسان ہو جائے گی۔ اس کے ساتھ یہ منصوبہ عالمی تجارت کے لیے ایک نیا راستہ فراہم کر سکتا ہے۔ اس وقت بھارت یا مشرقی ممالک سے یورپ جانے والا سامان سویز نہر کے ذریعے بحیرۂ روم تک پہنچتا ہے۔ اس کے بعد یہ یورپی ممالک تک پہنچایا جاتا ہے۔ براعظم امریکہ میں واقع ممالک کو بھی سامان بحیرۂ روم سے بحر اوقیانوس کے راستے پہنچایا جاتا ہے۔ اس وقت ممبئی سے یورپ جانے والے کنٹینرز سویز نہر کے راستے یورپ پہنچتے ہیں‘ اس اکنامک کوریڈور کی تعمیر کے بعد یہ کنٹینرز دبئی سے اسرائیل کی حیفا بندرگاہ تک ٹرین کے ذریعے جا سکیں گے۔ اس میں کافی وقت اور پیسے کی بچت ہو گی۔اس وقت بین الاقوامی تجارت کا 10 فیصد سویز نہر پر منحصر ہے۔ یہاں پر ایک چھوٹا سا مسئلہ بھی بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک بڑا چیلنج بن جاتا ہے۔ 2021ء میں ایک بہت بڑا مال بردار جہاز سویز نہر کے کنارے پر پھنس گیا تھا۔ اس واقعے نے بین الاقوامی تجارت کے لیے ایک بحران پیدا کر دیا تھا جس کی وجہ سے سامان کی آمدورفت میں ایک ہفتے کی تاخیر ہوئی تھی۔ نئے اکنامک کوریڈور میں زیر سمندر ایک کیبل بھی بچھائی جائے گی جو ان علاقوں کو آپس میں جوڑے گی اور ٹیلی کمیونیکیشن اور ڈیٹا کی منتقلی کو تیز کرے گی۔ اس معاہدے کے تحت گرین ہائیڈروجن کی پیداوار اور نقل و حمل کے انتظامات بھی کیے جائیں گے۔ اس معاہدے کو اس لحاظ سے مثبت سمجھا جا سکتا ہے کہ اس سے دنیا کو ایک نیا تجارتی راستہ میسر آئے گا اور سویز نہر پر انحصار کم ہوگا۔ اگر اس راستے پر کبھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا تو بھی بین الاقوامی تجارت کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا کیونکہ متبادل راستہ دستیاب ہوگا۔ نیز اس راستے کی ترقی سے مشرقِ وسطیٰ سے تیل کی ترسیل بھی مزید آسان ہو جائے گی۔ مشرقِ وسطیٰ میں ریل نیٹ ورک کے قیام سے ان ممالک کے حالات میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ ایک طرف مقامی لوگوں کے لیے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہوں گے تو دوسری طرف مشرقِ وسطیٰ کے ممالک ایک دوسرے کے قریب ہوں گے کیونکہ ریل نیٹ ورک ان ممالک کو تجارتی اعتبار سے جوڑنے کا کام کرے گا۔ اس منصوبے میں اسرائیل کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اب سعودی عرب اور اسرائیل کے تعلقات میں خاصی بہتری آ چکی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ اسرائیلی وفد نے ریاض میں یونیسکو کی میٹنگ میں شرکت کی۔ یہ وفد اسرائیل سے دبئی اور وہاں سے ریاض پہنچا۔
مذکورہ اکنامک کویڈور کے اعلان کے بعد سے بھارت کی تجارت میں تیزی آنے کے دعوے کیے جارہے ہیں لیکن ابھی یہ سب کچھ اگر‘ مگر سے جڑا ہے۔ فی الحال یہ اندازہ لگانا مشکل ہے کہ اس کوریڈور سے بھارت کی بین الاقوامی تجارت میں کتنا اضافہ ہوگا کیونکہ کاروبار کی ترقی کا انحصار صرف فاصلے کم کرنے پر نہیں ہوتا‘ اس حوالے سے متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اس کوریڈور کا زیادہ فائدہ ممکنہ طور پر امریکہ کو ہو سکتا ہے کیونکہ وہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے خلاف ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن عالمی انفراسٹرکچر کے حوالے سے چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا توڑ چاہتے ہیں۔ اس منصوبے کے ذریعے چین نے اپنے اثرورسوخ، سرمایہ کاری اور تجارت کو یورپ سے افریقہ اور ایشیا سے لاطینی امریکہ تک پھیلا دیا ہے۔ فی الحال اس معاہدے کو چین کے پُرجوش بی آر آئی منصوبے کے ایک مضبوط جواب کے طور پر دیکھا جا رہا ہے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس منصوبے کوبی آر آئی کے مقابلے پر رکھنا مناسب نہیں ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ 2008ء میں شروع ہوا تھا اور کئی ممالک میں ابھی تک اس منصوبے پر کام جاری ہے جبکہ انڈیا‘ مڈل ایسٹ‘ یورپ کوریڈور منصوبے کا 2023ء میں اعلان ہو رہا ہے۔ ایسے میں اسے کس طرح بی آر آئی سے زیادہ مضبوط کہا جا سکتا ہے؟ فی الوقت یہ پروجیکٹ بی آر آئی کے مقابلے میں کچھ حیثیت نہیں رکھتا۔البتہ اگر طویل مدت میں دیکھا جائے تو یہ منصوبہ دنیا کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کا مقصد پوری دنیا میں کسی ایک ملک کا اثر و رسوخ پھیلانا نہیں ہے۔ جیسا کہ بی آر آئی کے بارے میں ایک تاثر ہے۔ اس کا مقصد شاید ایک ایسا فریم ورک تیار کرنا ہے جس پر مستقبل کی تجارت کو ڈھالا جا سکے
ترقی پذیر ممالک کو قرض دے کراپنے منصوبوں کا حصہ بنانے کے بجائے ہونا یہ چاہیے کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے وسائل سے ان ممالک میں مواصلات کا جال بچھائیں، کئی سالوں تک ٹول ٹیکس اور دیگر ٹیکسز کے ذریعے ان کی آمدن حاصل کریں اور جب قرض کی رقم مکمل ہو جائے تو ان کا انتظام ان ممالک کو واپس کر دیا جائے۔ اس طرح ان ملکوں پر قرض کا بوجھ بھی نہیں پڑے گا اور ان کی معیشت بھی نہیں جکڑی جائے گی جبکہ ترقی یافتہ ممالک کی تجارت اور حمایت بھی بڑھتی جائے گی۔ آنے والے دنوں میں انڈیا‘مشرقِ وسطیٰ ‘ یورپ اکنامک کوریڈور کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین سے نہیں کہا جا سکتا لیکن عالمی تیور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ دنیا میں تجارتی دوڑ میں شاید اثرورسوخ اب تبدیل ہونے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب پاکستان میں بھی معاشی زاویے تبدیل ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ میں نے ہمیشہ لکھا ہے کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ تمام معاشی مسائل کی بنیاد ہے۔ اسے فی الحال کنٹرول کیا جا رہا ہے جو خوش آئند ہے۔ آئی ایم ایف بھی کئی مرتبہ مطالبہ کر چکا ہے کہ ڈالر کی سمگلنگ کو روکا جائے لہٰذا موجودہ اقدامات آئی ایم ایف کی ڈیمانڈ کے عین مطابق ہیں لیکن ڈالر ریٹ کو مارکیٹ پر چھوڑنا معیشت کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اگر اسے کنٹرول نہ کیا گیا تو چند ماہ میں اس کی قیمت میں خاصا اضافہ ہو سکتا ہے جو ہماری معیشت کے لیے خود سوزی کے مترادف ہو گا۔ ڈالر ریٹ میں کمی کے ساتھ چینی اور آٹے کی قیمتوں میں بھی کمی آئی ہے اور عوام کا اعتماد بحال ہونے لگا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ معاملہ اب رکنے والا نہیں اور آنے والے دنوں میں مزید خوشخبریاں سامنے آ سکتی ہیں۔ خبر ہے کہ آرمی چیف کی کاروباری حضرات کے ساتھ میٹنگ میں ڈالر کو 265 روپے تک لانے کے پلان پر بات ہوئی۔ عملی طور پر یہ بالکل ممکن ہے۔ بلومبرگ نے مئی 2023ء میں لکھا تھا کہ پاکستان میں ڈالر کی حقیقی قدر 240 روپے کے لگ بھگ ہے۔ البتہ اس ریٹ کو کم کرنے کے بعد مستحکم اور قائم رکھنا ایک بڑا ہدف ہو گا جو برآمدات میں اضافے کے بغیر ممکن نہیں۔ پاکستان کو سالانہ تقریباً پچیس ارب ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے جسے قرض لے کر پورا کیا جاتا ہے۔ اب قرض کے سود کی ادائیگی ملکی ٹیکس آمدن سے بھی زیادہ ہو گئی ہے لہٰذا ملک کو مزید قرضوں کے بوجھ تلے نہیں دبایا جا سکتا۔ سردست جو کچھ کیا جا رہا ہے یہ ہنگامی اقدامات ہیں‘ مستقل پالیسی نہیں۔ وقتی اقدامات کے نتائج وقتی ہوتے ہیں‘دیر پا معاشی مضبوطی کے لیے مستقل پالیسی بنانا، اسے لاگو کرنا اور پھر اس میں مستقل مزاجی قائم رکھنا ضروری ہے۔