اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ نے بھارت سے براستہ مشرقِ وسطیٰ‘ یورپ تک ایک نئی تجارتی راہداری کیلئے موجود چیلنجوں کو نمایاں کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت میں منعقدہ جی 20 کے سربراہی اجلاس میں انڈیا‘ مڈل ایسٹ‘ یورپ اکنامک (IMEC)کوریڈور کو جدید دور کے سپائس روٹ اور چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے متبادل کے طور پر پیش کیا گیا تھا جس کی امریکہ‘ یورپی یونین اور سعودی عرب نے حمایت کی تھی۔ بھارت کے وزیراعظم مودی نے اس کوریڈور کا موازنہ شاہراہِ ریشم سے کرتے ہوئے جی 20 کے سربراہی اجلاس کے شرکا کو بتایا تھا کہ یہ کس طرح ملکوں کو قریب لائے گا اور کیسے معاشی فوائد کو جنم دے گا۔ اس راہداری کا مقصد متحدہ عرب امارات‘ سعودی عرب اور اُردن کو بحیرۂ روم میں اسرائیلی بندرگاہ حائفہ سے جوڑنے والا ریل اور شپنگ نیٹ ورک قائم کرنا ہے۔ اس کے بعد نہر سویز کو نظرانداز کرتے ہوئے تجارتی سامان اس روٹ سے یورپ بھیجا جا سکے گا۔ لیکن جب سے اسرائیل نے غزہ پر ملٹری کارروائیوں کا آغاز کیا ہے‘ یہ خطہ عدم استحکام کی لپیٹ میں ہے۔ یہ جنگ اس بات کی یاد دہانی ہے کہ یہ نیا کوریڈور بنانا آسان نہیں ہو گا۔ یہ صرف مالیاتی چیلنجوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ استحکام اور سفارتی تعاون کا بھی ہے۔ جنگ نے یہ واضح کیا ہے کہ حالات اب بھی دشوار گزار ہیں۔ جب اس منصوبے کا اعلان کیا گیا‘ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے واشنگٹن کا دباؤ بڑھ رہا تھا اور امید ظاہر کی جا رہی تھی کہ یہ اقدام مشرقِ وسطیٰ کی دیرینہ دشمنیوں کو تبدیل کر سکتا ہے۔ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان قابلِ اعتماد رابطہ اس منصوبے کا ایک اہم عنصر ہے۔ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ‘ امریکہ کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کی پیروی کر سکتا ہے جس کے تحت اسرائیل نے 2020ء میں تین عرب ممالک کیساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے۔ اس منصوبے پر اس خیال کے تحت کام کیا گیا کہ خطے میں امن اور استحکام آئے گا لیکن موجودہ حالات میں یہ کہنا مناسب ہو گا کہ اگر آنے والے دنوں میں کوئی وسیع تر تنازع شروع نہیں ہوتا تو بھی مستقبل اب غیر یقینی ہو سکتا ہے۔ اس منصوبے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہ خطہ جس سیاسی عدم استحکام میں ڈوبا ہوا ہے‘ سوال یہ ہے کہ یہاں کون سرمایہ کاری کرے گا؟ مغربی حمایت یافتہ راہداری کا تصور محض تجارتی راستے کے طور پر نہیں کیا گیا تھا‘ ممکنہ طور پر اس کے جیو پولیٹکل مقاصد تھے۔ اسے چین کے مقابلے کے طور پر دیکھا گیا جس کا مشرقِ وسطیٰ میں اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ اس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے اعتماد اور سیاسی سرمایہ پیدا کرنا تھا۔ اس منصوبے کو فی الوقت پس پشت ڈال دیا گیا ہے حالانکہ اسے آگے جاکر دوبارہ تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ لیکن ریاض کیلئے ایک ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل غزہ میں بربریت دِکھا رہا ہے‘ ایسا کرنے کی سیاسی قیمت بہت زیادہ ہو سکتی ہے۔ اسرائیل حماس جنگ کا نقصان نہ صرف بھارت‘ مشرقِ وسطی‘ یورپ اقتصادی راہداری منصوبے کو ہو سکتا ہے بلکہ عالمی معیشت بھی اس سے بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ سے عالمی معاشی ترقی کو دھچکا لگ سکتا ہے۔ اس وقت اسرائیل اور غزہ میں جو کچھ ہوا ہے‘ جب آخر میں ان سب چیزوں کا جائزہ لیا جائے گا تو میرا خیال ہے کہ اکثریت کو محسوس ہو گا کہ معاشی ترقی پر اس جنگ کے انتہائی سنگین اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت دنیا ایک انتہائی خطرناک موڑ پر کھڑی ہے۔ غزہ میں حالیہ غیرمعمولی حالات سعودی عرب کے ایک زیادہ مستحکم اور خوشحال مشرقِ وسطیٰ کے وژن کے برعکس ہیں۔ خوشحالی کے اپنے اس وژن کو آگے بڑھانے کیلئے سعودی عرب نے اس سال ایران کے ساتھ اپنے سفارتی تعلقات دوبارہ استوار کیے ہیں اور اسرائیل اور حماس کی جنگ شروع ہونے سے پہلے وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے بات چیت کررہا تھا۔ لیکن اب یہ معاملہ تعطل میں پڑ گیا ہے۔ سعودی عرب نے حالیہ ہفتوں میں غزہ میں شہریوں کے خلاف کارروائیوں کی مذمت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے موقف کی حمایت کی ہے۔ یہ جنگ ایک ایسے وقت پر ہو رہی ہے جب سعودی عرب کے حکمران ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اپنے 2030ء کے اصلاحات کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہے ہیں جس کا مقصد دنیا میں سب سے زیادہ خام تیل پیدا کرنے والے اپنے ملک کو معدنی ایندھن سے شفاف توانائی کی جانب منتقل کرنا ہے۔ ولی عہد وسیع تر علاقائی انتشار کے باوجود اپنے منصوبوں کو آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ حماس اسرائیل جنگ کے اثرات پاکستان پر بھی پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ 18ماہ سے سیاسی اور معاشی بے یقینی ہے جبکہ عام انتخابات کا انعقاد اگلے برس ہونے کی توقع ہے‘ اسی طرح اداروں کی فروخت سے بڑی غیرملکی سرمایہ کاری کے امکانات بھی محدود ہیں۔ ملک نے مشرقِ وسطیٰ کے سرمایہ کاروں کو کچھ منافع بخش مہنگے یونٹس فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا ہے لیکن غزہ میں اسرائیل کی جارحیت کے درمیان اس خطے میں پیدا ہونے والے بحران نے ان منصوبوں میں تاخیر کی ہے۔
ایک طرف ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیں آ رہی اور دوسری طرف ڈالر ریٹ کے حوالے سے مختلف دعوے سامنے آ رہے ہیں۔ ستمبر میں غیرملکی کرنسی کی ذخیرہ اندوزی اور سمگلنگ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں روپے کی قدر میں بہتری عارضی ثابت ہو سکتی ہے جس کی وجہ ملک کے مالیاتی خطرات ہیں۔ ممکنہ طور پر روپے کی قدر میں حالیہ اضافہ قلیل مدتی ہو سکتا ہے جس کی وجہ بلند شرحِ سود‘دو طرفہ فنانسنگ اور آئی ایم ایف کے ساتھ قلیل مدتی انتظام ہے۔ یہ تنبیہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مسلسل چوتھے روز کم ہوتی ہوئی گزشتہ روز 0.07فیصد تنزلی کے بعد 280 روپے 9 پیسے تک پہنچ گئی۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر 20اکتوبر کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوارن 22کروڑ ڈالر گر کر 7ارب 49کروڑ ڈالر رہ گئے۔ جولائی کے وسط سے ہفتہ وار بنیادوں پر یہ کمزور ترین صورتحال ہے جس وقت آئی ایم ایف اور دوست ممالک کی جانب سے فنانسنگ کے بعد مرکزی بینک کے ذخائر 8ارب 73کروڑ ڈالر تھے۔ ستمبر اور اکتوبر کے دوران زیادہ تر روپے کی قدر میں اضافہ دیکھا گیا اور اسے دنیا کی بہترین کرنسیوں میں سے ایک قرار دیا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ روپے کی قدر میں اضافے کی بنیادیں کمزور ہیں اور اس رجحان میں تبدیلی ہوسکتی ہے۔ پانچ ستمبر کو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی تاریخ کی کم ترین سطح 307روپے 10پیسے پر آ گئی تھی۔ بلیک مارکیٹ کے خلاف ملک کے مالیاتی ریگولیٹر اور سکیورٹی اداروں کے کریک ڈاؤن کے نتیجے میں روپے کی قدر میں تیز رفتار بہتری دیکھی گئی۔ 6ستمبر سے 16اکتوبر کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں روزانہ اضافہ دیکھا گیا۔ مجموعی طور پر ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر 10.9فیصد بڑھ کر 277روپے 3پیسے تک پہنچ گئی۔ مرکزی بینک بینکنگ مارکیٹ سے ڈالر خریدتا رہا لیکن قرض اور سود کی ادائیگی کے سبب انخلا زیادہ رہا۔ اس وقت ڈالر کی انٹربینک میں قیمت بڑھ رہی ہے لیکن اوپن مارکیٹ کا ریٹ اب بھی انٹربینک سے کم ہے جو کہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ آئی ایم ایف کے مطابق یہ فرق 1.25فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ موجودہ حالات میں یہ فرق تقریباً منفی 0.75 فیصد ہے۔ اس حوالے سے بھی آئی ایم ایف کو پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت پر عالمی حالات تبدیل ہونے سے زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ ڈالر ریٹ کے تعین کا معاملہ زیادہ تر ملک میں طلب اور رسد کے ساتھ جڑا ہے۔ عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں حالات کشیدہ ہونے سے امریکی اسلحہ کی فروخت میں اضافہ ہو رہا ہے جس کا اثر ڈالر پر بھی پڑا ہے۔ عمومی طور پر جب دنیا میں حالات خراب ہوتے ہیں تو پاکستان میں حالات بہتر ہونے لگتے ہیں۔ اس حساب کتاب پر پھر کسی اور دن تفصیل سے لکھوں گا۔