سٹاک ایکسچینج اور چین میں سرمایہ کاری کے معاشی اثرات

کچھ عرصہ قبل ہر طرف یہ شور تھا کہ پاکستان ڈیفالٹ کر سکتا ہے لیکن آج حالات مختلف ہیں۔ آئی ایم ایف سے سٹاف لیول معاہدہ ہو گیا ہے۔ ڈالر کی قدر ایک مرتبہ پھر کم ہونا شروع ہو گئی ہے اور سٹاک ایکسچینج تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ یہاں سوال لیکن یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے عام آدمی کی زندگی پر کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اگر سٹاک ایکسچینج کی بات کی جائے تو کے ایس ای 100انڈیکس میں ایک ماہ میں 10ہزار پوائنٹس کا اضافہ ہو چکا ہے۔ جمعرات کو سٹاک مارکیٹ نے 57ہزار پوائنٹس کی سطح کو عبور کیا جو ستمبرمیں 45ہزار اور اکتوبر کے شروع میں 46ہزار پوائنٹس پر کھڑی تھی۔ پاکستان سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ اضافے کی متعدد ٹھوس وجوہات موجود ہیں۔ مرکزی بینک کی جانب سے شرحِ سود میں مزید اضافہ نہ کرنے کے امکانات روشن ہونے اور کارپوریٹ سیکٹرز کے منافع میں مسلسل اضافے جیسے اشاروں کے باعث مارکیٹ کی کارکردگی اچھی نظر آرہی ہے۔ بینکوں‘کھا د کی صنعت‘ تیل اور گیس کے ذخائر تلاش کرنے والی کمپنیوں اور دیگر شعبوں میں بڑی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ پاکستان انویسٹمنٹ بانڈ کے حال ہی میں ہونے والے آکشن میں شرحِ منافع میں بڑی کمی آنے سے یہ امید پیدا ہوئی ہے کہ اگلے مرحلے میں شرحِ سود میں بھی کمی ہو سکتی ہے۔ مجھے اس دعوے پر شبہ ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ توڑ تیزی کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کی معیشت بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ سٹاک مارکیٹ معیشت کیلئے صرف ایک بیرومیٹر ہوتی ہے۔ آج کسی عام پاکستانی کو معاشی ترقی یا معاشی بہتری کے آثار نظر آ رہے ہوں یا نہیں لیکن معیشت کو قریب سے دیکھنے والے جانتے ہیں کہ اس میں تھوڑا سا استحکام ضرور آیا ہے اور یہ مستقبل میں اچھے حالات کی امید ظاہر کرتا ہے۔ پاکستان کیلئے ڈیفالٹ کے خطرات پہلے سے کم ہوئے ہیں اور اس کے اثرات سٹاک مارکیٹ کی کارکردگی پر بھی مرتب ہوئے ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں کسی بھی کمپنی کے شیئرز درحقیقت بتاتے ہیں کہ وہ کمپنی یا فنڈ مستقبل میں کس قدر سرمایہ یا منافع کمائے گا۔ جب بھی شرحِ سود کم ہو یا اس کے کم ہونے کے امکانات بھی ہوں تو شیئرز کی ویلیو بڑھنے لگتی ہیں۔ انہی وجوہات کی بنا پر سٹاک مارکیٹ بہتر پرفارم کرتی دکھائی دیتی ہے لیکن اگر حالات بدلیں تو یہ امیدیں کسی وقت بھی دم توڑ سکتی ہیں۔ مالی سال 2015-16ء میں پاکستان سٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاری آٹھ ارب ڈالر کے قریب تھی جبکہ اب یہ ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ اگر ملک میں کاروباری‘ قانونی اور دیگر شعبوں میں بامعنی اصلاحات لائی جائیں‘ جس سے کاروبار کرنا آسان ہو تو غیرملکی سرمایہ کاری میں بہتری کے اثرات ملکی معیشت پر بھی نظر آ سکتے ہیں۔ جب سٹاک مارکیٹ میں تیزی آتی ہے اور یہاں سرمایہ کاروں کو منافع ملتا ہے تو وہ لوگ‘ جنہوں نے سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہوتی ہے‘ ان کے پاس بھی زیادہ پیسہ آتا ہے اور پھر وہی پیسہ مستقبل میں معیشت کے دوسرے شعبوں میں انویسٹ ہونے کی صورت میں جامد معیشت کو آگے بڑھنے کا موقع ملتا ہے۔ 2015-16ء میں پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں بیرونی سرمایہ کاروں کا شیئر 30فیصد کے لگ بھگ تھا جو اب 10فیصد سے کم ہے۔ اگر معاشی اشاریوں میں کسی حد تک استحکام آئے تو بیرونی سرمایہ کار بھی واپس آ سکتا ہے۔
اس کے علاوہ ملک کا عام آدمی اب بھی سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری نہیں کرتا۔ مجموعی طور پر ملک میں سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے والوں کی تعداد محض دو لاکھ کے قریب ہے۔ اگر عام آدمی بھی بڑی تعداد میں سرمایہ کاری کرے تو اس سے مارکیٹ لکویڈیٹی بڑھ سکتی ہے جس سے مارکیٹ کا حجم بڑھے گا جو کہ معاشی سرگرمیوں کو بڑھانے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ آنے والے مہینوں میں افراطِ زر یعنی مہنگائی کم ہونے کی بھی امید ہے اور اس دوران سٹیٹ بینک کے پاس موقع ہو گا کہ وہ شرحِ سود مزید کم کردے جس سے کسی حد تک ملک میں کاروبار کرنے میں سہولت پیدا ہو سکتی ہے‘ تاہم مشرقِ وسطیٰ میں جاری حماس اسرائیل جنگ کی وجہ سے تیل اور اجناس کی قیمتوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔ گوکہ تاحال ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ایک ماہ میں کے ایس ای 100 انڈیکس میں 10ہزار پوائنٹس کے اضافے سے ایسا لگتا ہے کہ مارکیٹ اوور ہیٹ ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں مارکیٹ میں ٹیکنیکل کریکشن مزید بڑھ سکتی ہے۔ دوسری جانب مگر یہ امید بھی موجود ہے کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی کی اب بھی کافی گنجائش موجود ہے کیونکہ مارکیٹ میں لگایا گیا سرمایہ پچھلے برسوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ سٹاک مارکیٹ میں بہتری اپنی جگہ مگر دوسری جانب ملک کے معاشی سٹرکچر میں موجود مسائل کو حل کرنے تک کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔
اب چین کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں۔ چین کی سست ہوتی معیشت‘ کم شرحِ سود اور امریکہ کے ساتھ جغرافیائی و سیاسی کشمکش نے چین کی اقتصادی صلاحیت کے بارے میں شکوک کو جنم دیا ہے۔ غیرملکی کمپنیاں چین میں جتنا پیسہ لگا رہی ہیں‘ اس سے کہیں زیادہ پیسہ وہ چین سے واپس باہر نکال رہی ہیں۔ چین کو درپیش جیو پولیٹکل خطرات‘ داخلی پالیسی کے حوالے سے غیریقینی صورتحال اور بڑے کاروباروں کی سست شرحِ نمو جیسے عوامل بین الاقوامی کمپنیوں کو متبادل منڈیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ گزشتہ سہ ماہی کے دوران چین میں غیرملکی سرمایہ کاری میں 11.8ارب ڈالر کا خسارہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ 1998ء کے بعد سے چین میں غیرملکی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا خسارہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ غیرملکی کمپنیاں چین سے کمائے گئے منافع کو دوبارہ چین میں سرمایہ کاری کیلئے استعمال نہیں کر رہیں بلکہ اس رقم کو چین سے باہر منتقل کیا جا رہا ہے۔ چین کو اس وقت سست رفتار ترقی جیسے مسئلے کا سامنا ہے جس سے نمٹنے کیلئے چین کو کچھ اصلاحات کرنے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ اورلیکون نے گزشتہ سال چین سے 277 ملین ڈالر کا سرمایہ نکال لیا تھا۔ 2022ء میں اورلیکون ان پہلی کمپنیوں میں سے ایک تھی جس نے واضح انداز میں یہ پیش گوئی کی تھی کہ ہمیں توقع ہے کہ چین میں معاشی سست روی ہمارے کاروبار کو متاثر کرے گی۔ نتیجتاً اس نے ان ممکنہ منفی اثرات کو کم کرنے کیلئے اقدامات کا فیصلہ کیا اور چین سے سرمایہ نکالنے کی ابتدا کی۔ بڑی کمپنیاں چین میں کم شرحِ سود کے اثرات پر بھی غور کر رہی ہیں۔ بہت سے ممالک نے گزشتہ سال سود کی شرح میں تیزی سے اضافہ کیا تھا تاہم چین کم شرحِ سود کے رجحان کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی فیڈرل ریزرو اور یورپ کے بڑے مرکزی بینک افراطِ زر جیسے مسئلے سے نمٹنے کیلئے شرحِ سود میں اضافہ کر رہے ہیں۔ قرض لینے کی زیادہ قیمت‘ جو زیادہ منافع کا وعدہ کرتی ہے اور غیر ملکی سرمائے کو بھی اپنی طرف راغب کرتی ہے۔ دریں اثنا چین میں پالیسی سازوں نے اپنی معیشت اور مشکلات کا شکار پراپرٹی کی صنعت کو سہارا دینے کیلئے قرض لینے کی لاگت میں کمی کر دی ہے۔ انہی مسائل کے باعث رواں سال ڈالر اور یورو کے مقابلے یوآن کی قدر میں پانچ فیصد سے زیادہ کمی ہوئی ہے۔ کچھ ممالک چین میں معاشی سست روی کو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونے سے جوڑ رہے ہیں جو کافی حد تک درست بھی ہے لیکن یہ کمی عارضی ہے۔ جب چین سے سرمایہ باہر منتقل ہو گا تو تیل کی طلب چین سے دوسرے ممالک میں منتقل ہو سکتی ہے۔ چین میں سرمایہ کاری میں کمی جہاں چین کیلئے اچھی خبر نہیں ہے وہاں پاکستان کیلئے بھی فکر بڑھ جاتی ہے۔ مضبوط چین پاکستان کیلئے ایک معاشی سہارا ہے۔ پاکستان نے سب سے زیادہ قرض بھی چین کو ادا کرنا ہے جسے وہ رول اوور کرتا آیا ہے۔ اگر چینی معیشت سست روی کا شکار رہی تو چین پر دوست ممالک سے قرض واپس لینے اور مزید قرض نہ دینے کیلئے دباؤ بڑھ سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں