2023ء معاشی اعتبار سے کیسا رہا؟

گزشتہ کالم میں 2023ء کے مختلف معاشی پہلوؤں پر بات کی گئی تھی‘ لیکن ایک کالم میں پورے سال کا معاشی جائزہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔ آج مزید پہلوؤں پر بات کرتے ہیں۔ جنوری 2023ء سے لے کر آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے تک ملک میں پی ڈی ایم حکومت تھی۔ اس دوران ملک کو سخت ترین معاشی بحران کا سامنا رہا جسے دور کرنے کیلئے جو بھی اقدامات کیے گئے اس سے عوام پر اضافی بوجھ پڑا۔ آئی ایم ایف نے مگر سیاسی عدم استحکام اور عوام پر پڑنے والے اضافی بوجھ کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پاکستان کو معیشت کی بحالی کے سخت ترین معاشی پروگرام پر عملدرآمد کیلئے مجبور کیا۔ حکومت معیشت کے میکرو اکنامک اشاریوں کو درست کرنے کی جدوجہد کرتی رہی۔ ڈالرز کی قلت کی وجہ سے بیرونی ادائیگیوں کا توازن منفی ہونے‘ روپے کی قدر غیرمستحکم ہونے اور بنیادی شرحِ سود کو بلند ترین سطح پر لے جانے کی وجہ سے معیشت میں عدم استحکام رہا اور حکومت کڑی تنقید کی زد میں رہی۔ افراطِ زر میں اضافے سے ملکی معیشت کے تمام شعبے متاثر ہوئے اور معاشی ترقی کی شرح یعنی مقامی پیداوار (جی ڈی پی) منفی زون میں چلی گئی۔ پھر پی ڈی ایم حکومت ختم ہونے سے چند روز قبل آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی پروگرام طے پاگیا۔ حکومت جاتے جاتے آئی ایم ایف سے 1.2ارب ڈالرز کے قرض کی قسط لینے میں کامیاب ہوئی جس کے بعد دوست ملکوں اور دیگر عالمی اداروں نے پاکستان کو قرض کا اجرا کیا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے پروگرام کی منظوری کے بعد ملکی معیشت میں بہتری آئی ہے۔ اس دوران بعض قوتیں مسلسل پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا اعلان کرتی رہیں تاکہ عالمی برادری پاکستان کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر عبوری پروگرام حاصل کیا گیا۔ 2023ء میں معاشی مشکلات کے باوجود بہت سے اہم معاشی معاملات طے پائے ‘ آئیے ان معاشی معاملات کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔
پی ڈی ایم حکومت میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (SIFC)کا قیام عمل میں لایا گیا جس کے ذریعے ملکی دفاع کیساتھ ساتھ معاشی ترقی میں بھی پاکستان کی مسلح افواج کے کردار کو تسلیم کیا گیا ہے۔ SIFCکے قیام کا مقصد مقامی اور غیرملکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ اس خصوصی کونسل کو دفاعی صنعت‘ زراعت‘ معدنیات‘ انفارمیشن ٹیکنالوجی‘ ٹیلی کمیونیکیشن اور توانائی کے شعبوں میں نئے منصوبے شروع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ یہ کونسل ملکی اور غیرملکی سرمایہ کاروں کیلئے سنگل ونڈو آپریشن کے طور پر کام کر رہی ہے جس کی ذمہ داری سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا اور سرخ فیتے کے خاتمے کیساتھ ساتھ بروقت فیصلہ سازی کو یقینی بنانا ہے۔ SIFCکے قیام کی بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پاکستان سے اپنی فوڈ سکیورٹی کیلئے شراکت داری چاہتے تھے مگر افسر شاہی کے عدم تعاون کی وجہ سے کوئی بھی منصوبہ روبہ عمل نہ لایا جا سکا۔ اس حوالے سے کام کو آگے بڑھانے کیلئے SIFCقائم کی گئی۔ کونسل کے اقدامات کی وجہ سے اب تک متحدہ عرب امارات اور کویت کے ساتھ باہمی تجارت اور سرمایہ کاری کی متعدد مفاہمت کی یاداشتوں پر دستخط ہو چکے ہیں۔ کونسل نے غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کیلئے دبئی میں پاکستان میں سرمایہ کاری مواقع پر روڈ شو بھی منعقد کیا تھا۔ SIFC کو روز مرہ کے منصوبوں پر توجہ دینے کے بجائے سرمایہ کاری میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا‘ بیوروکریسی میں سرمایہ کاری دوست ماحول کو فروغ دینا اور پالیسی سازی میں اہم فیصلے بروقت کرنے پر توجہ مرکوز رکھنا ہو گی۔
ملک کے حالیہ بحران کی بڑی اور اہم وجہ بیرونی ادائیگیوں کیلئے ڈالر یا زرِمبادلہ کی قلت ہے۔ اس قلت کو دور کرنے کیلئے پی ڈی ایم حکومت نے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر آئی ایم ایف نے کڑی شرائط عائد کردیں تو دوسری طرف دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں نے بھی قرض کے اجرا کیلئے آئی ایم ایف سے معاہدے کی شرط رکھ دی۔ آئی ایم ایف کا سٹینڈ بائی پروگرام تین اقساط پر مشتمل ہے جس میں 1.2ارب ڈالرز کی پہلی قسط کا اجرا پی ڈی ایم حکومت کے دور میں کیا گیا جبکہ 70کروڑ ڈالرز کی دوسری قسط نگران حکومت کو رواں مہینے ملنے کی توقع کی جارہی تھی مگر آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس جنوری میں ہوگا‘ جس کے بعد ہی قسط کا اجرا کیا جائے گا۔ تیسری قسط عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی نئی حکومت کو ملے گی مگر ملکی معیشت اس بات کی نشاندہی کررہی ہے کہ ملک کو ایک طویل مدتی اور زیادہ گہرے اصلاحات کے منصوبے کیساتھ آئی ایم ایف سے قرض کا پروگرام بھی لینا ہوگا۔ 2023ء کے آغاز پر سٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر تین ارب 11 کروڑ ڈالرز تھے۔ تھوڑے بہت اتار چڑھاؤ کے بعد جون میں سٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر چار ارب 44کروڑ ڈالرز کی سطح پر آگئے۔ آئی ایم ایف پروگرام کے بعد قرض ملنے کا سلسلہ شروع ہوا جس سے سٹیٹ بینک کے زرِمبادلہ کے ذخائر جولائی میں بڑھ کر 8ارب 13کروڑ ڈالرز تک پہنچ گئے۔ اس وقت 12ارب 85کروڑ ڈالر سے زیادہ سٹیٹ بینک کے پاس موجود ہیں۔ مستقبل قریب میں زرِمبادلہ کے مسائل کو حل کرنے کیلئے عالمی بینک‘ ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک سے 6.3ارب ڈالرز جبکہ دوست ممالک سے 10ارب ڈالرز کا قرض منظور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ زرِمبادلہ کی کمی کی وجہ سے 2023ء کا آغاز روپے کی قدر میں تیز رفتار گراوٹ سے ہوا۔ جنوری کے آغاز پر انٹر بینک میں ایک ڈالر 226 روپے 43پیسے کا تھا۔ تقریباً پورا سال ہی روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ دیکھا گیا۔ ستمبر میں ڈالر 300روپے کی حد عبور کرتے ہوئے 307.10روپے کا ہوگیا۔ اوپن مارکیٹ میں ایک ڈالر 320روپے کے برابر تھا مگر اس قیمت پر بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر دستیاب نہیں تھا۔ اوپن اور انٹر بینک مارکیٹ میں بہت بڑے فرق کی وجہ سے سٹے بازوں اور سمگلرز نے بلیک مارکیٹ میں ڈالر کی بڑے پیمانے پر خریداری شروع کردی۔ اس صورتحال کے پیشِ نظر سٹے بازوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور روپے کی قدر میں بتدریج بہتری آنے لگی اور 2023ء کے اختتام پر ایک ڈالر تقریباً 283روپے کا ہے۔ زرِمبادلہ مارکیٹ میں سٹے بازی کو ختم کرنے اور قانونی لین دین کو فروغ دینے کیلئے سٹیٹ بینک نے دو اہم اقدامات کیے۔ پہلا قدم 10بینکوں کو ایکسچینج کمپنیاں قائم کرنے کی اجازت ہے۔ اس فیصلے سے بینکوں کے ذریعے ڈالر اور دیگر زرِمبادلہ کا لین دین بھی ممکن ہو سکے گا اور اگر تمام بینک اپنی برانچوں میں زرِمبادلہ کے کاؤنٹر قائم کر لیں تو ان بینکوں کی قریب 15ہزار برانچوں پر یہ سہولت دستیاب ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ سٹیٹ بینک نے ایکسچینج کمپنیوں کے لائسنس کو تبدیل کرتے ہوئے اے‘ بی اور فرنچائز کیٹیگری کو ختم کرتے ہوئے ایک لائسنس کے اجرا کی پالیسی اپنائی ہے۔ اس کے علاوہ ایکسچینج کمپنیوں میں سرمائے کی قلت کو دور کرنے کیلئے ادا شدہ سرمائے کو 50کروڑ روپے سے بڑھا کر ایک ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
2023ء مہنگائی کے لحاظ سے بدترین سال ثابت ہوا۔ اس کے آغاز سے ہی ایندھن اور غذائی اجناس کے مہنگا ہونے کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ملک میں جنوری میں مجموعی مہنگائی کی شرح 27.6فیصد تھی جوکہ جنوری 2022ء سے 13 فیصد زائد تھی۔ شہری علاقوں میں عام استعمال کی اشیا کی قیمتیں 24.4فیصد کی شرح سے بڑھیں جبکہ دیہی علاقوں میں اشیا کی قیمتوں میں 32.3فیصد کی شرح سے اضافہ دیکھا گیا۔ نومبر میں افراطِ زر دوبارہ کم ہوکر 29.2فیصد کی سطح پر آگیا ہے۔ شہری علاقوں میں قیمتوں کے اضافے کی شرح 30.4 فیصد جبکہ دیہی علاقوں میں 27.5 فیصد رہی۔ مہنگائی کی وجہ سے سٹیٹ بینک کو بنیادی شرحِ سود میں اضافہ کرنا پڑا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں