پاک ایران تجارت‘ آئی ایم ایف اور کارپوریٹ فارمنگ

پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات کافی حد تک معمول پر آگئے ہیں۔ چین اور ترکیہ نے اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا ہے کیونکہ خطے میں کشیدگی کسی کے حق میں نہیں۔ ایران اور پاکستان پرانے دوست ہمسایہ ممالک ہیں اور معاشی اعتبار سے ایک دوسرے سے جڑے ہیں۔ پاکستان اور ایران کے درمیان تجارت کا حجم تقریباً دو ارب ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔ پاکستان ایران سے تقریباً 150سے زیادہ اشیا درآمد کرتا ہے جبکہ ایران کو تقریباً 10 اشیا برآمد کرتا ہے۔ پاکستان اور ایران کے درمیان بارٹر تجارت کا اجلاس ایک سال پاکستان میں ہوتا ہے اور ایک سال ایران میں۔ پچھلے سال یہ اجلاس پاکستان میں ہوا تھا اور اس مرتبہ ایران میں ہو رہا تھا۔ پاکستان سے تقریباً 45 افراد کا وفد ایران میں موجود تھا کہ اسی دوران ایران نے پاکستان پر حملہ کر دیا۔ وزراتِ خارجہ کی ہدایت پر یہ وفد میٹنگ ادھوری چھوڑ کر فوری واپس آ گیا۔ اس میٹنگ میں بہت سے تجارتی معاملات طے پانے تھے جو اب التوا کا شکار ہو گئے ہیں۔ چند ماہ قبل سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پاک ایران تجارت کو پانچ ارب ڈالرز سالانہ تک بڑھانے کیلئے ایک معاہدہ کیا تھا‘ یہ اجلاس اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔ ایران اور پاکستان کے درمیاں تقریباً نو سو کلومیٹر طویل بارڈر ہے جس کے دونوں طرف بلوچ قبائل آباد ہیں۔ پنجگور کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ ہے‘ یہاں کے عوام کا ذریعۂ معاش کافی حد تک ایران کی تجارت سے جڑا ہے۔ کشیدگی بڑھنے اور بارڈر بند ہونے کی صورت میں بے روزگاری بڑھتی اور امن و امان کی صورتحال بھی خراب ہو سکتی تھی۔ صرف پاکستانی تاجروں کے ہی معاشی معاملات خراب نہ ہوتے بلکہ ایرانی تاجر بھی بری طرح متاثر ہوتے۔ ایران اور پاکستان کے مابین قانونی تجارت ٹیکس آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔ اس تجارت سے حکومتِ پاکستان سالانہ تقریباً 80 ارب روپے سے زائد ٹیکس اکٹھا کرتی ہے۔ یہ صرف قانونی تجارت کے اعداد و شمار ہیں۔ اگر اسے بہتر طریقے سے منظم کیا جائے تو مزید ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ پنجگور میں متحدہ عرب امارات نے کھجور کے کاروبار میں تقریباً سات سو ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے‘ جیسے ہی یو اے ای نے اس معاہدے پر دستخط کیے‘ ساتھ ہی ایران سے حملہ ہو گیا۔ اس سرمایہ کاری سے سٹاک ایکسچینج پر جو مثبت اثرات آنے تھے‘ وہ منفی میں تبدیل ہو گئے۔ ایران کے حملے کے بعد کے ایس ای100 انڈیکس 1029پوائنٹس کمی کے بعد 63 ہزار پوائنٹس سے نیچے آگیا۔ اگر یہ معاملہ طوالت اختیار کرتا تو سٹاک ایکسچینج مزید نیچے جا سکتی تھی لیکن امید ہے کہ اب دونوں اطراف مزید تصادم سے بچنا چاہتی ہیں۔ ایسے غیریقینی حالات میں مافیاز اکثر ڈالر ریٹ بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایران حملے کے بعد گرے مارکیٹ میں ڈالر ریٹ بڑھانے کی کوشش کی گئی لیکن متعلقہ اداروں کی بروقت کارروائی کی وجہ سے ڈالر ریٹ نہیں بڑھ سکا۔ ماضی میں ایسے مواقع پر بینک بھی انٹر بینک ریٹ بڑھاتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے اور امید ہے کہ حالات کنٹرول میں رہیں گے۔ ایران کی پاکستان کو ایکسپورٹ زیادہ ہے اس لیے ڈالر ریٹ کے حوالے سے انہیں زیادہ نقصان ہوتا۔ موجودہ حالات میں ایران کو ڈالرز کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری جانب آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کی مجموعی معاشی صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ رواں مالی سال میں معاشی ترقی کی شرح دو فیصد رہنے کا امکان ہے۔ مالی سال 2024ء کی دوسری ششماہی میں معاشی بحالی مزید بہتر ہونے کی توقع ہے۔ رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی طور پر مضبوط محصولات کے سبب بنیادی سرپلس جی ڈی پی کا 0.4فیصد رہا۔ مہنگائی کی سطح اب بھی بلند ہے تاہم سخت پالیسی کے ساتھ یہ جون 2024ء کے آخر تک کم ہو کر 18.5فیصد تک آ سکتی ہے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس زرِمبادلہ کے ذخائر دسمبر 2023ء میں بڑھ کر 8.2 ارب ڈالر ہو گئے جو جون 2023ء میں 4.50 ارب ڈالر ریکارڈ کیے گئے تھے جبکہ شرحِ تبادلہ بھی بڑی حد تک مستحکم رہا ہے۔ مالی سال 2024ء میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے تقریباً 1.6 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے۔ مستحکم معاشی پالیسی اور سٹرکچرل اصلاحات پر عملدرآمد کرتے ہوئے مہنگائی کو سٹیٹ بینک کے ہدف پر واپس لانے کی ضرورت ہے جبکہ درمیانی مدت میں معاشی شرح نمو کے مستحکم ہونے کا تسلسل جاری رہ سکتا ہے۔ ملک میں بجلی کی پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے۔ مالی سال 2024ء کے دوران ملک میں بے روزگاری کی شرح آٹھ فیصد رہنے کی توقع ہے جو گزشتہ مالی سال 8.5فیصد رہی تھی لیکن کچھ معاملات اب بھی پریشانی کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاکستان کو سالانہ 25ارب ڈالرز قرض ادائیگی کیلئے درکار ہیں۔ یہ فنڈز کیسے مینج ہوں گے اس حوالے سے صورتحال واضح نہیں ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ملک میں باقاعدہ سیاسی حکومت نہیں ہے۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کئی پروگرامز میں یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ اگر مسلم لیگ (ن) کی حکومت بنی تو قرضوں کی ادائیگی بڑا مسئلہ نہیں ہو گی۔ ممکن ہے کہ وہ درست کہہ رہے ہوں کیونکہ ماضی میں بھی انہوں نے قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے جو دعویٰ کیا تھا وہ بعد ازاں درست ثابت ہوا اور پاکستان نے تمام قرض بروقت ادا کر دیے تھے۔ اس حوالے سے دیگر جماعتوں کا مؤقف ابھی تک سامنے نہیں آ سکا ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کے ایک کامیاب پائلٹ منصوبے کے بعد حکومتِ سندھ نے بھی کارپوریٹ ایگریکلچر فارمنگ کیلئے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ انتظامیہ نے سندھ میں تقریباً 52 ہزار 713 ایکڑ بنجر زمین کی نشاندہی کی ہے جس میں 28 ہزار ایکڑ خیرپور میں‘ 10ہزار ایکڑ تھرپارکر میں‘ 9 ہزار 305 ایکڑ دادو میں‘ ایک ہزار ایکڑ ٹھٹھہ میں‘ 3 ہزار 408 ایکڑ سجاول میں اور ایک ہزار ایکڑ بدین میں ہے۔ یہ زمین گرین پاکستان انیشی ایٹو کو عملی جامہ پہنانے کیلئے آئندہ 20 برس کیلئے کارپوریٹ فارمنگ کیلئے وقف کی جائے گی تاکہ زراعت کے شعبے کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے ترقی دی جا سکے۔ چیف سیکرٹری سندھ کی سربراہی میں ایک بورڈ آف مینجمنٹ قائم کیا گیا ہے جوکہ لینڈ مینجمنٹ سمیت دیگر امور سے متعلق تمام فیصلے کرے گا۔ جولائی 2023ء میں اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل عاصم منیر نے پہلے کارپوریٹ فارم کا افتتاح کیا تھا۔ اب نگران حکومت نے اس منصوبے پر پیش رفت کرتے ہوئے قواعد و ضوابط طے کیے ہیں اور منصوبے کے حوالے سے موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس زمین کو صرف کاشتکاری کیلئے استعمال کیا جائے گا اور زمین کی ملکیت حکومتِ سندھ کے پاس ہو گی۔ منصوبوں سے مقامی آبادی کا پانی سمیت کوئی حق متاثر نہیں ہو گا۔ کمپنیوں کو آبپاشی کیلئے متبادل آبی وسائل کا بندوبست کرنا ہو گا۔ اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ اس مقصد کے لیے کسی ایسی زمین کو استعمال میں نہیں لایا جائے گا جس پر کوئی گاؤں‘ کچی آبادی‘ محلہ‘ عارضی پناہ گاہ‘ چراگاہ موجود ہو یا جو موسمی کاشتکاری کیلئے استعمال ہوتی ہو یا جو کسی عوامی منصوبے کیلئے مختص ہو۔ موٹرویز‘ سپر ہائی ویز‘ قومی شاہراہوں‘ سڑکوں‘ ریلوے لائنوں‘ آبپاشی کے راستوں‘ جنگلی حیات کی پناہ گاہوں‘ پارکس‘ پہاڑی سلسلے‘ ورثے کے مقامات‘ مذہبی مقامات‘ قبرستان‘ جنگلات‘ گیلی زمینوں‘ سمندری کریک‘ دریائی ڈیلٹا‘ تاریخی آبی گزرگاہوں‘ اہم حفاظتی تنصیبات‘ بندرگاہوں اور ساحلِ سمندر کی حدود میں آنے والی زمین بھی اس مقصد کیلئے استعمال نہیں ہو گی۔ دونوں فریقین کے درمیان معاہدے کی شرائط کے مطابق خالص منافع کا 20 فیصد مقامی علاقے میں تحقیق اور ترقی پر خرچ کرنا ہوگا جبکہ40 فیصد سالانہ بنیادوں پر حکومتِ سندھ کو ادا کیا جائے گا۔بقیہ 40 فیصد حصہ مقامی انفراسٹرکچر‘ آبپاشی چینلز‘ شمسی توانائی سے چلنے والی واٹر سپلائی سکیموں‘ سکولوں‘ ہسپتالوں‘ ترقیاتی سکیموں اور دیگر وسائل پر بھی سندھ کے اُن علاقوں میں خرچ کیا جائے گا جہاں ایسے منصوبے لگائے جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں