سی پیک‘ کوئلہ پلانٹس اور ملکی معیشت

ملک میں انتخابی گہما گہمی بڑھ رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی الیکشن مہم میں سی پیک کی بھی بات کی جا رہی ہے۔ ملک کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں سی پیک کو آگے بڑھانے کی دعویدار ہیں۔ شاید اچھے کام کا کریڈٹ لینے کیلئے سب ہر وقت تیار رہتے ہیں لیکن عوام حقائق سے بخوبی آگاہ ہیں۔ موجودہ دور میں عوام کی آنکھوں میں زیادہ دیر تک دھول جھونکنا ممکن نہیں‘ اس لیے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں الیکشن مہم میں مکمل حقائق بیان کریں۔ بیجنگ نے کہا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کو اَپ گریڈ کرنے کیلئے چین پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہے۔ یہ بیان حوصلہ افزا ہے لیکن چینی قرضے اور پاکستان کی سکیورٹی صورتحال سی پیک منصوبوں کو آگے بڑھانے میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ چینی نائب وزیر خارجہ سن ویڈونگ کی قیادت میں ایک چینی وفد نے 20سے 22جنوری کو پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران انہوں نے پاکستان کی عسکری قیادت سے ملاقات کے علاوہ وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی سے بھی ملاقات کی تھی۔ سی پیک کے مشترکہ ورکنگ گروپ کا اجلاس ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان اور چین سی پیک کے دوسرے مرحلے کی طرف پیش رفت کر رہے ہیں۔ چین نے اپنے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے منصوبے کے تحت پاکستان بھر میں ابتدائی طور پر بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کیلئے سرمایہ کاری فراہم کی ہے اور اب وہ نجی سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتے ہیں اور بنیادی ڈھانچے کیلئے سرمایہ کاری میں کمی ہو رہی ہے۔ چین کی طرف سے سی پیک کو اَپ گریڈ کرنے کی جوبات ہو رہی ہے اس کا تعلق نجی سرمایہ کاری سے ہے۔ پاکستان میں غیرملکی سرمایہ کاری کیلئے ساز گار ماحول کیلئے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ چین اس بات کا خواہاں رہا ہے کہ پاکستان اپنے اکنامک زونز تیار کرے اور چینی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے وہاں سہولتیں فراہم کرے تاکہ پاکستان میں نجی سرمایہ کاری آئے۔ چین اس بات کا خواہاں ہے کہ پاکستان میں اکنامک زونز فنکشنل ہوں جہاں تمام سہولتیں موجود ہیں‘ اس کے ساتھ سکیورٹی کے خدشات کو دور کرنا بھی ضروری ہے تاکہ وہ چینی کمپنیاں‘ جو پاکستان میں منتقل ہونا چاہتی ہیں‘ ان کیلئے ماحول سازگار ہو سکے۔ اس وقت پاکستان کیلئے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ چین سے سی پیک منصوبوں کے تحت ملنے والے قرضوں کو کیسے ادا کیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق اِن قرضوں کا حجم لگ بھگ 40ارب ڈالر ہے جو پاکستان کے غیرملکی قرضوں کے حجم کا لگ بھگ ایک تہائی ہے۔ اس وقت چین سے نئے قرض کے حصول کیلئے بات چیت کے بجائے زیادہ زور اس بات پر ہونا چاہیے کہ پرانے قرضے کس طرح چین کو واپس کیے جائیں گے۔ جب پاکستان نے یہ قرضہ حاصل کرکے سی پیک منصوبے مکمل کر لیے ہیں تو اس کی ادائیگی بھی پاکستان کو ہی کرنا ہو گی۔ اگر پاکستان کے پاس ان قرضوں کو فوری طور پر ادا کرنے کیلئے غیرملکی زرِمبادلہ نہیں ہے تو اس معاملے کو پاکستان کو خود حل کرنا ہو گا۔ پاکستان کو چین سے مزید قرضے حاصل کرنے کے بجائے ملک میں سرمایہ کار ی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان پر قرضوں کا مزید بوجھ نہ پڑے۔
ایشیا کے بیشتر حصوں کی طرح پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹ ابھی اپنی عروج کی منازل تک نہیں پہنچے ہیں۔ ملک کا سب سے پرانا کوئلے سے چلنے والا پلانٹ صرف چھ سال پرانا ہے۔ مقامی کوئلے کے استعمال کی شرح نہایت عمدہ ہے اور اس سے منافع بھی زیادہ حاصل ہوتا ہے جو اسے پلانٹ مالکان کیلئے ایک منافع بخش کاروبار بناتا ہے۔ کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے کے اقدامات کوئلے کے کاروبار کیلئے ایک چیلنج ہیں کیونکہ مستقبل میں ان سے کوئلے کے پلانٹس کی تعمیر اور دیکھ بھال پر خرچ کی گئی رقم کا ایک بڑا حصہ ضائع ہو سکتا ہے۔ جیسے جیسے ان پلانٹس کی عمر بڑھتی جاتی ہے‘ معاشیات زیادہ سازگار ہو جاتی ہے۔ اس کے باوجود اگر سیریبون-ون پلانٹ کیلئے طویل اور طے شدہ مذاکرات اس حوالے سے کوئی اشارہ ہیں تو اس میں شامل فریقین کی رضا مندی کا جائزہ لینے کیلئے اب بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ بیجنگ نے چین پاکستان اقتصادی راہداری کو وسعت دینے میں اب دلچسپی لینا چھوڑ دی ہے‘ یہ پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس کیلئے رقم فراہم کرنے والا واحد ملک ہے۔ دریں اثنا موجودہ سی پیک پاور پلانٹ مالکان کو مبینہ طور پر 400ارب روپے سے زائد کے سی پی پی اے جی کے غیر ادا شدہ واجبات کی وجہ سے سپلائی چین کے مسائل کا سامنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نقد رقم کی کمی اور ایندھن کے سٹاک کو برقرار رکھنے سے قاصر اینگرو پاورجن تھر لمیٹڈ‘ جس پر 65.5ارب روپے واجب الادا ہیں‘ نے مئی 2024ء میں مکمل طور پر بند ہونے کا عندیہ دیا ہے۔ پورٹ قاسم الیکٹرک پاور پر 77.3ارب روپے واجب الادا تھے اور اس نے اسی ماہ سی پی پی اے جی کو باضابطہ ادائیگی ڈیفالٹ کا نوٹس جاری کیا ہے۔
انرجی ٹرانزیشن میکانزم ایک ایسی سہولت ہے جو آب و ہوا کو بہتر بنانے اور پیچیدہ مالیاتی مشکلات سے باہر نکلنے کا راستہ ہموار کرتی ہے اور اسی لیے یہ مالیاتی مشکلات میں مبتلا کول پاور پلانٹس کیلئے امید کی ایک کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ معاملہ جو بھی ہو مگر صحیح وقت پر کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے اور اس حوالے سے مالی اعانت فراہم کرنے کیلئے محتاط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ کسی بھی ملک کے فوسل ایندھن پر انحصار کو کم کرنے کیلئے قابلِ تجدید توانائی اور سمارٹ گرڈ انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری‘ دونوں ہی تیزی سے اور ساتھ ساتھ ہونی چاہیے جبکہ کمیونیٹیز اور کارکنوں پر اس کے اثرات کو کم سے کم کرنا چاہیے۔ دنیا بھر میں کوئلے کے استعمال کو مرحلہ وار ختم کرنے کیلئے منظم طریقے سے کی جانے والی متعدد تکنیکی فزیبلٹی سٹڈیز کے باوجود کوئلے سے چلنے والے ان پاور پلانٹس کو مرحلہ وار بند کرنے کا صرف ایک کامیاب پائلٹ منصوبہ (Test Run) ہی ان مرحلوں میں شامل مشکلات کو سمجھنے اور انہیں حل کرنے میں مددگار ہو سکتا ہے۔ اگر پائلٹ منصوبہ اچھی طرح سے کام کرتا ہے تو کوئلے کے پلانٹس کو بند کرنے کیلئے ایک بلیو پرنٹ بنایا جا سکتا ہے جسے دوسری جگہوں پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے اور یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ آیا اس کے قابلِ نقل علاقائی ماڈل بنائے جا سکتے ہیں یا نہیں۔ انسٹی ٹیوٹ آف انرجی اکنامکس اینڈ فنانشل انالسز کے دیگر ممکنہ انرجی ٹرانزیشن میکنزم مارکیٹوں کے تجزیے میں اس میدان میں پاکستان کو اُبھرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس کے تھرمل پاور فلیٹ میں درمیانی عمر کے‘ درمیانے سائز کے مائع قدرتی گیس یا ڈیزل پلانٹس موجود ہیں جو قبل از وقت ختم کیے جا سکتے ہیں۔
اگرچہ پاکستان کے پاور گرڈ میں کوئلے کا حصہ انڈونیشیا کی طرح زیادہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کا تھرمل فلیٹ ملک بھر میں استعمال ہونے والی بجلی کا 60فیصد پیدا کرنے کا ذمہ دار ہے۔ 30جون 2022ء تک پاکستان میں نصب تھرمل صلاحیت کا صرف 18.75گیگا واٹ نجی ہاتھوں میں تھا اور سرکاری ملکیت والی سینٹرل پاور پرچیزنگ اتھارٹی واحد ادارہ ہے جو بجلی کی خریداری کے ان معاہدوں کو ختم کر سکتا ہے۔ فراخدلانہ الاؤنسز جیسے ڈالر انڈیکسیشن‘ فکسڈ گنجائش چارجز‘ طویل مدتی بجلی کی خریداری کے معاہدے اور ادائیگیوں کیلئے خود مختار گارنٹی اکثر ان پلانٹس کو مارکیٹ کی طاقتوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ پاکستان میں تھرمل پلانٹس درآمد شدہ ایندھن جیسے کوئلہ‘ فرنس اور ایل این جی پر بھی چلتے ہیں جو غیرملکی کرنسیوں میں خریدے جاتے ہیں اور قیمتوں میں شدید اتار چڑھاؤ اور سپلائی چین کے مسائل سے مشروط ہیں۔ غیرمستحکم مراعات اور ضرورت سے زیادہ زرِمبادلہ پر مبنی ایندھن کے اس امتزاج نے صلاحیت کی ادائیگی کے ایک ایسے جال کو جنم دیا ہے جسے پاکستانی ریاست ہلا نہیں سکتی۔ گزشتہ برس اگست میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزارتِ توانائی نے انکشاف کیا تھا کہ اس نے مالی سال 2022-23ء کے دوران آئی پی پیز کو کپیسٹی پیمنٹ کے طور 1.3ٹریلین روپے (4.6 ارب ڈالر) ادا کیے تھے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے کیونکہ 2023-24ء کیلئے پاکستان کا پورا وفاقی بجٹ 14.5ٹریلین روپے ہے۔ ان نازک حالات میں اس طرح کے اثاثوں کو ریٹائرکرنا معاشی اور ماحولیاتی دونوں لحاظ سے ایک معقول فیصلہ نظر آتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں