پاکستان اپنی ضرورت کا تقریباً 20 فیصد تیل پیدا کرتا ہے اور تقریباً 80 فیصد تیل درآمد کرتا ہے۔ یہ تیل سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات‘ کویت‘ جنوبی افریقہ اور دیگر ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان نے کئی مہینوں کی محنت کے بعد روس سے سستا خام تیل درآمد کیا تھا لیکن اس سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں ہو سکے تھے۔ اب روس نے یکم مارچ سے پٹرول کی برآمدات پر 6 ماہ کیلئے پابندی عائد کر دی ہے۔ بعض اطلاعات کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی ضرورت سے زیادہ مانگ کو پورا کرنے کے لیے یہ اقدام کیا جا رہا ہے۔ واضح رہے کہ روس میں 15 سے 17 مارچ کو صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں۔ چونکہ روس گندم کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور فصلوں کی نقل و حرکت کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں‘ اس لیے اس اقدام کو الیکشن سٹنٹ بھی کہا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں یوکرین کی جانب سے روسی آئل ریفائنریز پر حملوں کی بھی خبریں ہیں۔ نیز اس پابندی کا مقصد یورپ اور نیٹو کے لیے مسائل بڑھانا بھی ہو سکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ ایک سیاسی فیصلہ ہو۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق کوئی ملک بلاوجہ آئل سپلائی نہیں روک سکتا مگر روس نے مضبوط بہانہ تراشا ہے۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ملکی سطح پر پٹرول کی قلت اور قیمتوں میں اضافے سے بچنے کے لیے گزشتہ سال ستمبر میں بھی روس نے پٹرول کی برآمدات پر عارضی پابندی عائد کی تھی جس نے عالمی منڈی کو متاثر کیا تھا۔ حالیہ پابندی کے پاکستان پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ انرجی بحران کی وجہ سے ملک کی بیشتر انڈسٹری بند ہے‘ اگر پٹرولیم مصنوعات مزید مہنگی ہو گئیں تو بجلی اور گیس کی قیمتیں مزید بڑھ جائیں گی اور بقیہ صنعتوں کا چلنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ روسی پٹرول کی برآمدات پر پابندی کا اطلاق یوریشین اکنامک یونین (یو اے ای یو) میں شامل ریاستوں پر نہیں ہوگا جن میں آرمینیا‘ بیلاروس‘ قازقستان‘ کرغزستان‘ منگولیا‘ ازبکستان‘جنوبی افریقہ اور جارجیا سے ٹوٹنے والاابخیزیا شامل ہیں۔ روس کے اس فیصلے کے پیشِ نظر حکومتِ پاکستان کو بہتر منصوبہ بندی کرنے کی ضرورت ہے۔ کورونا کے دنوں میں عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات منفی ریٹ پر مل رہی تھیں لیکن بروقت معاہدے نہ کر کے اور تیل کے ذخائر نہ بڑھا کر غلطی کی گئی۔ ملکی سطح پر کم از کم چھ ماہ کے تیل ذخائر ہونا وقت کی اہم ضرورت ہے تا کہ عالمی منڈی میں اتار چڑھائو سے عوام پر زیادہ بوجھ نہ پڑے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو ذخائر بڑھانے کا پابند کیا جانا چاہئے اور عوام کا فائدہ سوچنا چاہئے۔ اگر روس یہ پابندی چھ ماہ تک برقرار رکھتا ہے تو اس سے پاکستانی روپے پر بھی دبائو بڑھ سکتا ہے۔ مہنگی آئل مصنوعات خریدنے سے ڈالر کا آئوٹ فلو بڑھے گا اورتمام اشیا مہنگی ہو جائیں گی اور امپورٹ بل میں بھی اضافہ ہو جائے گا جس کی وجہ سے ڈالر کی قیمت بے قابو ہو سکتی ہے۔ سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا سے جب اس حوالے سے بات کی تو ان کا کہنا تھا کہ پٹرولیم مصنوعات پاکستان کی سب سے بڑی امپورٹ ہیں‘ روس کی پابندی سے عالمی مارکیٹ میں تیل مہنگا ہو گا تو ہم کچھ نہیں کر سکیں گے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں تو بڑھیں گی ہی لیکن دوسری طرف کرنٹ اکائونٹ کو جو دھچکا لگے گا‘ وہ بہت برا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کوئی بھی احتیاطی اقدام کرنے کی پوزیشن میں نہیں‘ ہمارے پاس حالات کا سامنا کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہو گا۔
اس وقت برآمدات کے حوالے سے بہتر خبریں سامنے آ رہی ہیں۔برآمدات میں مسلسل چھ ماہ سے اضافے کا رجحان ہے۔ فروری میں سالانہ بنیادوں پر 17.54 فیصد اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر 2 ارب 57 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جو برآمدی صنعتوں کی نمو میں بحالی کا عندیہ ہو سکتا ہے۔ مالی سال 2024ء کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران برآمدات 9 فیصد اضافے سے 20 ارب 35 کروڑ ڈالر ہو گئی ہیں۔ گزشتہ برس کے اس عرصے میں یہ 18 ارب 67 کروڑ ڈالر رہی تھیں۔ انجینئرنگ مصنوعات میں 15 فیصد اور زرعی اور غذائی برآمدات میں 70 فیصد تک اضافہ ہوا۔ برآمدات بڑھنے سے متعلق نگران وفاقی وزیر تجارت کا کہنا تھا کہ پاکستان ایسی پالیسیوں پر عملدرآمد کے لیے پُرعزم ہے جن سے برآمدی صنعتوں‘ غیر روایتی برآمدات کے فروغ کے ساتھ ساتھ براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا جا سکے۔ نومنتخب حکومت کو چاہیے کہ وہ برآمدات بڑھانے کی روایت کو برقرار رکھنے کی کوشش کرے۔
اس وقت تجارتی خسارے میں بھی تنزلی دیکھی جا رہی ہے جو سالانہ بنیادوں پر 1.95 فیصد کمی کے بعد فروری میں ایک ارب 71 کروڑ ڈالر رہا۔فروری میں درآمدات بھی 8.89 فیصد اضافے سے 4 ارب 28 کروڑ ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ برس کے اسی مہینے میں 3 ارب 93 کروڑ ڈالر رہی تھیں۔ مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ (جولائی تا فروری) کے دوران درآمدی بل 11.87 فیصد گھٹ کر 35 ارب 22 کروڑ ڈالر پر آ گیا ہے جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے دوران 39 ارب 96 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 30.18 فیصد کمی سے 14 ارب 87 کروڑ ڈالر پر آ گیا جو گزشتہ برس کے اسی عرصے میں 21 ارب 29 کروڑ ڈالر ریکارڈ کیا گیا تھا۔ آئی ایم ایف نے 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے میں پاکستانی برآمدات مالی سال 2028ء تک 100 ارب ڈالر کے ہدف کے مقابلے میں نمایاں طور پر کافی کم رہنے کا خدشہ ظاہر کیا ہے۔ آئی ایم ایف نے پیش گوئی کی ہے کہ برآمدات بتدریج اضافے کے بعد مالی سال 2028ء میں 39 ارب 46 کروڑ ڈالر تک ہوں گی۔
چین نے دو ارب ڈالر قرض کی مدت میں توسیع پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے غیر رسمی طور پر فیصلے سے آگاہ کر دیا ہے۔ ابتدائی طور پر قرض پر موجودہ شرحِ سود میں کمی کی درخواست کی گئی تھی۔ اس وقت اس قرض پر 7.1 فیصد کی شرح سے ادائیگی کی جا رہی ہے اور یہ شرح 6 ماہ کے سکیورڈ اوور نائٹ فنانس ریٹ پلس 1.715 فیصد کے فارمولے کے تحت متعین کی جاتی ہے۔ چین نے غیر رسمی طور پر قرض رول اوور پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ جنوری میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کو ایک خط میں قرض کی ادائیگی میں ایک سال کی توسیع کی درخواست کی تھی۔ چین سے ملنے والے 4 ارب ڈالر میں سے 2 ارب ڈالر کی واپسی کی مدت رواں برس 23 مارچ کو مکمل ہو رہی ہے؛ تاہم اس کی ادائیگی کیلئے ایک سال کی مزید مہلت طلب کی گئی ہے۔
وزارتِ خزانہ نے فروری کیلئے اپنے ماہانہ اقتصادی اَپ ڈیٹ اور آؤٹ لُک میں کہا ہے کہ مارچ میں افراطِ زر 23.5 سے 24.5 فیصد تک رہنے کی توقع ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کے اخراجات اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود آئندہ مہینوں میں افراطِ زر کی شرح میں کمی کا رجحان دیکھا جا سکتا ہے۔ زیادہ بیس کا اثر افراطِ زر کے دباؤ کو کم رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے۔ جنوری میں سٹیٹ بینک نے مسلسل پانچویں پالیسی میٹنگ میں شرحِ سود 22 فیصد پر برقرار رکھی تھی اور پورے سال کے افراطِ زر کے تخمینوں میں اضافہ کیا تھا۔ سٹیٹ بینک کے مطابق یہ فیصلہ بلند شرحِ افراطِ زر کی وجہ سے کیا گیا جو دسمبر میں 29.7 فیصد تھی۔ جون میں ختم ہونے والے مالی سال کیلئے مرکزی بینک کا اوسط افراطِ زر شرح کا تخمینہ 23 سے 25 فیصد تک ہے‘ قبل ازیں 20 سے 22 فیصد تک کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ اس میں اضافے کی وجہ گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ حکومت اعداد و شمار جاری کرنے کے ساتھ عام آدمی کے مسائل حل کرنے کی بھی ذمہ دار ہے۔ شرحِ سود کو کم کیے بغیر عوامی مسائل میں کمی لانا مشکل ہے۔ مہنگائی میں ایک یا دو فیصد کمی سے عوام کو زیادہ فرق نہیں پڑتا‘ آٹھ سے دس فیصد تک کمی ہی سے عوامی مشکلات میں کمی آ سکتی ہے۔