رمضان المباک میں مہنگائی‘ آئی ایم ایف اور قرضے

رمضان کے مقدس مہینے کی آمد آمد ہے۔ مسلمانوں کی اکثریت اس مہینے میں عبادات کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ اور خیرات کا بھی بھرپور اہتمام کرتی ہے۔ اکثر مغربی ممالک میں رمضان المبارک کے حوالے سے عوام کو خصوصی رعایت دیے جانے کی روایت برقرار ہے لیکن پاکستان میں عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ رمضان کے شروع ہوتے ہی کھانے پینے‘ خصوصی طور پر پھلوں اور سبزیوں کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہو جاتا ہے۔ کئی کاوشوں کے باوجود بھی اس مسئلے پر قابو نہیں پایا جا سکا۔ اس وقت شملہ مرچ کی قیمت 800 روپے فی کلو کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جو ایک‘ دو روز قبل 400 روپے فی کلو تھی اور ایک ہفتہ قبل یہ 200 روپے فی کلو میں دستیاب تھی۔ حکومت نے جنوری کے وسط میں برآمدات روکنے کیلئے پیاز کی کم از کم برآمدی قیمت 750 ڈالر سے بڑھا کر 1200 ڈالر فی ٹن کی تھی لیکن یہ حکمت عملی مؤثر نہ ثابت ہو سکی اور قیمتیں مسلسل بڑھتی رہیں۔ ٹماٹر کی قیمت 100 تا 140 روپے فی کلو سے بڑھ کر 220 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔گوبھی کا ریٹ 150 روپے سے بڑھ کر 200 روپے فی کلو پہ پہنچ گیا جبکہ ایک ہفتہ پہلے یہ 80 سے 100 روپے فی کلو میں دستیاب تھی۔ کمشنر کراچی نے چنے کی دال کی قیمت (اعلیٰ معیار) 185 روپے اور 180 روپے فی کلو مقرر کی ہے لیکن مارکیٹ میں یہ بالترتیب 235 اور 225 روپے فی کلو میں فروخت ہو رہی ہیں۔ ہول سیل مارکیٹ میں کابلی چنا (اعلیٰ کوالٹی) 350 روپے اور 325 روپے فی کلو میں دستیاب ہے لیکن سرکاری مقرر کردہ نرخ 330 اور 300 روپے فی کلو ہیں۔اس سال حکومت نے کھانے کی کچھ اشیا کی برآمدات پر پابندی عائد کی ہے‘ ممکن ہے کہ اس کے کچھ مثبت نتائج سامنے آ سکیں۔
15 اپریل تک پیاز اور کیلے کی برآمد پر پابندی عائد کر دی گئی ہے‘ عمومی رائے یہ ہے کہ اس سے ان کی قیمتیں مستحکم ہوں گی۔ 8 دسمبر 2023ء کو بھارت کی طرف سے برآمدات پر عائد پابندی کے بعد سے پیاز کی قیمت مسلسل بڑھتی رہی ہے۔ 250 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت ہونے والے پیاز کی قیمت 300 روپے فی کلو تک پہنچ گئی جبکہ مختلف علاقوں میں یہ 340 روپے فی کلو پر فروخت ہوتا رہا۔ اب کوارنٹین ڈیپارٹمنٹ کے تمام مجاز افسران سے کہا گیا ہے کہ وہ پیاز اور کیلے کی (بیرونِ ملک) ترسیل کیلئے فائٹوسینٹری سرٹیفکیٹ جاری نہ کریں۔ یہ فیصلہ خوش آئند ہے اور اسے کسی دبائو میں تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹیبل ایکسپورٹرز‘ امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے اس پابندی کا محتاط انداز میں خیرمقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جن برآمد کنندگان نے اپنے خریداروں سے پہلے ہی ایڈوانس ادائیگی حاصل کر رکھی ہے‘ انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا جبکہ جو پہلے ہی گڈز ڈیکلریشن (جی ڈی) فائل کر چکے ہیں انہیں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا‘ انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ فیصلے پر عملدرآمد سے قبل برآمد کنندگان کو اس سنگین مسئلے سے بچانے کے لیے چند دن کا وقت دینا چاہیے۔ حکومت پر مختلف پاور گروپس کی طرف سے بھی دبائو بڑھایا جا رہا ہے۔ ان طبقات کو چاہیے کہ رمضان کے مہینے میں ناجائز منافع کمانے کے بجائے عوام کو سستی اشیا کی فراہمی کی کوشش کریں۔
آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ نئی کابینہ کی تشکیل کے بعد وہ پاکستان کے ساتھ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدے کے دوسرے جائزے کے لیے تیار ہے۔آئی ایم ایف کی ڈائریکٹر کمیونیکیشن جولی کوزیک نے صحافیوں کو بتایا فی الحال توجہ موجودہ سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی تکمیل ہے جو اپریل 2024ء میں ختم ہوگا‘ ہم نئی حکومت کے ساتھ کلی معاشی استحکام کو یقینی بنانے اورپالیسیوں پر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے 11 جنوری کو پاکستان کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کے پہلے جائزے کی منظوری دی تھی‘ اب تک تقریباً ایک ارب 90کروڑ ڈالر موصول ہوچکے ہیں۔ آئی ایم ایف نے مالی اہداف‘ سماجی طبقات کے تحفظ اور افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کیلئے سخت مالیاتی پالیسی کے لیے نگران حکومت کے عزم کی تعریف کی۔انہوں نے توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے کیلئے ٹیرف میں بروقت ایڈجسٹمنٹ کا بھی اعتراف کیا؛ تاہم آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان کی اندرونی سیاسی صورتحال پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے لیکن انتخابی تنازعات کے شفاف اور پُرامن حل کی حوصلہ افزائی کریں گے۔گزشتہ برس پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان تین ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی معاہدہ ہوا تھا۔ اُس وقت پاکستان کو بڑھتی مہنگائی‘ روپے کی بے قدری اور زرِمبادلہ میں کمی کا سامنا تھا۔ تاہم اب بھی یہ معاشی مشکلات برقرار ہیں۔ اگرچہ انتخابات کے نتائج کے بارے ملک کے اندر سوالات اٹھائے گئے مگر امریکہ اور دیگر ملکوں کی طرف سے انتخابات کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کے آئی ایم ایف کو لکھے گئے خط کی بابت آئی ایم ایف نے بھی اس کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔انتخابات میں مبینہ دھاندلی ملک کا اندرونی معاملہ ہی رہے گا۔یہ درحقیقت عالمی ترجیحات کا معاملہ ہے۔ بین الاقومی مالیاتی ادارے جب ملک کے ہر مسئلے میں مداخلت کرتے ہیں تب انہیں کوئی بھی معاملہ اندرونی معاملہ نہیں لگتا۔ بہرکیف‘ اس وقت پاکستان کو آئی ایم ایف سے 1.2 ارب ڈالر کی قسط کی ضرورت ہے اور امکان ہے کہ یہ پاکستان کو مل جائے گی۔ اس کے بعد آئی ایم ایف کے ساتھ چھ سے آٹھ ارب ڈالرز کا طویل مدتی معاہدہ طے پانے کا بھی امکان ہے۔ آئی ایم ایف مشن جلد پاکستان آ رہا ہے اور وہ تمام سٹیک ہولڈر سے ملاقات کر سکتا ہے‘ لہٰذا اس بات کا کوئی خدشہ نہیں کہ عمران خان کے خط کی وجہ سے مسائل پیدا ہوں گے۔ البتہ پی ٹی آئی کی اہمیت اس وقت بڑھ سکتی ہے جب آئی ایم ایف کی ٹیم خیبر پختونخوا کی وزارتِ خزانہ او ر وزیر اعلیٰ کے پی سے ملاقات کرے گی۔البتہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اِس وقت امریکہ کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہے لہٰذا آئی ایم ایف کا پروگرام مل جائے گا۔
دوسری طرف ملکی قرضوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ فارن اکنامک اسسٹنس (ایف ای اے) کی رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی جائزہ رپورٹ میں وزارتِ معاشی امور نے بتایا کہ حکومت کے ذمہ غیر ملکی قرضے 30 ستمبر 2023ء تک 86 ارب 35 کروڑ ڈالر تک پہنچ چکے ہیں۔پاکستان کو جولائی تا ستمبر 2023ء کے دوران 3 ارب 50 کروڑ ڈالر موصول ہوئے جبکہ ایک ارب 50 کروڑ ڈالر قرض کی ادائیگی کی گئی‘ اس طرح قرضوں میں ایک ارب 97 کروڑ ڈالر کا خالص اضافہ ہوا۔کل قرضوں کا تقریباً 64 فیصد دوطرفہ اور کثیر الجہتی اداروں سے حاصل کیا گیا‘ جو رعایتی شرائط اور طویل المدت کے قرضے ہیں۔واضح رہے کہ 31 مارچ 2023ء تک قرضوں کی کل مالیت 85 ارب 18 کروڑ ڈالر تھی۔پاکستان کو گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کے دوران 2 ارب 20 کروڑ ڈالر کے قرضے ملے تھے جبکہ 2 ارب 6 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کے بعد خالص اضافہ 14 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کا ہوا۔ سال کی پہلی سہ ماہی میں 64 کروڑ 20 لاکھ ڈالر کے نئے معاہدے کیے تھے۔ یہ تمام معاہدے کثیر الجہتی ترقیاتی شراکت دار کے ساتھ کیے گئے کیونکہ مارکیٹ کے غیرموافق حالات‘ خراب کریڈٹ ریٹنگ اور ناقابلِ برداشت شرحِ سود کے نتیجے میں انٹرنیشنل بانڈز اور کمرشل قرضے حاصل نہیں کیے جاسکے۔جولائی تا ستمبر کے دوران ملنے والے 3 ارب 53 کروڑ ڈالر بنیادی طور پر یہ قرضے دوطرفہ ترقیاتی شراکت دار اور مالیاتی اداروں سے گرانٹ کی صورت میں ملے۔ 3 ارب 53 کروڑ ڈالر کی فارن اکنامک اسسٹنس کے علاوہ آئی ایم ایف کے 3 ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ کی پہلی قسط (ایک ارب 20 کروڑ ڈالر) اور متحدہ عرب امارات سے بھی ایک ارب ڈالر ملے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں