حکومت سٹاک ایکسچینج میں ریکارڈ اضافے پر خوش ہے‘ جبکہ سرکاری رپورٹس میں مہنگائی میں کمی بتائی جا رہی ہے اور شرح سود بھی کم ہونے کی توقع ہے‘ لیکن کسانوں کے مسائل روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ گندم خریداری کا مسئلہ اس وقت شدت اختیار کر چکا ہے۔ حکومت اس کیلئے نگران حکومت کو ذمہ دار ٹھہرا رہی ہے۔ یہ پرانی روایت ہے کہ مسئلے کا بروقت حل نکالنے کے بجائے الزام کسی اور کے سر دھر کر اپنی جان چھڑا ئی جاتی ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ زائد گندم سٹور کرنے کی سہولت نہیں ہے۔ مگر یہ کسان کا مسئلہ ہے یا حکومت کا؟ کسان اپنی جمع پونجی لگا کر فصل اُگائے اور پھر حکومت کو یہ بھی کر کے دے کہ اسے سٹور کیسے اور کہاں کرنا ہے؟ اس سال گندم کی پیدوار پچھلے سال سے زیادہ ہے لیکن ہدف سے بہرحال کم ہے۔ گندم درآمد کرنے والوں کوسوچنا چاہیے تھا کہ اگر ہدف کے قریب بھی گندم کی پیداوار ہو گئی تو اسے کیسے اور کہاں محفوظ کیا جائے گا؟ ایک اندازے کے مطابق غیر ضروری طور پر گندم کی درآمد سے ملکی خزانے کو ایک ارب ڈالرکا نقصان ہوا۔ وزارتِ تحفظِ خوراک نے 35 لاکھ میٹرک ٹن سے زائد گندم درآمد کی‘ جس سے کسانوں کو 380 ارب اور حکومت کو 104 ارب روپے کے نقصان کا خدشہ ہے۔ اس وقت سرکاری ریٹ 3900 ہے لیکن کسان 2800 سے 3000 روپے فی من میں گندم بیچنے پر مجبور ہیں۔ سرمایہ داروں نے پہلے گندم درآمد کر کے پیسہ کمایا‘ اب گندم سستی خرید کر پیسہ کمائیں گے۔ وزیراعظم نے گندم خریداری کا ہدف 14 لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھا کر 18 لاکھ میٹرک ٹن کرتے ہوئے فوری خریداری کا حکم دے تو دیا ہے مگر یہ فیصلہ پہلے کیا جانا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ ان افسران اور سیاستدانوں کو بھی کٹہرے میں لانا چاہیے جنہوں نے بلاضرورت گندم درآمد کرنے کا فیصلہ کیا۔
اُدھرسولر سسٹم لگوانے والوں کے لیے آئے روز کوئی نہ کوئی خبر زیرِ گردش ہوتی ہے۔ چند ماہ قبل نیٹ میٹرنگ ختم کرنے کی خبر آ رہی تھی اور اب سولر پاور پر ٹیکس لگانے کی خبریں آ رہی ہیں۔ ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ۔کہا جا رہا ہے کہ سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی یا پاور ڈویژن نے حکومت کو ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی‘ البتہ یہ معاملہ زیرِ غور ضرور ہے‘ جس کے پیچھے حکومتی مؤقف یہ ہے کہ امیر لوگ بڑے سولر پینل لگا رہے ہیں‘ گھریلو اور صنعتی صارفین سمیت حکومت کو سبسڈی کی شکل میں بوجھ برادشت کرنا پڑ رہا ہے‘ اس کے نتیجے میں تقریباً ڈھائی سے تین کروڑ غریب صارفین متاثر ہو رہے ہیں۔ تقریباً سوا تین روپے فی یونٹ کے حساب سے پیسہ صارفین کی جیب سے نکل کر امیر طبقے کے جیبوں میں چلا جائے گا‘ یہ سلسلہ جاری رہا تو غریب صارفین کے بلز میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ 2017ء کی نیٹ میٹرنگ پالیسی کا مقصد متبادل توانائی کو فروغ دینا تھا‘ مگر سولرائزیشن میں اب بہت تیزی سے اضافہ ہوا ہے ‘ اس لیے نئے نرخوں کی ضرورت ہے۔ اب پورے نظام کو سٹڈی کیا جا رہا ہے اور ایسی تجاویز اور ترامیم پر غور کرنے کی ضرورت ہے جن سے دیگر صارفین کو مزید بوجھ سے بچایا جا سکے۔مگریہ حکومتی مؤقف درست نہیں ہے۔ ایسا صاف نظر آ رہا ہے کہ غریب عوام کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی جا رہی ہے اور مہنگی بجلی پیدا کرنے والے آئی پی پیز اور بجلی مافیا کو تحفظ دیا جا رہا ہے۔ دنیا میں سولر سے پیدا شدہ بجلی مہنگے نرخوں پر خریدی جاتی ہے کیونکہ یہ کلین انرجی ہے۔ ہمارے یہاں حکومت تیل سے جو بجلی پیدا کرتی ہے‘ وہ مہنگے داموں بیچتی ہے اور سولر سے جو صاف بجلی پیدا ہوتی ہے‘ وہ سستی خریدتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟حکومت کو اس بارے عوام کو جواب دینا چاہیے۔
پاکستان اور ایران نے آئندہ پانچ سالوں میں دوطرفہ تجارت دس ارب ڈالر تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان آٹھ شعبوں میں مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے ہیں۔ اس وقت پاک ایران رجسٹرڈ تجارت کا حجم دو ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ ایران کی برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالر سے زائد ہیں اور پاکستان ایران کو تقریباً آٹھ ملین ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے پچھتر سالوں میں جو تجارت صرف دو ارب ڈالرز تک پہنچ سکی‘ وہ پانچ سالوں میں دس ارب ڈالر تک کیسے پہنچے گی؟ ایسا نہیں کہ اس میں اتنا پوٹینشل نہیں‘ مگر اس کے لیے سیاسی سطح پر دیرپا پالیسی بنانے اور اس پر سختی سے عمل درآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ رجسٹرڈ تجارت اگرچہ دو ارب ڈالرکے لگ بھگ ہے مگر غیر رجسٹرڈ تجارت طے کردہ ہدف سے بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں توانائی کی کھپت میں تقریباً 26 فیصد ایل پی جی شامل ہے‘ جس کا بڑا حصہ ایران سے آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم مصنوعات کی غیر رجسٹرڈ تجارت کا حجم بھی بہت زیادہ ہے۔ گوادار اور پنجگور کو بجلی ایران سے مل رہی ہے۔ گوادر میں صاف پانی‘ دودھ‘ دہی اور ڈبل روٹی جیسی چیزیں بھی ایران سے آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تجارت کو قانونی دائرے میں لایا جائے۔ امریکہ کی جانب سے پابندیوں کے سبب بینکنگ ٹرانزیکشن کا مسئلہ ضرور ہے مگر بارٹر ٹریڈ پر کوئی پابندی نہیں ۔ اب تک اس معاملے پر دونوں طرف سے غیر سنجیدگی دکھائی جاتی رہی ۔ ایران نے پاکستانی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات پر اضافی ٹیکس عائد کر رکھا ہے‘ جس کے سبب پاکستان ایران کو ٹیکسٹائل ایکسپورٹ نہیں کرتا۔ اگر ٹیرف کم کر دیا جائے تو پاکستانی ٹیکسٹائل کے بدلے پٹرولیم مصنوعات قانونی طریقے سے ایران سے درآمد کی جا سکتی ہیں۔ اس وقت پاکستان کی ایران کو سب سے بڑی ایکسپورٹ چاول ہے۔ اس کی ادائیگی بارٹر سسٹم کے تحت ہوتی ہے اور چاول کی ایکسپورٹ کے بدلے گودار اور پنجگور میں بجلی کے بلز کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ بھارت‘ ترکیہ اور چین سمیت کئی ممالک ایران سے تجارت کر رہے ہیں‘ حتیٰ کہ بلجیم‘ فرانس اور سوئٹزرلینڈ بھی بذریعہ ترکیہ ایران سے تجارت کرتے ہیں۔ ان حالات میں امریکہ کو اپنی مجبوریاں بتا کر پاک ایران ٹریڈ کو بڑھایا جا سکتا ہے۔
پاکستان اور ایران نے فری ٹریڈ معاہدے کو حتمی شکل دینے‘ سیاسی اور تجارتی کمیٹیوں کے اجلاس اور جوائنٹ اکنامک کمیشن کے 22ویں جائزے پر بھی اتفاق کیا ہے۔ لیکن ایسا ماضی میں بھی ہوتا رہا ہے اور پاک ایران تعلقات میں اتار چڑھائو بھی آتا رہا ہے۔ کچھ ہفتے قبل دونوں ممالک سرحدی علاقوں کے تنازعات میں الجھے ہوئے تھے اور اب تجارت کو فروغ دینے کے معاملات آگے بڑھ رہے ہیں۔ اگر تجارتی حجم بڑھتا ہے تو زیادہ فائدہ ایران کو ہو گا کیونکہ ایران کی پراڈکٹ رینج پاکستان سے کہیں زیادہ ہے اور پیداواری لاگت بھی کم ہے۔ پاکستان کو البتہ سستی درآمدی مصنوعات میسر آ سکتی ہیں اور مہنگائی کی شرح میں کمی آ سکتی ہے‘ جبکہ رجسٹرڈ تجارت کا حجم بڑھنے سے ٹیکس آمدن میں بھی اضافہ ہو گا۔ اس سے ڈالرز کی سمگلنگ میں بھی کمی آئے گی۔ اس وقت پاک ایران ٹریڈ کے نام پر سمگلنگ کا دھندا عروج ہے اور ادائیگیاں ہنڈی حوالے اور ڈالرز کی سمگلنگ کی صورت میں ہو رہی ہیں۔ ڈالر کی سمگلنگ کو روکنے اور رواں مالی سال کے دوران روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے انٹربینک مارکیٹ سے پانچ ارب سے زائد ڈالر خریدے۔
گزشتہ برس ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ مل کر بلوچستان میں ردیگ پشین کے مقام پر بارڈر مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان قانونی طریقے سے تجارت کو فروغ ملے اور سمگلنگ پر قابو پایا جا سکے لیکن ابھی تک اس پر مزید عملی پیشرفت دکھائی نہیں دے رہی۔ ان حالات میں آئندہ پانچ سالوں میں رجسٹرڈ تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک بڑھنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔