ہر نئی حکومت ملک میں گیم چینجر ترقیاتی منصوبے لانے کے دعویٰ کرتی ہے۔ کبھی ملک کو عالمی تجارتی گزرگاہ کا ایک اہم مرکز بنانے کے دعوے کیے جاتے ہیں تو کبھی غیر ملکی سرمایہ کاری کے فروغ کی باتیں ہوتی ہیں‘ لیکن عملاً کوئی ایک منصوبہ بھی ابھی تک صحیح معنوں میں گیم چینجر ثابت نہیں ہوا ہے۔ نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی دس ماہ کے دوران ملک میں غیرملکی سرمایہ کاری کی شرح بڑھنے کے بجائے گزشتہ 50سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ کچھ ملک ہمارے حکمرانوں سے سرمایہ کاری کے وعدے اور معاہدے تو کر رہے ہیں لیکن ملک میں ڈالرز نہیں آ رہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ حالیہ کچھ عرصہ کے دوران سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے غیرملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد متزلزل ہونا ہے۔ وہ شاید اس خوف میں مبتلا ہیں کہ پاکستان میں محفوظ سرمایہ کاری ممکن نہیں۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا آسان نہیں ہے۔
حالیہ دنوں متحدہ عرب امارات نے پاکستان میں 10ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی یقین دہانی کرائی ہے۔ ہمارے ملک میں توانائی‘ آئی ٹی اور سیاحت کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ آئی ٹی کے شعبے سے وابستہ ہو سکتا ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ 10 ارب ڈالر سرمایہ کاری سے ملکی معیشت اور عام آدمی کے معاشی حالات پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ سوال بھی ذہن میں اُبھرتا ہے کہ آخر کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر مالدار ممالک وعدوں کے باوجود پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے لیت و لعل سے کام لیتے ہیں۔ کسی بھی خلیجی ملک کی طرف سے پاکستان میں سرمایہ کاری کی یہ پہلی یقین دہانی نہیں۔ ماضی میں بھی اس طرح کے وعدے کیے جاتے رہے ہیں۔ ماضی میں قطر کے پاکستان کے تین ایئرپورٹس کا انتظام سنبھالنے کی خبریں بھی زیر گردش رہیں‘ حتی کہ یہ دعویٰ بھی کیا گیا کہ معاملات آخری مراحل میں داخل ہو چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ سعودی عرب کا پاکستان میں آئل ریفائنری لگانے کا منصوبہ بھی ابھی تک ادھورا ہے۔ رواں ماہ کے آغاز میں سعودی وزیر خارجہ کی سربراہی میں آنیوالے سعودی سرمایہ کاروں کے وفد کیساتھ ہونے والے مذاکرات کو کامیاب قرار دیا گیا۔ بڑے وعدے اور دعوے بھی سامنے آئے لیکن اس حوالے سے کوئی بڑی عملی پیش رفت نہیں ہو سکی۔ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ممکنہ دورۂ پاکستان سے بھی کافی امیدیں وابستہ ہیں لیکن اس دورے کے حوالے سے ابھی تک کوئی حتمی خبر سامنے نہیں آئی۔
کسی بھی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کی شرح اُس ملک کے مثبت تشخص اور سفارتی تعلقات کی مضبوطی کو ظاہر کرتی ہے۔ ملکِ عزیز میں ہونے والی بیرونی سرمایہ کاری کی شرح سے اپنے سفارتی تعلقات کی مضبوطی کا اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں۔ دنیا اب خلیجی ممالک کے پاکستان میں سرمایہ کاری کے وعدوں سے متاثر نہیں ہوتی۔وہ سمجھتی ہے کہ خلیجی ممالک اب پاکستان کو مزید امداد دینے سے انکاری ہو چکے ہیں شاید اسی لیے اب سرمایہ کاری کی بات کی جارہی ہے۔ بیرونی سرمایہ میں اضافہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک غیر ملکی سرمایہ کاروں کو منافع بخش کاروبار آفر نہیں کیے جاتے‘ یا پھر انہیں ایسے منصوبوں میں شامل نہیں کیا جاتا جو پہلے سے منافع میں چل رہے ہوں تا کہ ان کا ہمارے نظام پر اعتماد بحال ہوسکے۔ پچھلے چھ سالوں میں متحدہ عرب امارات نے کئی مرتبہ پاکستان کو قرض دینے کا وعدہ کیا لیکن اُس وقت تک قرض نہیں دیا گیا جب تک پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہیں کر لیا۔اس کے علاوہ آئل اینڈ گیس سیکٹر میں بھی سرمایہ کاری کے کئی وعدے کیے گئے‘ جو پورے نہیں ہو سکے۔ گزشتہ برس متحدہ عرب امارات کی رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے ایک گروپ نے پاکستان میں 20 سے 25 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا‘ لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی عملی پیش رفت دکھائی نہیں دیتی۔متحدہ عرب امارات پاکستان کو تقریباً چھ ارب ڈالرز کی ایکسپورٹ کرتا ہے اور پاکستان تقریباً اڑھائی ارب ڈالر کی ایکسپورٹ متحدہ عرب امارات کو کرتا ہے۔ ہزار کوششوں کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی حجم مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر سکا۔دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملکی معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب یہ یکمشت ہو۔ بالخصوص آئی ٹی سیکٹر میں اگر بڑے معاہدے ہو جائیں تو اس سے پاکستانی عوام کو فوری فوائد حا صل ہو سکتے ہیں۔
دوسری طرف آئی ایم ایف کیساتھ نئے معاہدے کے حوالے سے وزیر خزانہ اور وزیراعظم پُرامید ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بھی بظاہر حوصلہ افزا بیان جاری ہوا ہے جبکہ ماضی قریب میں آنے والے بیانات حکومت اور آئی ایم ایف کے درمیان ڈیڈ لاک کا تاثر دے رہے تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے درمیان کچھ برف پگھلی ہے اور سرکار نے سخت فیصلے لینے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ عوام کو اب سخت فیصلوں کی عادت ہونے لگی ہے۔ وہ شاید اپنے معیارِ زندگی پر سمجھوتا اور حالات کی نوحہ گری کرنے کے علاوہ کچھ اور کرنا ہی نہیں چاہتے۔ عوامی سطح پر یہ تاثر مضبوط ہونے لگا ہے کہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف پروگرام میں ہے مہنگائی بڑھے گی اور قوتِ خرید کم ہو گی۔ اطلاعات کے مطابق نئے آئی ایم ایف پروگرام میں تقریباً 1.5ٹریلین روپے کی سیلز ٹیکس سبسڈی ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جن میں 5th شیڈیول‘ جو کہ مشینری وغیرہ کی درآمدات کے زیرو ٹیکس ریٹ سے متعلق ہے‘ کو بھی ختم کیا جا سکتا ہے اور اس کے علاوہ تمام اشیا پر 18فیصد سیلز ٹیکس لگائے جانے کا بھی مطالبہ سامنے آیا ہے۔ پہلے بھی تقریباً تمام اشیا پر سیلز ٹیکس لگ چکا ہے۔ ٹیکس شرح بڑھانے اور مخصوص اشیا پر سیلز ٹیکس لگانے سے ایف بی آر کی آمدن میں مطلوبہ اضافہ ہونا مشکل ہے۔ نئے سال کا ٹیکس ہدف تقریباً 12ہزار 9سو ارب روپے ہے۔ جبکہ ٹیکسز کی بھرمار کے باوجود موجودہ مالی سال کا ٹیکس ہدف حاصل ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ شاید ہی کوئی شعبہ یا مَد ایسی ہو جس میں ٹیکس اکٹھا نہیں کیا جا رہا۔ نان فائلرز کے 50ہزار روپے سے زیادہ کیش نکلوانے پر ایف بی آر نے پچھلے دس ماہ میں تقریباً دس ارب روپے وِد ہولڈنگ ٹیکس اکٹھا کیا ہے۔ یہ شرح مزید بڑھانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ نجکاری کے عمل کو تیز کرنے‘ بجلی و گیس کی قیمتیں بڑھانے اور درآمدات پر سے پابندی ہٹانے جیسے معاملات بھی طے کیے گئے ہیں۔ حکومت نے کھاد کے کارخانوں کیلئے گیس پر سبسڈی ختم کرنے کی منظوری بھی دی ہے۔ جولائی میں بجلی کی قیمتیں مزید بڑھانے کی بھی منظوری ہو چکی ہے۔ بظاہر سٹیٹ بینک نے درآمدت سے پابندی ہٹا دی ہے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں۔ پچھلے آئی ایم ایف پروگرام کے اختتام پر درآمدات میں معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ممکنہ طور پر یہ بھی اس لیے کیا گیا کہ 1.1ارب ڈالر کی تیسری قسط میں رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ نئے پروگرام میں جانے تک درآمدات پر اسی طرح لچک دکھائی جاتی ہے یا ایک مرتبہ پھر رکاوٹ پیدا کی جائے گی‘ اس بارے میں کچھ بھی مکمل یقین سے کہنا مشکل ہے لیکن ڈالرز کی قلت کے پیشِ نظر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ درآمدات پر سختی برقرار رہ سکتی ہے۔ گو کہ ڈالر ریٹ میں کئی ماہ سے زیادہ اتار چڑھاؤ نہیں ہے‘ اس کی وجہ ڈالرز کی آمد میں اضافہ نہیں بلکہ ڈالرز کی طلب میں کمی ہے۔ جب ایل سیز ہی نہیں کھلیں گی تو طلب میں اضافہ ہونا بھی مشکل ہے۔ شاید تجارتی خسارے پر قابو پانے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرنے کیلئے ڈالرز کی طلب اور رسد پر چیک اینڈ بیلنس رکھنا ضروری ہے۔ لیکن یہ فارمولا زیادہ دیر تک چلانا ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہے۔