وزیراعظم شہباز شریف چین کا دورہ مکمل کر کے وطن واپس آ چکے ہیں۔ وزیراعظم کے اس دورے کے سبب وفاقی بجٹ کی تاریخ کو تبدیل کیا گیا۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ حکومت بجٹ پیش کرنے سے پہلے چین کو اعتماد میں لینا چاہتی تھی۔ حکومت اس وقت جو بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے وہ تاریخ کے سب سے بڑے خسارے کا بجٹ ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ کا حجم بھی پچھلے سال کی نسبت تقریباً تیس فیصد زیادہ ہے۔ اس کی ایک وجہ آئی ایم ایف سے مانگا گیا قرض ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے تقریباً آٹھ ارب ڈالر کے پیکیج کی درخواست کی ہے جبکہ آئی ایم ایف چھ ارب ڈالر کے حوالے سے بات چیت کر رہا تھا اور شرائط بھی اسی حوالے سے رکھ رہا تھا۔ اب آٹھ ارب ڈالر کے پیکیج کے لیے شرائط مزید سخت ہو سکتی ہیں۔ چین کو یہ خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف کے دباؤ میں سی پیک سمیت دیگر منصوبوں میں کوئی رکاوٹ نہ آ جائے۔ آئی ایم ایف چین کے قرضوں کے حوالے سے بھی دباؤ بڑھاتا رہا ہے اور یہ شرائط عائد کرتا رہا کہ آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم چینی قرضوں یا سود کی ادائیگی کے لیے استعمال نہ ہو۔ وزیراعظم کے دورے میں ممکنہ طور پر اس حوالے سے چین کے خدشات دور کرنے کی کوشش کی گئی‘ بلکہ اس دورے کو سی پیک 2 کا نام بھی دیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس دورے میں ایم ایل ون‘ گوادر پورٹ منصوبوں‘ قراقرم ہائی وے‘ خنجراب پاس اور انفراسٹرکچر‘ زراعت اور صنعتوں کے 23 معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔ گو کہ اکثر معاہدے پرانے ہی ہیں جن پر دوبارہ دستخط ہوئے لیکن یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ چین اور پاکستان سی پیک منصوبوں پر کام تیزی سے آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔
چین نے ہر مشکل وقت میں باقی سب ممالک سے بڑھ کر پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں سب سے زیادہ بیرونی سرمایہ کاری اگر کسی ملک نے کر رکھی ہے تو وہ چین ہی ہے۔ سب سے زیادہ قرض بھی چین ہی نے پاکستان کو دے رکھا ہے۔ وزیراعظم کا حالیہ دورہ آئی ایم ایف کے لیے بھی ایک پیغام ہے کہ پاکستان کسی صورت چین سے اپنے تعلقات کو خراب نہیں کر سکتا۔ اس دورے میں چین نے پاکستان میں چینی شہریوں کے تحفظ کے معاملے کو بار بار اٹھایا اور چینی صدر نے وزیراعظم شہباز شریف سے براہِ راست ملاقات میں بھی اس مدعے پر تفصیل سے بات کی۔ وزیراعظم نے بشام حملے سے متعلق صدر شی جن پنگ کو تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ یہ حملہ افغانستان سے آپریٹ کیا گیا۔ چین کے افغانستان کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ اس رپورٹ کے بعد چین افغان سرکار سے بات کرے گا تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔ وزیراعظم نے اس مرتبہ چین سے کسی مالی مدد کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ سرمایہ کاری بڑھانے پر زور دیا ہے۔ اس سے قبل خلیجی ممالک کے دورے کے دوران بھی وزیراعظم نے کہا تھا کہ پاکستان نے کشکول توڑ دیا ہے‘ اب وہ دوست ممالک سے قرض نہیں لے گا بلکہ سرمایہ کاری پر بات کی جائے گی۔ یہی پالیسی شاید اب چین کے لیے بھی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ چین پاکستان کی آئی ٹی انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرے۔ اسی لیے اس پانچ روزہ دورے کی ابتدا چینی شہر شینزن سے کی گئی۔ یہ شہرچین کا آئی ٹی حب کہلاتا ہے اور یہاں کے سرمایہ کاروں کو اعتماد میں لینے سے پاکستانی معیشت کو بڑا فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ چین کی سب سے بڑی سولر کمپنی کو پاکستان میں مینوفیکچرنگ پلانٹ لگانے کی دعوت بھی دی گئی۔البتہ چین کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ آئی ٹی اور سولر پلانٹ کی نسبت پاکستانی زراعت میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
اگر بجٹ کی بات کریں تو اس وقت عوام اور ان کے نمائندہ اداروں کی نظریں مالی سال 2025ء کے بجٹ پر مرکوز ہیں۔ بجٹ پیش ہونے سے چند ماہ قبل کاروباری سرگرمیوں کا سست روی کا شکار ہو جانا معمول کی بات ہے۔ لوگ منتظر ہوتے ہیں کہ جلد نیا بجٹ پیش ہو تاکہ نئی پالیسی کے مطابق سرمائے کا رخ موڑا جائے۔ البتہ بڑے کاروباری گروپس کی نظر بجٹ کے بجائے اندرونی خبروں پر ہوتی ہے۔ جن اشیا پر ٹیکس لگنے کی خبریں گرم ہوتی ہیں انہیں سٹاک کر لیا جاتا ہے اور بجٹ کے بعد قیمتیں بڑھا کر بیچا جاتا ہے۔ اس پر کوئی حکومتی چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے۔ اس بار خبر یہ ہے کہ ادویات پر دس سے اٹھارہ فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگ سکتا ہے۔ اس خبر کے بعد سے ادویات کی قلت کی خبریں مل رہی ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ میڈیسن سٹاک بڑھائے جا رہے ہیں‘ جو نہایت افسوسناک ہے۔ یہ ٹیکس لگتا ہے یا نہیں‘ اس بارے مکمل یقین سے کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن منافع خور اپنی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ بجٹ سے متعلق حساس معلومات کو لیک ہونے سے بچانے کے لیے اقدامات کرے اور ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لے۔ عوامی سطح پر ادویات کی قیمتوں سے متعلق سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ حکومت ادویات پر سیلز ٹیکس نہیں لگائے گی اور اگر لگائے گی بھی تو اسے اپنا یہ فیصلہ واپس لینا پڑ سکتا ہے۔ ماضی میں متعدد مرتبہ ادویات پر سیلز ٹیکس لگایا گیا مگر بعد میں عوامی دباؤ اور احتجاج کے بعد یہ ختم کرنا پڑا۔ پوری دنیا میں ادویات پر ٹیکس کے حوالے سے کافی نرم پالیسی ہے۔ بیشتر ممالک میں ادویات پر ٹیکس نہیں‘ اور جن ممالک میں ٹیکس لیا جاتا ہے‘ اس کی شرح بہت کم ہوتی ہے۔ پاکستان میں ادویات پر دس سے اٹھارہ فیصد سیلز ٹیکس لگانا عوام پر اضافی بوجھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس سے ادویات کمپنیوں کا تو فائدہ ہو جاتا ہے‘ کیونکہ وہ پیکنگ سمیت اکثر اشیا پر سیلز ٹیکس ادا کر رہی ہوتی ہیں لیکن ایف بی آر سے ایڈجسٹ نہیں کرا سکتیں۔ سیلز ٹیکس لگنے سے ایک طرف ادویات کی قیمتیں بڑھا کر پیسہ کمایا جا سکتا ہے تو دوسری طرف سرکار سے ٹیکس ریفنڈ بھی لیا جاتا ہے۔ اصل مسائل تو عوام کے لیے پیدا ہوتے ہیں‘ جو پہلے ہی مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہوتے ہیں۔
بجٹ میں آئی ٹی سیکٹر سے متعلق اصلاحات کو بھی بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔ پاکستان خلیجی ممالک اور چین سے آئی ٹی کے شعبے میں سرمایہ کاری کرانا چاہتا ہے لیکن ابھی تک کئی برسوں سے اس شعبے کو درپیش مسائل حل نہیں ہو سکے ہیں۔ آئی ٹی انڈسٹری کا مطالبہ ہے کہ آئی ٹی سیکٹر کے لیے ڈالرز کی بین الاقومی ادائیگی اور وصولی بذریعہ انٹرنیٹ ممکن بنائی جائے‘ لیکن سٹیٹ بینک ابھی تک متعلقہ سافٹ ویئر ہی تیار نہیں کر سکا‘ جس کی وجہ سے آئی ٹی انڈسٹری ڈالر بیرونِ ملک رکھنے پر مجبور ہے۔ اس کے علاوہ آئی ٹی شعبے سے منسلک افراد کی تنخواہوں پر ٹیکس کی شرح پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ ان پر 35 فیصد تک ٹیکس چارج کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر آئی ٹی ملازمین خود کو فری لانسر ظاہر کرکے صرف 0.25 فیصد ٹیکس جمع کراتے ہیں۔ اگر آئی ٹی شعبے کے لیے ٹیکس شرح فلیٹ پانچ فیصد کر دی جائے تو زیادہ ٹیکس اکٹھا ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔
بجٹ میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے خصوصی ڈسکاؤنٹ پیکیج بھی جاری کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی 23کروڑ آبادی اپنی برآمدات سے صرف تیس ارب ڈالر کماتی ہے جبکہ بیرونِ ملک مقیم تقریباً ایک کروڑ پاکستانی ایک سال میں تیس ارب ڈالر کا زرِمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں۔ پاکستانی معیشت میں اوور سیز پاکستانیوں کا کردار بہت اہم ہے۔ حکومت ایکسپورٹ انڈسٹری کو تقریباً تیس فیصد مراعات آفر کرتی ہے‘ اگر بیرونِ ملک سے ڈالرز بھیجنے والوں کو پانچ فیصد مراعات دی جائیں تو چند سالوں میں ترسیلاتِ زر دو سے تین گنا بڑھنے کی امید ہے۔