مالی سال 2024-25ء کے وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی بجٹ بھی پیش کیے جا رہے ہیں۔ خیبر پختونخوا کا بجٹ تو وفاقی بجٹ سے بھی پہلے پیش کر دیا گیا تھا‘ پنجاب اور سندھ کے بجٹ بھی 13 اور 14 جون کو پیش کر دیے گئے اور بلوچستان کا بجٹ عید کی چھٹیوں کے بعد‘ 22 جون کو پیش کیا جائے گا۔ پنجاب نے 5446 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ٹیکس فری اور سرپلس بجٹ پیش کیا ہے۔ یہ بجٹ کتنا ٹیکس فری ہے اس کا اندازہ آنے والے چند ماہ میں ہو جائے گا۔ یہ بجٹ ٹیکس فری کیسے ہے‘ صوبائی وزیرخزانہ نے اس کی وضاحت نہیں کی۔ کیا پنجاب کی عوام آج کے بعد کوئی صوبائی ٹیکس ادا نہیں کریں گے؟ البتہ بجٹ میں کچھ اچھی تجاویز ہیں۔ پنجاب بجٹ میں تنخواہوں میں 20 سے 25 فیصد اضافہ کیا گیا ہے اور کم سے کم تنخواہ 37 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت سولر دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے اور پانچ مرلہ گھر بنانے والوں کو مفت قرض دینے کی بھی تجویز ہے۔ اس سے پنجاب کے عوام کو ریلیف مل سکتا ہے۔ جب وفاق ٹیکسوں کی بھرمار کر دے اور پنجاب اور وفاق میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہو تو پنجاب میں کم ٹیکسز لگانے یا نہ لگانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ پنجاب کی وزیراعلیٰ کو چاہیے تھا کہ وفاق کے عوام دشمن بجٹ کے خلاف آواز اٹھاتیں۔ سندھ سرکار نے 3056 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے۔ یہ ایک روایتی بجٹ ہے جس میں حسبِ توقع ایک مرتبہ پھر کراچی کو نظر انداز کیا گیا ہے‘ حالانکہ کراچی کا میئر بھی پیپلز پارٹی ہی کا ہے۔ ملکی آمدن کا تقریباً 80 فیصد سے زائد دینے والے شہر کے لیے کوئی نیا منصوبہ پیش نہیں کیا گیا۔
بجٹ کو عوام دوست کے بجائے آئی ایم ایف دوست بجٹ کہا جا رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً پچھلے پچیس سال سے یہ جملہ زیادہ تواتر سے سننے کو ملا ہے کہ پاکستان کا بجٹ وزراتِ خزانہ کی بجائے آئی ایم ایف پیش کرتا ہے۔ 2000ء میں بھی پاکستان کو تقریباً ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جیسی آج ہے اور شرائط بھی تقریباً ایک جیسی ہیں۔ آئی ایم ایف کا فوکس ملکی اخراجات میں کمی کرنا اور ٹیکس آمدن بڑھانے پر رہا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے حکمران مختلف ادوار میں کمانے کے بجائے بچانے کی ترکیبیں سوچتے اور بتاتے رہے ہیں۔ جب ملکی سطح پر اپروچ کمانے کے بجائے صرف بچانے پر ہو گی تو اس کے منفی اثرات مرتب ہونے کے امکانات زیادہ رہتے ہیں۔ بچت کی پالیسی تھوڑے عرصے کے لیے مؤثر ہو سکتی ہے‘ مسلسل پچیس سال سے بچت کی پالیسی پر چلنا مسئلے کا حل نہیں۔ بچت ایک حد تک ہو سکتی ہے۔ اس کے بعد آمدن میں اضافہ کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی آمدن برآمدات ہیں اور مالی سال 2024-25ء کے بجٹ میں اس آمدن کو بھی ٹھیس پہنچانے کی کوششیں شروع کر دی گئی ہیں۔ ایکسپورٹرز کو فائنل ٹیکس رجیم سے نکال کر تقریباً 35 سے 40 فیصد ٹیکس ادا کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق 10 فیصد سپر ٹیکس‘ دو فیصد ورکرز ویلفیئر فنڈز‘ پانچ فیصد ورکرز پارٹی سیپیشن فنڈ اور ڈیویڈنڈ پر 25 فیصد تک ٹیکس ادا کرنے کے بعد برآمد کنندگان کمپنیاں 50 فیصد سے زائد ٹیکس ادا کریں گی۔ ایسے حالات میں سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کیوں لگائے گا؟ وہ بنگلہ دیش اور ویتنام میں انڈسٹری کیوں نہ لگا لے؟ بنگلہ دیش میں کارپوریٹ ٹیکس 25 سے 27 فیصد ہے اور ویتنام میں 20 فیصد۔ کوموروس واحد ملک ہے جہاں کارپوریٹ ٹیکس کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہے۔ کوموروس کو سال 2011ء میں 23 ملین ڈالرز بیرونی سرمایہ کاری حاصل ہوئی مگرمسلسل ٹیکس ریٹ بڑھانے کی وجہ سے 2022ء میں بیرونی سرمایہ کاری گھٹ کر صرف 3.8 ملین ڈالرز رہ گئی۔ پاکستانی سرکار کو بھی معاملے کی حساسیت کا اندازہ ہونا چاہیے تاکہ توازن برقرار رکھا جا سکے۔
بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی ہے‘ لیکن بجٹ پیش کرنے کے بعد انڈسٹری کو ریلیف دینے کی بھی کوشش کی گئی ہے۔ وزیراعظم نے انڈسٹری کو 200 ارب روپے کا ریلیف پیکیج دینے کا اعلان کیا ہے۔ انڈسٹری کو بجلی کے بلوں میں 24 فیصد ریلیف دیا گیا ہے جو تقریباً 125 ارب روپے کے برابر ہے۔ اس کے علاوہ دیگر پیکیجز بھی ہیں۔ اس سے تقریباً 10 روپے فی یونٹ بجلی سستی مل سکے گی‘ لیکن اس کی قیمت برآمدکنندگان کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔ نئے ٹیکس ریٹس کے مطابق برآمدکنندگان پر تقریباً 125 ارب روپے کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔ یعنی برآمد کنندگان کی جیب سے پیسہ نکال کر پوری انڈسٹری میں بانٹا جائے گا۔ یہ پالیسی مناسب نہیں۔ سرکار اگر انڈسٹری کو حقیقی طور پر ریلیف دینا چاہتی تو 1500 ارب روپے کے ترقیاتی بجٹ پر کچھ سمجھوتا کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ترقیاتی بجٹ پیش کرنے کی قیمت عوام اور برآمدکنندگان کوادا کرنا پڑے گی۔ ایک اندازے کے مطابق اگر سرکار اپنے چار یا پانچ وزرا کو نہ نوازتی تو تقریباً 400 ارب روپے تک ترقیاتی بجٹ کو کم کیا جا سکتا تھا۔ ایسا کرنے سے برآمدکنندگان پر 125 ارب روپے کے ٹیکسز کا بوجھ نہ پڑتا‘ دودھ کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہوتا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھی بھاری اضافہ نہ کرنا پڑتا۔ یہاں یہ کہنا بھی مناسب ہو گا کہ اس بجٹ میں ملک میں مہنگائی لانے کی ذمہ داری آئی ایم ایف پر نہیں‘ شہباز شریف حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے کاندھوں پر بندوق رکھ کر چلا رہی ہے اور اپنے وزرا کو ترقیاتی بجٹ کی صورت میں نواز رہی ہے۔ آٹا‘ دال‘ چینی اور دودھ سمیت تقریباً سبھی اشیا پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور پٹرولیم لیوی میں اضافہ مہنگائی کا تباہ کن سونامی لائے گا۔ وزیر خزانہ فرماتے ہیں کہ جب عوام ٹیکس نہیں دیں گے تو ایسی صورتحال ہی پیدا ہوتی ہے‘ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جب وزیروں‘ مشیروں کو نوازنا ہو تو ایسی صورتحال پیدا ہونا ناگزیر ہے۔
یہ بجٹ نان فائلرز کے لیے کافی سخت ہے۔ میرے خیال میں نان فائلرز پر سختی ضروری بھی ہے۔ خصوصی طور پر ایسے نان فائلرز جن کی سالانہ آمدن 30 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ ایف بی آر نے جن پانچ لاکھ نان فائلرز کی نشاندہی کی ہے ان کی سالانہ آمدن تقریباً 20 لاکھ روپے سے زائد ہے۔ ہزاروں افراد ایسے ہیں جو بیرونِ ملک تواتر سے سفر کرتے ہیں لیکن نان فائلرز ہیں۔ نان فائلرز پر 45 فیصد تک ٹیکس سے ٹیکس بیس بڑھنے کی امید ہے۔ اس کے علاوہ کمیٹی برائے خزانہ نے نان فائلرز کے بیرونِ ملک سفر پر پابندی کی تجویز منظور کر لی ہے‘ یعنی اگر کسی شخص نے ٹیکس گوشوارے جمع نہیں کرائے تو وہ بیرونِ ملک سفر نہیں کر سکے گا۔ یہ اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جانے کے مترادف ہے۔ حج‘ عمرہ اور پڑھائی کے لیے باہر جانے والوں اور نائیکوپ رکھنے والے اس سے مستثنیٰ ہوں گے۔ اس قانون کو فوری طور پر لاگو نہیں کیا جا رہا لیکن اسے جلد ہی عملی شکل دینے کے امکانات ہیں۔ اس کے علاوہ جو لوگ گھر‘ گاڑی یا کوئی پراپرٹی خریدنے کے لیے فائلر بنتے ہیں انہیں بھی اضافی ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔ ایف بی آر کو نان فائلرز کے بجلی اور گیس کنکشن کاٹنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ بظاہر یہ اقدامات سخت ہیں لیکن امریکہ‘ یورپ یا کسی اور ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا تو ہم اس کے معترف ہوتے اور نظام کے سخت ہونے کو ان ممالک کی ترقی کی وجہ قرار دیتے۔ جب کوئی شخص کماتا ہے تو اُسے ٹیکس گوشوارے بھی جمع کرانے چاہئیں۔ اسے مجبوری نہیں بلکہ قومی فریضہ کے طور پر سرانجام دینا چاہیے۔