وہ وقت بہتر تھا جب سال میں ایک بجٹ آتا تھا اور پورے سال کی معاشی پالیسی واضح ہو جاتی تھی۔ اب بجلی اور گیس کی قیمتوں میں جس طرح آئے روز اضافہ کر دیا جاتا ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہر پندرہ دن بعد نیا بجٹ پیش ہو رہا ہے۔ حکومت نے بجلی کی قیمتوں میں یک مشت تقریباً 51 فیصد تک اضافہ کر دیا ہے‘ جو تقریباً سات روپے فی یونٹ بنتا ہے۔ اس کے علاوہ 200 روپے سے 1000 روپے تک فکسڈ چارجز بھی وصول کیے جائیں گے۔ ایک طرف حکومت دعویٰ کرتی ہے کہ 200 یونٹ تک استعمال کرنے والے صارفین کو تحفظ دیا جائے گا اور ان پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جائے گا جبکہ حالیہ اضافہ 100 اور 200 یونٹ استعمال کرنے والوں پر بھی لاگو ہے۔ ماضی میں جب 200 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والے صارفین کے لیے ریٹس بڑھائے گئے تو اس وقت بھی ان خدشات کا اظہار کیا گیا تھا کہ جلد ہی 200 سے کم یونٹس استعمال کرنے والوں پر بھی بجلی گرائی جائے گی۔ وہ خدشات اب درست ثابت ہو رہے ہیں۔ سرکاری افسران کے مطابق یہ اضافہ اس لیے کیا گیا کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے 200 سے کم یونٹس استعمال کرنے والوں کے لیے ریٹس نہیں بڑھائے گئے۔ تقریباً سوا تین کروڑ صارفین اس اضافے سے براہ راست متاثر ہوں گے۔ ان میں 80 فیصد سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو یا تو بہت غریب ہیں اور یا متوسط طبقے کے نچلے درجے سے تعلق رکھتے ہیں۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس فیصلے سے تقریباً 580 ارب روپے زیادہ وصول کر ے گی۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس اضافی رقم کو وصول کرنے کے بعد بجلی کے شعبے کے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے؟
پچھلے تین سالوں سے بجلی کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن ابھی تک نقصانات پورے نہیں ہوئے‘ کیونکہ مسئلہ بجلی چوری کا ہے نہ کہ بجلی کے ٹیرف کا۔ اگر بجلی چوری نہیں روکی جائے گی تو بجلی مہنگی کرنے سے فائدے کے بجائے نقصان زیادہ ہو گا۔ جتنی بجلی مہنگی ہو گی اتنی ہی چوری بڑھے گی۔ حقائق عوام کے سامنے رکھنے کے بجائے سرکار نے اس کا ذمہ دار بھی آئی ایم ایف کو قرار دے دیا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف توانائی کے شعبے میں نقصانات کو منافع میں بدلنے پر زور دے رہا ہے۔ سرکار بجلی کی چوری روکنے اور بیورو کریسی کے شاہانہ اخراجات کو کم کرنے کے لیے تیار نہیں‘ جس کی قیمت عوام ادا کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے صنعتکاروں کو دس روپے فی یونٹ بجلی سستی مہیا کرنے کے لیے 200 ارب روپے کا پیکیج دیا تھا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے اسے بھی منظور نہیں کیا گیا‘ جس کی وجہ سے ریلیف میں تقریباً دو روپے فی یونٹ تک کمی کی گئی ہے۔ اگر حکومت نے اپنی سمت درست نہ کی تو جو تھوڑا بہت ریلیف بچ گیا ہے اسے بھی ختم کرنا پڑ سکتا ہے۔
مسئلہ صرف توانائی کے شعبے میں بدترین کارکردگی کا نہیں بلکہ سرکار تقریباً تمام سرکاری اداروں میں اصلاحات میں ناکام رہی ہے۔ پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کا بوجھ بھی روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کا مجموعی قرض 17 کھرب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کے سرکاری ادارے اگر 17 کھرب کے نقصانات کر چکے ہیں تو فی الفور ان اداروں کو بند کر دینا یا نجی سیکٹر کے حوالے کر دینا چاہیے۔ جو عوام اپنی استعمال کردہ بجلی کے بل ادا نہیں کر پا رہے وہ سرکاری بابوؤں کی ناکامیوں کی قیمت کیونکر ادا کریں؟ عام آدمی کے لیے سبسڈی اور گرانٹس کے لیے سرکار کے پاس فنڈز نہیں تو پھر ان اداروں کی امداد گرانٹس اور سبسڈیز سے کیسے کی جا رہی ہے؟ رواں مالی سال کے بجٹ میں پبلک سیکٹر انٹر پرائزز کے لیے 12 کھرب 67 ارب روپے مختص کیے گئے جو پچھلے مالی سال کی نسبت تقریباً 104 فیصد زیادہ رقم ہے۔ ان اداروں میں اصلاحات کے نام پر ایشین ڈویلپمنٹ بینک سمیت کئی اداروں سے قرض بھی لے رکھا ہے۔ نہ ان اداروں میں آج تک اصلاحات ہو سکیں اور نہ ہی یہ معلوم ہو سکا کہ جو امداد اور قرض لیے گئے وہ کس طرح اور کہاں خرچ ہوئے۔ آئی ایم ایف کا مؤقف ہے کہ یا تو ان اداروں کو منافع میں چلایا جائے یا بیچ دیا جائے۔ نیا آئی ایم ایف پروگرام شاید اس وقت تک شروع نہ ہو سکے جب تک نقصان میں چلنے والے اداروں میں سے چند ایک کی نجکاری مکمل نہیں کر لی جاتی۔ افغانستان جیسے ہمسایہ ملک کی سرکاری ایئر لائنز منافع کما رہی ہیں اور پچھتر سال پرانی پی آئی اے نے نو ماہ میں تقریباً 75 ارب روپے کا نقصان کیا ہے۔ پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹو کے مطابق اگر پی آئی اے میں اصلاحات نہ کی گئیں تو 2030ء تک نقصان 260 ارب روپے تک پہنچ سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ جتنا جلد ہو سکے‘ پی آئی اے سمیت نقصان میں چلنے والے دیگر اداروں سے جان چھڑائی جائے۔
چین کے ساتھ تعلقات کے پاکستانی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ وزیراعظم ان تعلقات کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ شاید اسی لیے انہوں نے زور دیا ہے کہ چینی معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کی نگرانی وہ خود کریں گے اور کسی بھی طرح کا تعطل برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اطلاعات ہیں کہ چینی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں لیکن کن شعبوں میں سرمایہ کاری کی جائے گی اس کا انتخاب بھی انہوں نے خود کیا ہے۔ تقریباً ایک سو سے زائد چینی کمپنیاں پاکستان کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ چینی جوتا ساز کمپنیوں نے پاکستان میں جوتا سازی کی صنعت میں دلچسپی ظاہر کی ہے جو خوش آئند ہے‘ لیکن تصویر کا دوسرا رُخ دیکھے جانے کی زیادہ ضرورت ہے تا کہ پاکستان میں جوتے کی مقامی صنعت متاثر نہ ہو۔ چینی جوتا ساز کمپنیوں کا حجم اور مالیت پاکستانی کمپنیوں سے کہیں زیادہ ہے۔ چینی کمپنیوں کو زیادہ سہولتیں دینے کے بجائے ایسا ماحول بنانے کی ضرورت ہے کہ مقامی جوتا ساز کمپنیاں بھی فائدہ اٹھا سکیں۔ ماضی میں دیکھا گیا ہے کہ چین نے جن صنعتوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کی‘ مقامی سطح پر کاروبار کرنے والے بُری طرح متاثر ہوئے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی جوتے کی صنعت میں پانچ سے سات ارب ڈالرز سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں جن سے فائدہ اٹھانا مقامی سرمایہ کاروں کا بھی حق ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ شمسی توانائی کے پلانٹس پاکستان میں لگانے کے لیے چینی سرمایہ کاروں کو قائل کرے۔ یہ ایسا شعبہ ہے جس میں مقامی سطح پر سرمایہ کاری نہیں ہو سکی۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے میں جدت لانے کے لیے چین کی مدد حاصل کی جائے۔ پاکستان میں فی ایکٹر پیداوار بنگلہ دیش اور بھارت سے بھی کم ہے۔ زراعت کو پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے‘ اس کی ترقی ہی ملک کی ترقی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں تیل اور گیس کے شعبے میں بھی چینی سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم سے پاکستان کی تیل اور گیس کمپنیوں کے وفد نے اگلے تین سالوں میں پانچ ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے لیکن پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کے وعدوں اور عمل میں کافی فاصلہ رہا ہے۔ چین پاکستان میں اس وقت سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کار ملک ہے۔ اگر چینی کمپنیاں پاکستان میں تیل اور گیس کے شعبے میں سرمایہ کاری کریں تو ملک میں توانائی کی قیمتیں کم ہو سکتی ہیں۔