بجلی کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے جماعت اسلامی کا دھرنا اگلے مرحلے میں داخل ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ راولپنڈی کے بعد کراچی گورنر ہاؤس کے باہر بھی دھرنا دے دیا گیا ہے۔ جس دن کراچی میں بجلی کی قیمت کم کرنے کے لیے دھرنا شروع ہوا اسی دن کراچی کے شہریوں کو بتایا گیا کہ اس مہینے 400 ارب روپے بجلی کے بلوں میں اضافی لگ کر آئیں گے۔جماعت اسلامی کے انفارمیشن سیکرٹری نے مجھے بتایا کہ جماعت مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ نکلی ہے‘ اگر حکومت نے بجلی سستی نہ کی تو پلان اے‘ بی ‘ سی اور ڈی بھی تیار ہیں۔ اگلے مرحلے میں مارکیٹیں اور تجارتی مراکز بند کیے جا سکتے ہیں۔ اس کے بعد تمام بڑے شہروں میں دھرنے شروع ہو سکتے ہیں۔ملک کی بڑی شاہراہیں بھی بند کی جا سکتی ہیں۔ عوام کے لیے بجلی کے بل دردِ سر بن چکے ہیں لیکن حکمران بے بس نظر آتے ہیں۔نہ مسائل حل کرتے ہیں اور نہ دلاسا دیتے ہیں۔مگر یوں لگتا ہے کہ جماعت اسلامی مکمل ہوم ورک کے ساتھ باہر نکلی ہے۔ ان کی تکنیکی ٹیم نے حکومت کے سامنے بجلی کی قیمتیں کم کرنے کا جو فارمولا رکھا ہے اسے حکومت نے ابھی تک مستردنہیں کیا۔ اگر اعدادوشمار کو دیکھا جائے تو اس وقت بجلی بنانے کے لیے فیول کا خرچ تقریباً دس روپے ہے۔ تقریبا 17 سے 18 روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں دیے جاتے ہیں۔بجلی چوری اور دیگر نقصانات کے چارجز بھی عوام پر ڈالے جاتے ہیں۔ ان کے علاوہ ٹیکسز بھی چارج کیے جاتے ہیں۔ اگر کپیسٹی چارجز کا معاملہ حل ہو جائے تو بجلی دس سے پندرہ روپے سستی کی جاسکتی ہے۔ آئی پی پیز میں سے تقریباً 50 فیصد سرکار کی ملکیت ہیں‘ 36 فیصد چائنیز آئی پی پیز ہیں اور 15 فیصد نجی شعبے کے لوگ ہیں‘ جن میں اکثریت پاکستانی ہیں۔ سرکار کے زیر سایہ چلنے والے آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز فوراً ختم کیے جاسکتے ہیں۔ نجی شعبے کے لوگ بھی پاکستانی ہیں۔ 1994ء اور 1995 ء میں لگنے والے آئی پی پیز کی مدت تو تقریباً مکمل ہو چکی ہے۔ 2002ء،2006ء اور 2015ء کے معاہدوں پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نیت ہو تو چند دنوں میں یہ معاملات طے کیے جا سکتے ہیں۔ تحریک انصاف کے دور میں آئی پی پیز سے مذاکرات کیے گئے تھے اور ادائیگی کے لیے ڈالر ریٹ 148روپے طے کر لیا گیا تھا۔ اُس وقت بھی مقامی آئی پی پیز نے شرائط مان لی تھیں لیکن چائنیز آئی پی پیز نہیں مانے تھے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں شکر رنجی آئی۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اس مرتبہ بھی چین اپنی رائے پر قائم رہے گا۔ اگر چین والے معاملے کو ایک طرف کر دیا جائے تب بھی تقریباً 65 فیصد آئی پی پیز کے کپیسٹی چارجز کم کیے جاسکتے ہیں۔ ایسا کرنے کے بعد چین سے بھی درخواست کی جا سکتی ہے‘ لیکن پہلے ہم اپنا گھر تو ٹھیک کریں۔اس معاملے میں حکومتی وزرا کوبھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ وہ تمام سٹیک ہولڈرز سے بات کر رہے ہیں۔ جو آئی پی پیز اپنی لاگت سے زیادہ منافع لے ہیں ان کے کپیسٹی چارجز پر ضرور بات ہونی چاہیے۔انہوں نے چینی صدر کو مقامی کوئلے پر بجلی کے پلانٹ چلانے کے حوالے سے بھی آگاہ کیا تھا جس سے سالانہ تقریباًایک ارب ڈالرز کی بچت ہو سکتی ہے۔
وزیراعظم تو بجلی سستی کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں جبکہ وفاقی وزیر منصوبہ بندی فرما رہے ہیں کہ دھرنوں سے بجلی سستی نہیں ہو گی اور وزیر توانائی جماعت اسلامی کے امیر کو آئی پی پیز پر مذاکرہ کرنے کے لیے کھلا چیلنج دے رہے ہیں۔ اس طرح کے ماحول سے حالات مزید کشیدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ وقت معاملات حل کرنے کا ہے نہ کہ آئی پی پیز پر مذاکرہ کرنے کا۔اور یہ بھی جان لیں کہ آئی پی پیز کے معاہدے تبدیل کرنا یا ختم کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے 2018ء میں ملائیشیا نے چار آئی پی پیز کے معاہدے کینسل کیے تھے تاکہ عوام کو سستی بجلی دی جا سکے۔ بزنس کمیونٹی نے آئی پی پیز کے خلاف سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے اور جماعت اسلامی نے دھرنا دے دیا ہے۔ اب اس معاملے سے جان چھڑانا آسان نہیں ۔امید ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کی کوئی صورت ضرور نکلے گی۔
نجکاری کے معاملے میں چند دن بعد کوئی خبر سامنے آ جاتی ہے لیکن ابھی تک کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ۔ پی ڈی ایم کی حکومت کے دوران بھی نجکاری کے معاملے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا لیکن معاملہ کھٹائی میں پڑا رہا۔ نجکاری کرنے کے لیے صرف بیچنے کا ارادہ کافی نہیں ہوتا بلکہ اچھا خریدار بھی ضروری ہوتا ہے۔ ابھی تک حکومت خریدار ڈھونڈنے میں ناکام دکھائی دیتی ہے۔ نئی حکومت بننے کے بعد حکومت نے 2024ء سے 2029ء کے دوران 24 سرکاری ملکیتی اداروں کو نجکاری کے لیے پیش کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ ان میں بجلی پیدا کرنے اور تقسیم کرنے والے ادارے زیادہ ہیں کیونکہ ان کے نقصانات بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ فیصلہ کابینہ کی پرائیویٹائزیشن کمیٹی کے اجلاس میں ہواجس کی صدارت وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی ۔ جب ڈار صاحب پی ڈی ایم میں وزیر خزانہ تھے تب بھی وہی نجکاری کے معاملات دیکھتے تھے اب بھی وہی دیکھ رہے ہیں۔ مئی میں فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی آئی اے کو اگست تک اور ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کو جولائی تک پرائیواٹائز کر دیا جائے گا لیکن ابھی تک کامیابی حاصل نہیں ہو سکی اور مستقبل قریب میں بھی امید دکھائی نہیں دیتی۔ نجکاری جانے کب ہو گی‘ البتہ کمیٹی نے پرائیویٹائزیشن کمیشن کے لیے آٹھ ارب بیس کروڑ روپے کا بجٹ منظور کر لیا ہے‘ جس میں سے تقریبا ً94 فیصد بجٹ ایڈوائزر کے لیے مختص ہے۔ ہمارے سیاستدان اور بیوروکریٹ منصوبے مکمل کرنے کی نسبت بجٹ منظور کروانے میں زیادہ ایکٹو ہوتے ہیں۔ اس کی کیا وجوہات ہیں‘ قارئین بہتر جانتے ہیں۔
دوسری جانب چیئرمین ایف بی آر نے ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ میں نے 15 جولائی کو اپنے کالم میں اس حوالے سے ذکر کیا تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور پر جس سرکاری افسر کو تبدیل کرنا ہو تو اسے کہہ دیا جاتا ہے کہ وہ خود مستعفی ہو جائے۔ اس فیصلے کے اثرات اسی دن نظر آگئے تھے جب وزیراعظم نے چیئرمین ایف بی آر کو مخاطب کر کے کہا تھا کہ وہ استعفیٰ دے دیں گے لیکن دباؤ میں نہیں آئیں گے۔ خود مستعفی ہونے کی بات کر رہے تھے اور استعفیٰ چیئرمین کو دینا پڑ گیا۔ ممکنہ طور پر وجہ یہ بنی کہ چیئرمین ایف بی آر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں کہا تھا کہ آئی ایم ایف کے نئے اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔ آئی ٹی سسٹم لگنے میں ہی تقریباً ڈیڑھ سال لگ سکتا ہے۔ اس کے بعد ہدف حاصل کرنے کی طرف جا سکتے ہیں۔ ایف بی آر بہت اہم ادارہ ہے‘ ملکی آمدن اکٹھی کرنے کی ذمہ داری اس پر ہے۔ ایسے اداروں کے سربراہان کو تبدیل کرتے رہنے سے مشکلات بڑھتی ہیں۔ آئی ٹی سسٹم کے حوالے سے چیئرمین ایف بی آر نے حقائق سامنے رکھے تھے۔ زیادہ بہتر ہوتا کہ حقائق کو تسلیم کر کے اہداف حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی۔حالات جیسے بھی ہیں ایف بی آر اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ سیمنٹ سیکٹر میں دو جعلی کمپنیوں کے گیارہ ارب روپے ٹیکس فراڈ کا سراغ بھی لگایا ہے۔ نئے چیئرمین کی دوڑ میں بڑے نام شامل ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ نئے چیئرمین ایف بی آر آئی ٹی سسٹم کتنی مدت میں لگوائیں گے اور بجٹ کے ٹیکس اہداف کب تک حاصل کر سکیں گے۔