جب سے حکومت نے بجٹ پیش کیا ہے‘ مختلف تاجر تنظیمیں‘ صنعتی مالکان اور سیاسی جماعتیں مہنگائی اور ٹیکسز کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں۔ ابھی تک ان کے احتجاج سے مطلوبہ نتائج سامنے نہیں آ سکے اور ایف بی آر نے ریٹیلرز‘ دکانداروں اور چھوٹے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنے کے لیے 42 شہروں کے 25 ہزار 989 بازاروں کا ایڈوانس ٹیکس ریٹ مقرر کر دیا ہے‘ جو ماہانہ 100 روپے سے 60 ہزار روپے تک ہے۔ مارکیٹ اور لوکیشن کے حساب سے الگ الگ ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اس ٹیکس کے خلاف پورے ملک میں بدھ کے روز ایک روزہ ہڑتال کی گئی اور مزید ہڑتالوں کیلئے لائحہ عمل طے کیا جا رہا ہے۔ یہ ہڑتال کامیاب رہی اور پورے ملک میں اس کے اثرات دکھائی دیے۔ ملک کے تمام چیمبرز‘ مارکیٹیں اور تاجر تنظیموں نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاجروں کی جانب سے یہ ملکی تاریخ کی سب سے بڑی اور کامیاب ہڑتال تھی توشاید غلط نہ ہو ۔ پُرامن ہڑتالیں کسی بھی معاشرے کے مثبت پہلو کو اجاگر کرتی ہیں۔ قانون کو ہاتھ میں لے کر اپنے مطالبات منوانا غیر مہذب معاشروں کا طریقہ ہے۔ پاکستان کے کاروباری طبقے نے اس حوالے سے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومت کو اس طرح کے احتجاجوں پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے‘ بلکہ کوشش کی جانی چاہیے کہ احتجاج کرنے والوں کے جائز مطالبات تسلیم کیے جائیں۔ اس ہڑتال کے فوائد اسی وقت سامنے آ سکتے ہیں جب سرکار کچھ لچک کا مظاہرہ کرے۔ فی الحال اس سے ہونے والے مالی نقصانات واضح ہیں۔
ہڑتال ہمیشہ دو طرفہ نقصان کا سبب بنتی ہے۔ تاجروں نے بھی نقصان برداشت کیا ہے اور سرکار کو بھی اس سے نقصان ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ایک دن کی ہڑتال سے یومیہ 50 ارب روپے تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے واضح اعدادو شمار حکومت ہی دے سکتی ہے لیکن اندازہ ہے کہ سیلز ٹیکس کی مد میں حکومت ماہانہ تقریباً 400 سے 500 ارب روپے اکٹھا کرتی ہے۔ ایک دن کی مکمل ہڑتال سے تقریباً 10 سے 12 ارب روپے سیلز ٹیکس کا نقصان ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ پٹرولیم لیوی کی مد میں بھی نقصان ہوتا ہے۔ تقریباً 1200 ارب روپے سالانہ پٹرولیم لیوی کی مد میں وصول کیے جاتے ہیں۔ ایک مہینے میں تقریباً 100 ارب اور ایک دن میں تقریباً سوا تین ارب روپے۔ اگر اس طرح کے احتجاج مستقبل میں بھی جاری رہیں تو ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ حکومت کے لیے اب دو طرفہ مشکلات ہیں ‘اگر تاجروں کے مطالبات نہیں مانے جاتے تو ٹیکس آمدن کا نقصان ہو گا اور اگر مطالبات مان لیے جاتے ہیں تو آئی ایم ایف ناراض ہو سکتا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف سے تاجروں پر ٹیکس لگانے کا وعدہ کر رکھا ہے‘ اگر حکومت ایک قدم بھی پیچھے ہٹی تو آئی ایم ایف سے قرض کی منظوری مزید تاخیر کا شکار ہو سکتی ہے۔ سات ارب ڈالر کے قرض پیکیج کی منظوری پہلے 28 اگست کو ہونا تھی مگر شرائط پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ ستمبر میں آئی ایم ایف بورڈ سے منظوری حاصل کر لی جائے گی مگر حتمی طور پر کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ البتہ حکومتی منصوبوں سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وزارتِ خزانہ پوری کوشش کر رہی ہے کہ ستمبر میں آئی ایم ایف سے نئے پیکیج کی منظوری لے لی جائے۔ سرکار کاروباری طبقے کو ایک بڑا ریلیف دینے کی تیاری بھی کر رہی ہے جو اسی صورت ممکن ہے جب آئی ایم ایف نئے قرض پیکیج کی منظوری د ے دے۔ حکومت نے کاروباری طبقے‘ خصوصاً درآمدات اور برآمدات سے جڑے کاروباروں کے لیے کسٹم ڈیوٹی‘ ود ہولڈنگ ٹیکس اور ریگولیٹری ڈیوٹی کم کرنے کا پلان بنایا ہے۔ اگر یہ منصوبہ لانچ ہوا تو حکومت کو تقریبا 475 ارب روپے کی ریونیو کمی برداشت کرنا پڑ سکتی ہے۔ لیکن اس سے ملکی معیشت کو ٹیک آف کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اگرچہ بزنس کمیونٹی کا پہلا مطالبہ بجلی کی قیمتوں میں کمی ہے لیکن حکومت اس پوزیشن میں نہیں کہ فوری طور پر اس مطالبے کو پورا کر سکے۔ متبادل کے طور پر درآمدات پر ٹیکس میں ریلیف دینے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ اس کی مقبولیت میں کمی کی بڑی وجہ مہنگائی اور کاروبارکا بند ہونا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں صرف فیصل آباد میں سو سے زیادہ فیکٹریاں بند ہوئی ہیں۔ صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ اب کباڑ والے بھی فیکٹریوں کا سامان خریدنے کے لیے تیار نہیں۔ کاروبار بند ہونے کی وجہ سے جولائی اور اگست کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں ہو سکے اور ٹیکس وصولی مطلوبہ ہدف سے 99 ارب روپے کم رہی۔ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 1554 ارب روپے تھا جبکہ وصولی 1455 ارب روپے ہوئی۔ نئے چیئرمین ایف بی آر کا مؤقف ہے کہ ابھی ان کی ٹیم مکمل نہیں‘ ان کی پالیسیوں کے نتائج دو تین ماہ بعد ہی سامنے آ سکیں گے۔ میں نے گزشتہ کالموں میں بھی اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ چیئرمین ایف بی آر کی تبدیلی سے ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ حالات کے پیش نظر ایف بی آر نے ٹیکس ریلیف کے نئے منصوبے کی مخالفت کی ہے اور واضح کیا ہے کہ تاجروں کو ریلیف دیا گیا تو 13 ہزار ارب روپے کے ٹیکس اہداف حاصل نہیں کیے جا سکیں گے۔ آئی ایم ایف کے قریب سمجھے جانے والے کچھ وزرا اور مشیروں نے بھی اس سکیم کی مخالفت کی ہے۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف کو بھی اس منصوبے کا علم ہے اور یہ آئی ایم ایف پروگرام کی منظوری میں تاخیر کی ایک وجہ ہو سکتا ہے۔ حکومت اور آئی ایم ایف حکام میں طے پایا تھا کہ کاروباری طبقے کو کسی طرح کی سبسڈی یا ٹیکس ریلیف نہیں دیا جائے گا‘ اب یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے‘ اس کا درست اندازہ ایک ڈیڑھ ماہ ہی ہو سکتا ہے۔
ملکی معیشت کو ٹیک آف کرانے کیلئے برآمدات میں اضافہ ضروری ہے اور برآمدات میں اضافے کیلئے بندرگاہیں بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔ جس ملک میں زیادہ بندرگاہیں فعال ہوں وہاں تجارت کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ حکومت کو بھی ان کی اہمیت کا اندازہ ہے شاید اسی لیے وفاقی وزیر بحری امور نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت نے پبلک سیکٹر کی 50 فیصد تجارت گوادر پورٹ کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ گوادر پورٹ کو فعال بنانے کے لیے یہ فیصلہ خوش آئند ہے مگر سوال یہ ہے کہ سکیورٹی کی موجودہ صورتحال میں کون سی کمپنیاں گوادر پورٹ سے تجارت کی ہامی بھریں گی؟ دہشت گرد دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں‘ آئے روز حملے ہو رہے ہیں‘ چین بھی اب سکیورٹی معاملات پر سوالات اٹھا رہا ہے‘ ان حالات میں حکومت کاروباری طبقے کو کیسے یقین دلائے گی کہ ان کا مال گوادر پورٹ سے کراچی یا لاہور بحفاظت آ سکے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ اعلان قبل ازوقت کیا گیا ہے۔ ماضی میں بھی اس طرح کے دعوے کیے جاتے رہے لیکن عملاً کچھ نہیں ہو سکا۔ گودار بندرگاہ 2007ء میں مکمل ہو گئی تھی اور 2013ء میں اسے چین کے حوالے کیا گیا تھا۔ایک سال میں حد جہاز جو اس بندرگاہ پر لنگر انداز ہوئے‘ وہ 22 سے زیادہ نہیں جبکہ اس کے مقابلے میں نائیجیریا کی بندرگاہ لیکی‘ جو 2023ء میں فعال ہوئی‘ گزشتہ ایک سال میں 26 جہاز لنگر انداز کر چکی ہے۔ نائیجیریا نے یہ بندرگاہ چین ہی کی مدد سے تعمیر کی ہے اور اس کا رقبہ گودار کی نسبت کم ہے۔ ہمارے لیے اس میں سبق یہ ہے کہ اگر نائیجیریا جیسا ترقی پذیر ملک میں نئی بندرگاہ بہتر کارکردگی دکھا سکتی ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ ملک کی پبلک سیکٹر کی 50 فیصد تجارت گودار بندرگاہ سے کرنے کیلئے اس پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ یہاں پر سڑکوں اور ریل کی مطلوبہ سہولتیں میسر نہیں۔ 2015ء میں گوادار میں 1.6 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس پر درآمد نہیں ہو سکا۔ اس وقت کے سکیورٹی حالات میں گوادر میں مزید سرمایہ کاری کے امکانات کم ہیں‘لہٰذا گوادر بندرگاہ کو فعال کرنے کا بیان سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے ہی دکھائی دیتا ہے۔