ترسیلاتِ زر اور ہمسایہ ممالک سے تجارت کے اثرات

کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں صرف برسر اقتدار سیاسی جماعت کی پالیسیاں اہمیت نہیں رکھتیں بلکہ اپوزیشن کا کردار بھی اہم ہوتا ہے۔ اگر اپوزیشن ملک میں سول نافرمانی کی تحریک کی حمایت کرے یا بیرونِ ملک سے ڈالرز ملک میں بھیجنے سے روکنے کی مہم چلائے تو اس سے اصل نقصان تو ملک کا ہی ہوگا۔ شاید بیرونِ ملک مقیم پاکستانی یہ سمجھ چکے ہیں‘ اس لیے انہوں نے دسمبر میں تین ارب ڈالرز سے زیادہ ترسیلات بھیجیں جو پچھلے سال دسمبر کی ترسیلات سے تقریباً 29 فیصد اور نومبر 2024ء کی نسبت تقریباً چھ فیصد زیادہ تھیں۔ پچھلے چھ ماہ میں تقریباً اٹھارہ ارب ڈالرز پاکستان آئے جو 2023ء کے انہی مہینوں میں وصول ہونے والی ترسیلات سے تقریباً 33 فیصد زیادہ ہیں اور امید کی جا رہی ہے کہ آنے والے مہینوں میں ترسیلات میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ سب سے زیادہ ترسیلات سعودی عرب سے موصول ہوئیں‘ اس کے بعد متحدہ عرب امارات اور برطانیہ کا نمبر ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی اکثریت مزدوری سے جڑی ہے۔ ان کی آمدن بھی زیادہ نہیں ہوتی اس لیے خاندان کو بیرونِ ملک بلانے کی استطاعت بھی نہیں ہوتی۔ بیرونِ ملک پاکستانیوں کی اکثریت کے خاندان پاکستان میں آباد ہیں‘ اگر انہوں نے ترسیلات بھیجنا بند کر دیں تو پاکستان میں ان کے خاندان زندگی کیسے گزاریں گے؟ اس وقت پاکستان کو ڈالرز کی اشد ضرورت ہے تاکہ روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جائے اور قرضوں کی ادائیگی آسانی سے ہو سکے۔ اگلے چھ ماہ میں پاکستان کو تقریباً پانچ ارب ڈالرز سے زائد کے قرض واپس کرنے ہیں۔ کچھ قرض رول اوور ہوں گے۔ متحدہ عرب امارات نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ پاکستان کے قرض رول اوور کر دیں گے۔ اسی مہینے دو قرض رول اوور ہو جائیں گے۔ لیکن ذہن نشین رہے کہ رول اوور ہونے والے قرض بھی جلد ادا کرنا ہوں گے۔ پچھلے سال میں قرض اتارنے اور ڈالر ذخائر کو مستحکم رکھنے کے لیے سٹیٹ بینک نے نو ارب ڈالرز اوپن مارکیٹ سے خریدے تھے۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا تو پاکستان کو مزید قرض لینا پڑ سکتا تھا۔ پہلے ہی پاکستان کا قرض 70 ہزار 366 ارب تک پہنچ چکا ہے جو تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔ پچھلے نو ماہ میں قرضوں کا حجم 5556 ارب روپے بڑھ چکا ہے۔ اگر نو ارب ڈالرز بیرونی سرمایہ کاری یا بیرون ملک ترسیلات سے حاصل ہو جاتے تو شاید روپے کی قدر 40 سے 50 روپے مزید مستحکم ہو جاتی۔ سٹیٹ بینک کی جانب سے نو ارب ڈالرز کی خریداری کو مختلف زاویوں سے دیکھا جا رہا ہے۔ مہنگائی میں کمی‘ سٹاک ایکسچینج میں بہتری کو ڈالر ریٹ میں استحکام سے جوڑا جا رہا ہے لیکن اس کی قیمت روپے کی قدر میں اضافہ نہ کر کے ادا کی گئی۔ موجودہ حالات میں شاید یہ قیمت ادا کرنے کے علاوہ کوئی حل نہ تھا۔
اچھی خبر یہ ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی تعلقات بہتر کرنے کے لیے ایف پی سی سی آئی کا وفد بنگلہ دیش گیا ہے۔ تیس افراد کے وفد میں اکثریت ایکسپورٹرز کی ہے۔ اس وقت پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارت کا حجم ایک ارب ڈالر سے بھی کم ہے۔ بنگلہ دیش پھلوں اور سبزیوں کی زیادہ ضرورت بھارت سے پوری کرتا رہا ہے لیکن اب امید کی جا رہی ہے کہ پاکستانی چاول اور پیاز کی بڑی مقدار بنگلہ دیش برآمد ہو سکے گی۔ ایک اندازے کے مطابق بنگلہ دیش کے ساتھ تجارت تقریباً تین ارب ڈالرز تک پہنچ سکتی ہے۔ اس حوالے سے بنگلہ دیش کی جانب سے بھی اچھا رسپانس ملنے کی اطلاعات ہیں۔ کاروباری افراد کے لیے بنگلہ دیش حکومت نے ویزا شرائط آسان کر دی ہیں۔ اب پاکستانی بزنس مین کو بنگلہ دیش کا ویزا لینے کے لیے ڈھاکہ سے کلیئرنس نہیں لینا پڑے گی۔ اس وقت بنگلہ دیش شاید ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں پاکستان کی برآمدات‘ درآمدات سے زیادہ ہیں۔ برآمدات تقریباً 700 ملین ڈالرز اور درآمدات تقریباً 60 ملین ڈالرز ہیں۔ بنگلہ دیش تقریباً 18 کروڑ لوگوں کی مارکیٹ ہے جس سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے‘ لیکن اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ برآمدات بڑھانے کے بجائے درآمدات میں اضافہ نہ ہو جائے۔ بنگلہ دیش میں بجلی کا ریٹ پاکستان سے کم ہے‘ مزدور بھی پاکستان کی نسبت کم ریٹ پر دستیاب ہیں اور شرح سود بھی پاکستان کی نسبت کم ہے اس لیے ان کی پیداواری لاگت پاکستان کی نسبت کم ہے۔ صنعتی ترقی میں بنگلہ دیش پاکستان سے آگے ہے۔ پاکستان میں پیدواری لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے زیادہ زور چین سے درآمدات پر ہے۔ بنگلہ دیش چین کے بعد دوسرا بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہے اور بہت سے پاکستانی ٹیکسٹائل یونٹس بنگلہ دیش منتقل ہو رہے ہیں۔ بڑھتے ہوئے تجارتی تعلقات کو اس نظر سے بھی دیکھا جانا ضروری ہے۔
جنوبی کوریا کے ساتھ بھی تجارتی مراسم بڑھانے کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جنوبی کوریا کے وزیر تجارت نے ایک خاکہ پیش کیا ہے جس میں جنوبی کوریا کی صنعتوں کو شمال مشرقی ایشیائی ہمسایہ ممالک سے پاکستان منتقل کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان اور جنوبی کوریا کے درمیان تجارت تقریباً ایک ارب تیس کروڑ ڈالرز ہے جس میں بڑا حصہ جنوبی کوریا سے درآمدات کا ہے۔ پاکستانی اجناس جنوبی کوریا برآمد کرنے کے لیے بہتر پالیسی اور خاکہ پیش کیے جانے کی ضرورت ہے۔ بارٹر ٹریڈ کے معاہدے بھی کیے جا سکتے ہیں۔ پاکستان سرمایہ کاری بورڈ نے خصوصی اقتصادی زونز کے قیام کے لیے لینڈ لیز پالیسی کی منظوری بھی دے دی ہے۔ اس طرح کے فیصلے بیرونی سرمایہ کاری کا ماحول بنانے میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش اور جنوبی کوریا سے تو تجارتی تعلقات بہتر کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن افغانستان ٹریڈ کے حوالے سے سمگلنگ ایک مرتبہ پھر بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ ایف بی آر نے افغانستان بھیجے جانے والے کنٹینرز کی سیٹلائٹ سے مانیٹرنگ ختم کرکے چار کمپنیوں کے ذریعے مانیٹرنگ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اطلاعات ہیں کہ یہ کمپنیاں کنٹینرز کی جدید ٹریکنگ کے لیے اہل نہیں ہیں۔ ٹرانسپورٹرز بھی احتجاج کرتے دکھائی دیتے ہیں کیونکہ انہیں تقریباً چھ ہزار روپے ہر کنٹینر پر اضافی دینے پڑ سکتے ہیں۔ ابھی تک یہ واضح نہیں کہ اس فیصلے کی ضرورت کیوں محسوس کی گئی۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ بیورو کریٹس اور سیاست دان اپنے دوستوں کو نوازنے کے لیے اس طرح کے فیصلے کرتے ہیں۔ یہ چار کمپنیاں کن کی ہیں اور ان سے کن بنیادوں پر معاہدہ کیا گیا‘ عوام کے سامنے حقائق لانے کی ضرورت ہے۔ اطلاعات تو یہ بھی ہیں کہ کنٹریکٹ دیتے وقت رُولز پر عمل نہیں کیا گیا۔ اگر اسی طرح غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جاتا رہا تو اشیا کی سمگلنگ کے ساتھ ڈالر کی سمگلنگ بھی بڑھ سکتی ہے اور ڈالر کنٹرول سے باہر ہو سکتا ہے۔ ایک طرف وزیر خزانہ کہہ رہے ہیں کہ وہ شرح نمو میں اضافہ کرنے کے لیے درآمدات بڑھانے کی کھلی چھوٹ نہیں دے سکتے کیونکہ اس طرح شرح نمو بڑھنے سے بیلنس آف پیمنٹ کا توازن خراب ہو سکتا ہے‘ نتیجتاً ڈالر کی مانگ بڑھنے سے ریٹ بڑھ سکتا ہے اور دوسری طرف ان کی ناک کے نیچے بارڈر سمگلنگ کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔ وزیر خزانہ سے گزارش ہے کہ معاملے کی نزاکت کو سمجھیں اور اس معاملے پر ایف بی آر سے استفسار کریں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں