معدنیات‘ بیرونی سرمایہ کاری اور چینی مافیا

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر اور امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی ملاقات کو سفارتی حلقے بڑی اہم پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ امریکی صدر ماضی میں پاکستان سے تجارت بڑھانے کے اعلان کرتے رہے ہیں۔ امریکی صدر نے پاک بھارت جنگ روکنے پر فیلڈ مارشل کا شکریہ ادا کیا اور ایران‘ مشرق وسطیٰ پر بھی دونوں میں بات چیت ہوئی۔ البتہ اس ملاقات کو معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔اس ملاقات سے ایک روز قبل فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے امریکہ میں اوور سیز پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ یوکرین کے 400 ارب معدنی ذخائر حاصل کرنے کا خواہشمند ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایک ہزار ارب ڈالر سے زائد کے معدنی ذخائر ہیں‘ امریکہ کو چاہیے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کرے۔ امریکہ کو سالانہ 10 سے 12 ارب ڈالر منافع ہو سکتا ہے اور یہ سلسلہ 100 سال تک جاری رہ سکتا ہے۔
عوامی سطح پر یہ رائے تقویت اختیار کر رہی ہے کہ اگر یہ معاہدہ ہو جاتا ہے تو ملک میں معاشی انقلاب آ سکتا ہے۔ دس برس قبل آئل اینڈ گیس میں سرمایہ کاری کو ترجیح دی جاتی تھی لیکن اب پوری دنیا میں معدنیات میں زیادہ سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔ پاکستان میں معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ خاص طور پر صوبہ بلوچستان میں معدنیات کے بڑے ذخائر ہیں۔ اگست 2023ء میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل نے پاکستان منرلز سمٹ کرایا تھا۔ ان دو سالوں میں معدنیات میں سرمایہ کاری کے لیے کئی کمپنیاں پاکستان آ چکی ہیں۔ دوسری کانفرنس اپریل 2025ء میں ہوئی تھی۔ امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ‘ سعودی عرب‘ فن لینڈ‘ ڈنمارک اور کینیا سمیت کئی ممالک سے تین سو سے زائد سرمایہ کاروں نے اس کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ پاکستان کو معدنیات سے فائدہ اٹھانے کیلئے جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے۔ امریکہ کے پاس مائننگ کے حوالے سے جدید ٹیکنالوجی ہے اور دنیا کی سب سے بڑی کاپر اور گولڈ مائننگ کمپنی بھی امریکی ہے۔ پاکستان میں کاپر (تانبے) کے ذخائر تقریباً 6.5 ارب ٹن ہیں اور عالمی مارکیٹ میں ایک ٹن کاپر کی قیمت تقریباً 13ہزار ڈالر ہے۔ بلوچستان کے علاقوں خاران‘ قلعہ عبدللہ‘ قلات اور پشین کے علاوہ کرم وادی میں اینٹیمونی (Antimony) کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔ ایک میٹرک ٹن اینٹیمونی کی قیمت تقریباً 60 ہزار ڈالر ہے۔ ریکوڈک میں بیری گولڈ کے پاس 15 سونے کے ذخائر ہیں۔ ان میں سے پانچ چھوٹے ذخائر سے اس کی آمدن کا تخمینہ 73 ارب ڈالرز ہے۔ اس حساب سے بقیہ دس ذخائر کو ملا کر منافع تین سو ارب ڈالر تک پہنچ جاتا ہے۔ چترال اور چاغی کے جنوب میں ایران بارڈر کے پاس ہاموں مشخیل میں لیتھیم کے ذخائر موجود ہیں۔ خضدار میں لیڈ اوردالبدین میں آئرن کے وافر ذخائر ہیں۔ان کے علاوہ زنک‘نکل‘ مولیبڈیلم‘ میگنیز‘ کوبالٹ سمیت کئی اہم معدنیات پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔ اگر قیمتی پتھروں (جیمز) کی بات کریں تو گلگت بلتستان اور خیبرپختونخوا میں ان کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ نیلم وادی میں سفائر (نیلم)‘ گلگت اور ہنزہ میں روبی (یاقوت)‘ سوات میں زمرد اور شگر وادی میں ایکوامیرین کے ذخائر ہیں۔ سعودی عرب آرامکو میں آئل ڈرلنگ کیلئے بارائٹ ( Barite) خضدار سے جاتا ہے۔ مہمند ایجنسی اور چترال میں نیفرائٹ بہت وافر مقدار میں ہے۔ روس اور چین میں اس کی مانگ بہت زیادہ ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ مقامی لوگ پرانے طریقوں سے بلاسٹ کرتے ہیں جس سے بیشتر معدنیات ضائع ہو جاتی ہیں اور کوالٹی بھی قائم نہیں رہتی۔ اگر امریکہ مقامی آبادی کی تربیت اور ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے ساتھ معدنیات میں سرمایہ کاری کرتا ہے تو پاکستان کو اس کا بہت زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد معدنیات صوبوں کی ملکیت ہیں‘لہٰذا یہ شکایات بڑھنے لگیں کہ سرمایہ کار صوبوں سے رابطہ کرتے ہیں تو کئی ماہ تک جواب نہیں دیا جاتا‘ جیسا کہ سرکاری دفتروں میں عمومی طور پر ہوتا ہے۔ ایس آئی ایف سی کے قیام کے بعدصوبوں‘ وفاق اور فوج کے درمیان ایک نیٹ ورک بنایا گیا اور ایک طرح سے ون ونڈو آپریشن کی سہولت مل گئی‘ جس سے آسانیاں پیدا ہونے کی امید ہے۔ موجودہ حالات میں امریکہ کے ساتھ تجارت میں اضافہ ہو سکتا ہے اور کچھ دیگر معاہدے بھی ہو سکتے ہیں۔ البتہ سرمایہ کاری ایک لمبا منصوبہ ہے جس کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔ اس وقت صدر ٹرمپ دنیاکو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ امریکہ میں سرمایہ لگائیں۔ ان حالات میں امریکہ کا پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا مشکل ہو سکتاہے۔ سرمایہ کاری نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ناگفتنی ہیں۔ پاکستان سب سے زیادہ برآمدات امریکہ کو کرتا ہے لیکن پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے امریکہ کا ٹریک ریکارڈ اچھا نہیں۔ اگر پاکستان امریکہ کے سامنے اپنا کیس درست انداز میں پیش کرے تو بھاری امریکی سرمایہ کاری پاکستان آ سکتی ہے‘ لیکن یہ معاملہ محض امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات سے حل ہونا مشکل ہے‘ مقامی سطح پر بھی کچھ درست اقدامات کی ضرورت ہے۔ 2025ء میں منرلز پالیسی بنائی گئی لیکن گلگت حکومت اور گلگت چیمبر آف کامرس کو اعتماد میں نہیں لیا گیا حالانکہ یہ بڑے سٹیک ہولڈرز ہیں۔ اگر اسی طرح پالیسیاں بنائی جائیں گی تو امریکہ تو دور‘ شاید پاکستانی بھی مقامی سطح پر سرمایہ کاری کرنے سے گریز کریں۔ اس وقت بھی مقامی سرمایہ کار زیادہ خوش دکھائی نہیں دیتے بلکہ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ پاکستان میں کھربوں ڈالر کے معدنی ذخائر کا دعویٰ درست نہیں۔ معدنی ذخائر کی اصل مالیت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب مائننگ کے معاہدے کیے جاتے اور مائننگ آپریشن کی شروعات ہوتی ہے۔ کھدائی کے بعد ہی یقین سے کوئی دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔ ابھی اس حوالے سے شاید دس فیصد بھی کام نہیں ہوا۔دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کہ اگر واقعی اتنے زیادہ ذخائر موجود ہیں تو امریکہ سے پہلے چین کو پاکستانی معدنیات میں سرمایہ کاری کی جلدی ہوتی جو پوری دنیا میں معدنیات میں سرمایہ کاری کر رہا ہے لیکن چین اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لے رہا۔افغانستان میں لیتھیم کے ذخائر بروقت حاصل کرنے کے لیے چین نے تقریباً دس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اگر افغانستان میں چین کی سرمایہ کاری ہو رہی ہے توپاکستان میں کیوں نہیں؟
ایک طرف بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانے کے لیے اقدامات ہو رہے ہیں اور دوسری طرف سٹیٹ بینک بیرونی سرمایہ کاری پر ٹیکس لگانے کی تجویز دے رہا ہے۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ میں رقم رکھنے کی کم سے کم حد چھ ماہ سے ایک سال مقرر کرنے کی تجویز ہے۔ اس کی وجہ روپے پر حالیہ دبائو بتائی جا رہی ہے جبکہ اس دبائو کی وجہ ایران‘ اسرائیل جنگ کے سبب مہنگا ہونے والا فیول ہے نہ کہ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹ ایک کامیاب پروجیکٹ ہے جس میں بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے تقریباً دس ارب ڈالرجمع کروا رکھے ہیں۔ یہ رقم پاکستان کے کُل حقیقی زرمبادلہ ذخائر کے برابر ہے۔ حکومت کو ایران‘ اسرائیل جنگ کی آڑ میں ریاستی مفادات کو نقصان پہنچانے والوں پر خصوصی نظر رکھنی چاہیے۔
ہر سال کی طرح اس سال بھی ایک نیا شوگر سکینڈل سامنے آیا ہے۔ پہلے چینی برآمد کر کے پیسہ بنایا گیا اور اب چینی درآمد کر کے پیسہ بنایا جائے گا۔ جب چینی برآمدکی گئی تو اس وقت ریٹ 145 روپے فی کلو تھا اور آج ریٹ 185 روپے فی کلو سے بھی زیادہ ہے۔ ذرائع کے مطابق ملک میں اس وقت 28 لاکھ ٹن چینی موجود ہے جو نومبر تک کی ضرورت کے لیے کافی ہے‘ اضافی درآمد کی ضرورت نہیں لیکن دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ درآمد سے چینی سستی ہو جائے گی۔ عمومی تاثر یہ ہے کہ اس وقت چینی کی قلت جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے۔ اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں کہ چینی کی مد میں 40 روپے فی کلو سے زائد رقم کس کی جیب میں گئی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں