دس جون کو مالی سال 2025-26ء کا بجٹ پیش کیا گیا تھا جس پر دونوں ایوانوں کی کمیٹیوں میں بحث ہوئی اور اب چند ترامیم کے ساتھ بجٹ منظور کر لیا گیا ہے۔ بزنس کمیونٹی کی جانب سے حتمی بجٹ اور پیش کیے گئے بجٹ میں بڑی تبدیلیوں کے دعوے کیے جا رہے تھے لیکن عام لوگ زیادہ پُرامید نہیں تھے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ سرکار نے ٹیکس اکٹھا کرنے کے لیے عوام ہی پر دباؤ بڑھانا ہے۔ اگر ایک جانب سے ٹیکس کم کیا جائے گا تو دوسری طرف سے بڑھا کر حساب برابر کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ رائے کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے لیکن بزنس کمیونٹی کو پیپلز پارٹی سے توقعات تھیں کہ وہ ان کی خواہش کے مطابق تبدیلیاں کروانے میں کردار ادا کر سکتی ہے۔ تنخواہ دار طبقے کا مطالبہ تھا کہ تنخواہوں پر ٹیکس ریٹ مزید کم کیا جائے لیکن منظورکئے جانے والے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے کو کوئی خاص ریلیف نہیں مل سکا بلکہ سیونگ اکاؤنٹ سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح پانچ فیصد بڑھا دی گئی ہے۔ اس سے عام آدمی اور تنخواہ دار طبقہ زیادہ متاثر ہوگا کیونکہ تنخواہ دار طبقے کو کاروبار کرنا نہیں آتا اس لیے وہ اپنی تھوڑی بہت سیونگز بینک میں رکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ دوسرا اہم مطالبہ سولر پینلز پر ٹیکس کی شرح کم کرنے کا تھا جسے منظور کر لیا گیا اور سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کر کے 10فیصد کر دیا گیا۔ پالیسی میں اچانک بڑی تبدیلیاں معیشت کو نقصان پہنچاتی ہیں اور سرکار پرکاروباری طبقے کا اعتماد کم ہو جاتا ہے۔ سولر پینلز پر 18 فیصد سیلز ٹیکس لاگو کرنے سے قیمتوں میں دو سے تین لاکھ روپے اضافہ ہو گیا تھا‘ پورٹ پر جلدی کلیئرنس کے نام پر رشوت کا ریٹ بھی بڑھ گیا اور جن کلائنٹس کے ساتھ پرانے ریٹ پر معاہدے کیے گئے تھے انہیں پورا کرنے میں اب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ تحریک انصاف کے دور میں اربوں ڈالرز کی جدید ٹیکسٹائل مشینری منگوائی جا رہی تھی لیکن اچانک کلیئرنس روکنے کے فیصلے نے ملک کو اربوں ڈالرزکا نقصان پہنچایا۔
یہ توقع بھی کی جا رہی تھی کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو مزید ٹیکس چھوٹ دی جائے گی لیکن حتمی منظور شدہ بجٹ میں رئیل اسٹیٹ کے حوالے سے کوئی تبدیلی شامل نہیں ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر کو زیادہ ریلیف دیگر صنعتوں‘ خصوصاً برآمدات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ بجٹ 2025-26ء میں پہلے ہی خاصا ریلیف دے دیا گیا ہے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ رئیل اسٹیٹ کے بجائے صنعتی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے لیے کوشاں ہے۔ ممکن ہے کہ یہ دعویٰ درست ہو لیکن اس مقصد کے حصول کے لیے عملی طور پر جو کام کیے جانے چاہئیں وہ ہوتے دکھائی نہیں دے رہے۔ صنعتی ترقی اس وقت ممکن ہوتی ہے جب شرح سود خطے کے دیگر ممالک کے برابر یا کم ہو۔ اس وقت شرح سود 11 فیصد ہے جبکہ ہمسایہ ممالک میں شرح سود تقریباً پانچ سے چھ فیصد ہے۔ کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی تین سے چھ فیصد شرح سود سے ممکن ہو سکتی ہے‘ تاکہ سستے قرض مل سکیں اور خرچ کم ہو۔ 11 فیصد شرح سود سے بینک فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ سرکار بھی فنڈز صنعتی شعبوں میں خرچ کرنے کے بجائے بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دے رہی ہے اور بینک عام آدمی کو قرض دینے کے بجائے سرکار کو قرض دینے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق بینکوں کے تقریباً 95 فیصد سے زیادہ فنڈز حکومت بطور قرض لے جاتی ہے۔ ایسے حالات میں نجی کاروبار کرنے کے لیے قرض کہاں سے ملے گا اور صنعتی ترقی کیسے ممکن ہو سکے گی؟ اس سود کی ادائیگی تقریباً آٹھ ٹریلین سے زیادہ ہے جس میں سے تقریباً سات ٹریلین سے زیادہ مقامی بینکوں کو جاتا ہے۔ یہ شرح تقریباً 87 فیصد بنتی ہے۔ جس کی وجہ سے بینکوں کے منافع میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ حکومت کا مؤقف ہے کہ شرح سود کم کرنے سے درآمدات میں ہوشربا اضافہ ہو سکتا ہے اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ سکتا ہے جس کے ساتھ ڈالر ریٹ بھی بڑھ سکتا ہے۔ پہلے ہی سٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول کرنے کے لیے مارکیٹ سے سب سے زیادہ ڈالرز خرید رہا ہے۔ تقریباً آٹھ ارب سے زائد ڈالرز مارکیٹ سے خریدے جا چکے ہیں۔ یہ خدشات درست ہیں لیکن اگر بہتر پالیسی اپنائی جائے تو شرح سود کم ہونے کے بعد کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رکھا جا سکتا ہے۔ امپورٹ پر چیک اینڈ بیلنس قائم رکھا جائے اور سٹیٹ بینک کی منظوری کے بغیر امپورٹس کلیئر نہ کی جائیں‘ قرض ایسی انڈسٹریز کے لیے دیے جائیں جو امپورٹ کے بجائے ملک میں موجود خام مال استعمال کرے‘ اس طرح سستے قرض درآمدات کے بجائے بہتر انداز میں استعمال ہو سکتے ہیں اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
اس وقت ملکی زرمبادلہ کے ذخائر تین سال کی کم ترین سطح پر آ چکے ہیں۔ حکومت کے پاس تقریباً نو ارب ڈالرز کے ذخائر رہ گئے ہیں جن میں سے تقریباً پانچ ارب ڈالرز پرائیویٹ بینکوں میں ہیں۔ بقیہ چار ارب ڈالر بھی چین اور سعودی کی امانت ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت ہے جب سالانہ ترسیلات زر تقریباً 38 ارب ڈالرکو چُھو رہی ہیں اور برآمدات تقریباً 32 ارب ڈالرز کے قریب ہیں۔ ترسیلاتِ زر میں تقریباً 13 فیصد‘ برآمدات میں تقریباً چھ فیصد اضافہ ہوا ہے اور روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں تقریباً دس ارب ڈالر آ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بلومبرگ انٹیلی جنس کے مطابق پچھلے بارہ ماہ میں پاکستان سب سے زیادہ معاشی بہتری والے ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔ اس کے باوجود آئی ایم ایف کا 14 ارب ڈالر ذخائر کا ہدف حاصل نہیں ہو سکا ۔ اس کی وجہ قرضوں اور سود میں ہر گزرتے دن کے ساتھ ہونے والا اضافہ ہے۔ اس ماہ تقریباً دو ارب ڈالرز سے زائد چینی قرض ادا کیا گیا۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید چینی بینکوں کی جانب سے دباؤ تھا اور انہوں نے مزید مہلت نہیں دی۔ اگر شرح سود چھ فیصد تک کر دی جائے تو تقریباً تین ٹریلین کا سود فوری کم کیا جا سکتا ہے اور یہ رقم ملکی صنعتی ترقی میں استعمال کی جا سکتی ہے۔
کاروباری طبقے کا سب سے بڑا مطالبہ تھا کہ 37AA کا قانون ختم کیا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری کی مداخلت کے بعد قانون میں یہ تبدیلی کی گئی ہے کہ اگر ملزم انکوائری میں شامل ہو گیا تو اسے انکوائری مکمل ہونے تک گرفتار نہیں کیا جا سکتا اور اس قانون کو صرف سیلز ٹیکس تک محدود کر دیا گیا ہے۔ انکم ٹیکس فراڈ پر یہ قانون لاگو نہیں ہو گا۔ یہ فیصلہ بہتر دکھائی دے رہا ہے لیکن ایف بی آر کو ڈیجیٹل کیے بغیر اور آفیسرز کی نوٹسز میں مداخلت کو روکے بغیر ٹیکس کا حصول مشکل ہو سکتا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ انکم ٹیکس آفیسرز کے 95 فیصد سے زیادہ ٹیکس نوٹسز غلط ہوتے ہیں‘ شاید یہی وجہ ہے کہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی ٹیم عدالتوں میں زیادہ تر کیسز ہار جاتی ہے۔ تقریباً ساڑھے چار ہزار ارب روپے کے ٹیکس کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ اس کی ایک وجہ ٹیکس ڈپارٹمنٹ کے پاس مطلوبہ اہلیت کا نہ ہونا بھی ہے۔ غلط نوٹس پر ایک باعزت شہری کو گرفتار کرنے سے جو عزت‘ مال اور وقت کا نقصان ہو گا اس کی ذمہ داری بھی آفیسر پر ڈالے جانے کی ضرورت ہے‘ لیکن اس حوالے سے قانون سازی نہیں کی گئی۔ اگر ایف بی آر آفیسرز کے اختیارات پر چیک اینڈ بیلنس نہ رکھا گیا تو آنے والے دنوں میں ٹیکس کرپشن کے بڑے سیکنڈلز آنے کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔