جب ملک میں ڈالر کی قدر بڑھتی ہے تو سب سے زیادہ متوسط طبقے کے مسائل بڑھتے ہیں۔ ایلیٹ کلاس کی اکثر یت کو ڈالر ریٹ بڑھنے سے فائدہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی آمدن اور اثاثے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ غریب طبقہ پہلے ہی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہوتا ہے‘ ضرورت پڑنے پر وہ مانگ کر یا معیارِ زندگی پر مزید سمجھوتا کرکے وقت گزار لیتا ہے لیکن متوسط طبقہ تو مانگ بھی نہیں سکتا اور معیارِ زندگی پر مزید سمجھوتا کرنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔ ڈالر کے حساب سے ان کی آمدن تو بڑھتی نہیں لیکن اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں اضافہ ایک طرح سے عوام کا معاشی قتل ہے۔ اگر 2019ء میں آپ کے پاس دس لاکھ روپے تھے تو ڈالر کی قدر بڑھنے کی وجہ سے آج ان کی قدر کم ہو کر تقریباً تین لاکھ روپے رہ گئی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لٹیرا کون ہے؟ میں نے پچھلے کالم میں ڈالر ریٹ بڑھنے کی وجوہات‘ مافیاز کے نیٹ ورک اور اسے روکنے کے طریقہ کار سے متعلق تفصیل سے لکھا تھا۔ خفیہ ایجنسیوں نے ان مافیاز کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے جس سے ڈالر نیچے آنا شروع ہو گیاہے۔ اگر اس کریک ڈاؤن کے باوجود ڈالر کی قیمت نہ گرتی تو یہ کہا جا سکتا تھا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ حقیقی ہے۔ کریک ڈاؤن کے بعد ڈالر کی قدر میں کمی اس دعوے کو تقویت دیتی ہے کہ ڈالر کی قیمت میں اضافہ مصنوعی تھا اور جان بوجھ کر قیمت بڑھائی جا رہی تھی۔ سٹیٹ بینک نے آج بینکوں اور منی ایکسچینج کرنے والوں کا اجلاس بلایا ہے۔ اس اجلاس میں بھی ڈالر کی قدر کو مزید کم کرنے پر زور دیا جا سکتا ہے۔ ممکنہ طور پر ایجنسیوں کے نمائندے بھی اس اجلاس میں مدعو ہوں گے تاکہ بینکوں اور منی ایکسچینج کرنے والوں کو واضع پیغام دیا جا سکے۔ بینک آج کل شور مچاتے دکھائی دیتے ہیں کہ کرنسی ایکسچینج کرنے والوں کو بینکوں کے برابر لانے سے ان کا جو منافع کم ہوا ہے‘ اسے کیسے پورا کیا جائے گا؟ یہ سوال انتہائی غیرمناسب ہے۔ 2022ء میں بینکوں نے ڈالر ریٹ میں ہیر پھیر سے جو منافع کمایا‘ اس پر بینکوں کو سزا نہیں دی گئی۔ اگرموجودہ سیکنڈل کی بھی انکوائری ہو تو اس میں بینک مجرم قرار پا سکتے ہیں۔ چوری اور اوپر سے سینہ زوری اور الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے والے محا ورے شاید اسی صورتحال کیلئے بنے ہیں۔ حالیہ کریک ڈاؤن بروقت ہوا ہے۔ اصل لٹیرے وہ ہیں جنہوں نے اس کریک ڈاؤن کے راستے میں روڑے اٹکائے۔ وہ کون ہیں؟ اس بارے میں عوام بخوبی آگاہ ہیں۔ اگر ماضی میں بھی ڈالر ریٹ بڑھنے پر اس طرح کی کارروائیاں کی جاتیں تو ڈالر کی قدر کو روکا جا سکتا تھا۔ 2015ء میں گردشی کرنسی تقریباً 2500ارب روپے تھی جو آج بڑھ کر تقریباً 11ہزار ارب روپے ہو چکی ہے۔ یعنی دس سال میں اس میں تقریباً 330فیصد اضافہ ہوا ہے‘ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جو راشن پہلے پچاس ہزار روپے میں آ جاتا تھا‘ آج ڈیڑھ لاکھ میں بھی نہیں آتا۔ اس طرح بجلی کا بل دس ہزار روپے سے بڑھ کر اب پچاس سے ساٹھ ہزار روپے تک ہو چکا ہے۔ اس دوران شاہانہ سرکاری اخراجات‘ سبسڈی اور سود کی ادائیگیوں اور خسارے کم کرنے کے نام پر خوب نئی کرنسی چھاپی گئی۔ اس عرصے میں پانچ وزیراعظم تبدیل ہوئے‘ اور موجودہ حالات کے ذمہ دار بھی شاید یہی ہیں۔
ملک میں مضبوط اور شفاف اقتصادی نظام لاگو کیے بغیر ملک معاشی لحاظ سے ترقی نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس حوالے سے ایف بی آر کو خام مال کی تیاری سے صارف کی خریداری تک کے عمل کو ایک ہی سسٹم کے تحت منظم کرنے کیلئے کہا ہے۔ انہوں نے عالمی معیار کے جدید ڈیجیٹل ایکو سسٹم کی تشکیل کی منظوری بھی دی ہے۔ اس سے ویلیو چین کی ڈیجیٹل نگرانی کی جا سکتی ہے۔ اگرچہ اس نظام کی مخالفت ہو رہی ہے لیکن مخالفت کرنے والوں کے دلائل زیادہ مضبوط نہیں ۔ اسی نظام کے تحت سیلز ٹیکس انوائسوں کو ڈیجیٹل کیا جائے گا جس پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس میں اعتراض اٹھایا جا رہا ہے کہ اس سے کاروباری راز افشا ہونے کا خدشہ ہے۔ حکومت کو انوائسوں کی درست معلومات نہ دینے کی یہ وجہ انتہائی بودی ہے۔ پچھلے مالی سال میں تقریباً 857ارب روپے کی فلائنگ انوائسیں پکڑی گئیں اور یہ اصل چوری کا شاید 30 فیصد بھی نہیں۔ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے لیکن اگر دشمن سے بھی کوئی کام کی بات سیکھنے کو ملے تو ضرور سیکھنی چاہیے۔ بھارت میں اگر آپ پھل کا ٹھیلا بھی لگانا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی بینک اکاؤنٹ کھلوانا لازم ہے۔ ادائیگی کیلئے کیو آر کوڈ کی سہولت موجود ہوتی ہے۔ عام شہری ٹھیلے سے اگر سیب خریدتا ہے تو کیو آر کوڈ سکین کرکے ادائیگی کر سکتا ہے۔ ایک ہی لمحے میں ٹھیلے والے کو اس کی رقم مل جاتی ہے اور ٹیکس کی رقم سرکاری خزانے میں منتقل ہو جاتی ہے۔ اس سے ٹیکس چوری میں کمی آئی ہے۔ سرکار نے ٹیکس ریٹ کم کر دیے ہیں کیونکہ ٹیکس بیس بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ نظام رائج کرکے غیر رجسٹرڈ لوگوں سے ٹیکس باآسانی اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور پہلے سے ٹیکس دینے والوں پر سے بوجھ کم ہو سکتا ہے۔چند سال قبل چودہ اگست کے موقع پر بھارت نے ایف بی آر کی ویب سائٹ ہیک کر لی تھی جس سے سبکی کا سامنا کرنا پڑا تھا‘ لیکن ایف بی آر نے اس واقعے کے بعد اپنے کنٹرول پروسیجرز پر کافی کام کیا ہے اور چند دن قبل بھارت کے ایک دن میں ایف بی آر پر تقریباً 1684سائبر حملے ناکام بنائے جانے کی خبر سامنے آئی ہے۔
دوسری جانب دیکھا جائے تو روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے ملک میں عام آدمی کے لیے گھر بنانا بہت مشکل ہو چکا ہے۔ چھ سالوں میں گھر تعمیر کرنے کی لاگت پندرہ سو روپے فی سکوائر فٹ سے بڑھ کر تقریباً چھ ہزار روپے فی سکوائر فٹ ہو چکی ہے۔ وفاقی حکومت عوام کا یہ بوجھ کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اس مقصد کیلئے تقریباً 75ارب روپے کی سبسڈی کی منظوری دے دی گئی ہے۔ اس سکیم کے تحت پانچ مرلہ گھر اور 1360سکوائر فٹ کے فلیٹوں کے لیے قرض دیے جائیں گے جن کی مدت 20 سال تک ہو سکتی ہے اور ان پر شرح سود پانچ سے آٹھ فیصد تک ہو گی۔ تحریک انصاف نے بھی اپنے دور میں ایسی ایک سکیم متعارف کرائی تھی جس سے تقریباً ایک لاکھ 84ہزار افراد نے فائدہ اٹھایا تھا‘ لیکن موجودہ حکومت نے تحریک انصاف کی وہ سکیم ختم کر دی تھی۔ اگر اُسی باڈی کے تحت مستحق افراد کو قرض دیا جاتا تو سیاسی روا داری اور مخالفین کی خدمات کو سراہنے کی اعلیٰ مثال قائم کی جا سکتی تھی۔ پچھلی حکومت کی طرح موجودہ حکومت نے بھی تعمیراتی شعبے کو سپورٹ کرنے کی روایت برقرار رکھی ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس نئی قرض سکیم کے تحت ایک سال میں تقریباً 50ہزار افراد فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اس سکیم سے کنسٹرکشن سیکٹر کو فائدہ مل سکتا ہے اور پچاس سے زائد صنعتوں کی کاروباری سرگرمیاں بڑھ سکتی ہیں۔ لیکن اس سکیم کا حقیقی فائدہ عوام کو اسی وقت ہو گا جب بندر بانٹ نہیں کی جائے گی اور مستحق افراد اس سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔ اگر اپنوں میں ہی ریوڑیاں بانٹی جائیں گی تو عوام اس سکیم سے مستفید نہیں ہو سکیں گے۔