پاک امریکہ ڈیل اور ایران کے ساتھ تجارت

ابھی تک پاک امریکہ ٹیرف ڈیل کے مکمل خدوخال سامنے نہیں آ سکے۔ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ ٹیرف ڈیل کے بدلے میں پاکستان امریکی درآمدات پر کتنا ٹیرف لگائے گا۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہو جائے گا‘ جس میں پاکستان کو تقریباً بیس کروڑ ڈالرز کے بدلے لگ بھگ چھ ارب ڈالر کی برآمدات مل سکتی ہیں لیکن اس کے امکانات بہت کم دکھائی دے رہے ہیں۔ امریکی صدر کے بیان سے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ تیل کی تجارت اور تلاش میں لانگ ٹرم معاہدہ کر رہے ہیں۔ امریکی صدر نے بیان دیا کہ ممکن ہے کہ مستقبل میں پاکستان بھارت کو تیل برآمد کرے۔ یہ کیسے ممکن ہو گا‘ اس بارے میں صدر ٹرمپ نے وضاحت نہیں کی۔ شاید پاکستانی سرکار بھی اس بارے آگاہ نہیں تھی۔ پچھلے پچھتر سالوں میں جیسے بھی اچھے برے حالات رہے ہوں‘ پاکستان سے بھارت کو تیل کی برآمد جیسا بڑا دعویٰ کبھی نہیں کیا گیا۔ پاکستان اپنی ضرورت کا تقریباً 15 فیصد تیل اور گیس پیدا کرتا ہے اور تقریباً 85 فیصد درآمد کیا جاتا ہے۔ پاکستان سالانہ تقریباً 17 ارب ڈالر پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات پر خرچ کرتا ہے۔ اگر اعداد وشمار پر نظر دوڑائیں تو 2013ء میں یو ایس انرجی انفارمیشن ایڈمنسٹریشن ( EAI) نے دنیا بھر کے تیل اور گیس کے استعمال نہ ہونے والے ذخائر پر ایک رپورٹ تیار کی تھی جس کے مطابق پاکستان میں تیل اور گیس کے 227 بلین بیرل استعمال نہ کیے گئے ذخائر موجود ہیں جن میں سے 9.1 بلین بیرل آئل آسانی سے نکالا جا سکتا ہے۔ اس اعتبار سے پاکستان آئل اور گیس کے استعمال نہ ہونے والے ذخائر میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ روس 75 بلین بیرل کے ساتھ پہلے‘ امریکہ 58 بلین بیرل کے ساتھ دوسرے اور چین 32 بلین بیرل کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے۔ ان کے بعد ارجنٹائن‘ لیبیا‘ وینزویلا اور میکسیکو ہیں۔ اگر ان ذخائر کو قابلِ استعمال بنایا جائے تو تقریباً 60 سال تک پاکستان کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان اربوں ڈالرز کے ذخائر کی چوٹی پر بیٹھ کر دنیا سے مانگ رہا ہے تو شاید غلط نہ ہوگا۔ البتہ ابھی تک یہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ان ذخائر کو قابلِ استعمال بنانے کے لیے تقریباً پانچ ارب ڈالر کی فوری سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو امریکہ کی مدد سے ممکن ہے۔ اگر پاکستان امریکہ سے یہ معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو جائے تو اس ڈیل سے بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ ابھی تک کی معلومات کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے مابین تجارتی سرپلس تقریباً دو ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ امریکہ تقریباً ایک ارب ڈالر مالیت کا خام تیل اور ایک ارب ڈالر کی دیگر اشیا پاکستان کو برآمد کر کے اس تجارتی سرپلس کو ختم کر سکتا ہے۔ امریکہ ایک بڑی عالمی طاقت ہے اور اس کے ساتھ معاہدہ اُسی کی شرائط پر ہو سکتا ہے۔
عوام زیرو ٹیرف کی امید لگائے بیٹھے تھے لیکن پاکستانی وفد کی کوشش تھی کہ 15 فیصد پر معاملات طے پا جائیں مگر ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔ وزیر خزانہ نے امریکہ کے ساتھ ٹیرف ڈیل کو بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس معاہدے سے ملکی برآمدات میں اضافہ ہو گا۔ البتہ چیمبر آف کامرس اور آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے نمائندوں کے ردعمل سے مختلف صورتحال سامنے آ رہی ہے۔ وہ بظاہر اس فیصلے سے خوش دکھائی نہیں دیتے۔ اگر ٹیرف ریٹ کو بنیاد بنایا جائے تو اسے پاکستان کی فتح کہا جا سکتا ہے‘ کیونکہ ریٹ جو بھی ہو حقیقت یہ ہے کہ پاکستان خطے میں سب سے کم ٹیرف ریٹ لینے میں کامیاب ہوا ہے۔ اپریل 2025ء سے قبل پاکستان پر 9.8 فیصد امریکی ٹیرف لاگو تھا‘ اس کے بعد یہ 29 فیصد کرنے کا اعلان کر دیا گیا‘ جسے صدر ٹرمپ نے تین ماہ کے لیے معطل کیا اور اب مذاکرات کے نتیجے میں 19 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے۔ پاکستان کے ہمسایہ ممالک اور ٹیکسٹائل سیکٹر میں پاکستان کے حریف ممالک کی نسبت پاکستان پر کم ٹیرف لگایا گیا ہے۔ ٹیکسٹائل حریفوں میں بھارت‘ بنگلہ دیش‘ ویتنام اور چین شامل ہیں۔ بھارت پر 25 فیصد جبکہ بنگلہ دیش اور ویتنام پر 20 فیصد ٹیرف لگایا گیا ہے۔ چین کے ٹیرف پر مذاکرات جاری ہیں۔ بھارت پر پاکستان کی نسبت چھ فیصد زیادہ ٹیرف ہے۔ اس کا فائدہ پاکستان کو اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے جب پاکستان بروقت امریکی مارکیٹ میں مارکیٹنگ کر کے زیادہ کلائنٹس کو اپنی طرف متوجہ کرے۔ اگر ماضی کی طرح سست روی والا رویہ اپنایا گیا تو فوائد ملنا مشکل ہو سکتے ہیں۔ بھارت پر ٹیرف اگرچہ زیادہ ہے لیکن بھارت ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو تقریباً آٹھ فیصد سبسڈی دیتا ہے‘ اس کے علاوہ کم شرح سود پر فوری قرض مہیا کرتا ہے اور بجلی کے نرخ بھی پاکستان کی نسبت بہت کم ہیں۔ بھارت میں فی یونٹ بجلی تقریباً چھ سینٹ کی ہے اور پاکستان میں تقریباً 13سینٹ کی۔ بھارت میں گیس تقریباً سات ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے اور پاکستان میں ریٹ تقریباً 16 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو ہے۔ بھارت میں شرح سود 5.5 فیصد ہے اور پاکستان میں 11 فیصد۔ نیا ٹیرف لگنے کے باوجود بھارتی ٹیکسٹائل برآمد کنندگان پر امریکی ٹیرف کا اثر تقریباً 15 فیصد ہو گا جو پاکستان کی نسبت کم ہے۔ یورپ میں پاکستان کے پاس جی ایس پی پلس کا سٹیٹس ہے جس کی وجہ سیٹیکس ریٹ تقریباً صفر ہے جبکہ بھارت کے پاس جی ایس پی پلس کا سٹیٹس نہیں‘ پھر بھی یورپ کو بھارتی ٹیکسٹائل برآمدات کا حجم پاکستان کی نسبت زیادہ ہے کیونکہ بھارتی کمپنیوں کے اخراجات کم ہیں۔ اگر بنگلہ دیش کے ساتھ موازنہ کریں تو پاکستان کو سخت مقابلے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بنگلہ دیش پر 20 فیصد ٹیرف عائد کیا گیا ہے جو پاکستان کی نسبت صرف ایک فیصد زیادہ ہے۔ تاہم بنگلہ دیش میں پاکستان کی نسبت بجلی کا ریٹ چار سینٹ‘ گیس تقریباً آٹھ ڈالر اور شرح سود ایک فیصد کم ہے۔ ویتنام پر بھی ٹیرف ایک فیصد زیادہ ہے اور وہاں بجلی پانچ سینٹ‘ گیس نو ڈالر اور شرح سود 6.5 فیصد کم ہے۔ چین کے ساتھ ابھی ٹیرف فائنل نہیں ہوا لیکن چین میں بجلی پاکستان کی نسبت آٹھ سینٹ‘ گیس تقریباً 11 ڈالر اور شرح سود تقریباً آٹھ فیصد کم ہے۔ ان حالات میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے روایتی حریفوں سے مقابلہ پاکستان کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ وہ ٹیکسٹائل ایکسپورٹ کے لیے بجلی سستی کرے اور شرح سود بھی کم کی جائے‘ بصورت دیگر ٹیرف کم ہونے کے باوجود پاکستان کو فائدے کے بجائے نقصان ہو سکتا ہے۔
ہفتے کو دو روزہ دورے پر ایرانی صدر پاکستان آئے۔ معاشی اعتبار سے یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ایرانی صدر نے شاہراہِ ریشم کے ذریعے سی پیک منصوبے کا حصہ بنے کی خواہش کا اظہار کیا اور پاکستان کے ساتھ تجارت کا حجم دس ارب ڈالر تک لے جانے پر اتفاق کیا۔ اس وقت ایران‘ پاکستان آفیشل تجارت کا حجم تقریباً اڑھائی ارب ڈالر ہے۔ پاکستان ایران سے پٹرولیم مصنوعات اور تعمیرات کا سامان درآمد کرتا ہے اور پاکستان زرعی اجناس اور ٹیکسٹائل ایران کو برآمد کرتا ہے لیکن ایران کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ پچاس کروڑ ڈالر سے زیادہ ہے۔ ایران کی سی پیک میں شامل ہونے کی خواہش نئی نہیں ہے لیکن سرحدی کشیدگی کی وجہ سے پیشرفت نہ ہو سکی۔ ایران‘ اسرائیل جنگ میں پاکستان کے کردار نے نئے راستے کھولے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ نئے تجارتی معاہدے کیے جائیں گے اور شاہراہِ ریشم سے منسلک ہو کر پاکستان سے سڑک کے ذریعے یورپ جانے میں سہولت پیدا ہو گی۔ پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات بھی ایران سے پوری کر سکتا ہے۔ سستی بجلی پاکستان کی ایک بڑی ضرورت ہے۔ ایران پاکستان کو سستی بجلی مہیا کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکا ہے۔ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات اور ایران کے ساتھ قربتوں سے سستی بجلی کے حصول کی راہ ہموار ہو سکتی ہے‘ لیکن اس کے لیے بہترین لابنگ اور لانگ ٹرم سٹرٹیجی کی ضرورت ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں