پاکستان سٹاک ایکسچینج سے اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ تقریباً 15 کمپنیاں ایک بلین ڈالر کلب میں شامل ہو گئی ہیں۔ دو سال قبل صرف تین کمپنیاں ایک بلین ڈالر کلب میں شامل تھیں۔ دو سالوں میں تقریباً 500 فیصد اضافہ متاثر کن ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دو سالوں میں آخر ایسا کیا ہوا جس سے سٹاک ایکسچینج میں بہتری آئی ہے؟ سٹاک ایکسچینج میں اتار چڑھاؤ مستقبل کو مدنظر رکھ کر ہوتا ہے۔ اگر آنے والے دنوں میں معیشت مستحکم ہونے کے اشارے ملنا شروع ہو جائیں تو سٹاک بہتر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ عملی سطح پر کمپنیوں کے منافع میں فوری اضافہ نہیں ہوتا اور نہ ہی کمپنیوں کے آپریشنز فوری طور بہتر ہوتے ہیں۔ صرف شیئرز کی قیمت بڑھتی یا کم ہوتی ہے۔ اگر شیئرز کی خرید وفروخت میں عوامی دلچسپی قائم رہے تو پھر کمپنیوں کے منافع اور آپریشنز بہتر ہونے لگتے ہیں۔ پاکستان سٹاک ایکسچینج میں بہتری کی بڑی وجہ سرمایہ کاری کے دیگر مواقع موجود نہ ہونا بھی ہے۔ پاکستان میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری رئیل اسٹیٹ میں ہوتی رہی لیکن پچھلے تقریباً تین سالوں سے یہ سیکٹر بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ آئی ایم ایف رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کر رہا ہے اور انڈسٹریز میں سرمایہ لگانے پر زور دے رہا ہے۔ لیکن مہنگی بجلی اور درآمدات میں اضافے کی وجہ سے عوامی سطح پر نئی انڈسٹریز لگانے کا رجحان بہت کم ہو گیا ہے۔ اس لیے جو انڈسٹریز پہلے سے کام کر رہی ہیں انہی کے شیئرز خریدے جانے کا رجحان بڑھا ہے۔ عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر پاکستان کے مشکل معاشی حالات میں بھی یہ کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور مناسب منافع کما رہی ہیں تو یہاں سرمایہ زیادہ محفوظ ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈالر ریٹ میں استحکام بھی سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری بڑھنے کی بڑی وجہ ہو سکتی ہے۔ پچھلے دو سالوں سے ڈالر ریٹ مستحکم ہے۔ سکیورٹی فورسز کے سخت آپریشن کی وجہ سے ڈالر میں سرمایہ کاری کا رجحان کم ہوا ہے۔ جب رئیل اسٹیٹ میں نقصان ہو رہا ہو‘ نئی انڈسٹری نہ لگ رہی ہو اور ڈالر کی خریدو فروخت بھی منافع بخش نہ رہے تو تین آپشنز زیادہ فیور ایبل ہو سکتے ہیں۔ ایک آپشن یہ ہے کہ گولڈ یعنی سونے میں انویسٹمنٹ کر لی جائے لیکن اس کے لیے زیادہ سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرا آپشن یہ ہے کہ کسی اور ملک میں سرمایہ کاری کی جائے‘ لیکن عام پاکستانی کے لیے ایسا کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ تیسرا آپشن یہ ہے کہ سٹاک ایکسچینج کا رخ کیا جائے۔ سٹاک ایکسچینج میں آپ معمولی رقم سے بھی کام شروع کر سکتے ہیں۔ آئی ایم ایف پروگرام کے خاتمے تک رئیل اسٹیٹ میں بُوم آنا مشکل ہو سکتا ہے۔ جس دن رئیل اسٹیٹ میں بوم آئے گا سٹاک سے پیسہ نکل کر پراپرٹی کے کاروبار میں لگ سکتا ہے۔ رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کے کم رجحان کی ایک وجہ وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی بھی ہو سکتی ہے۔
موجودہ حالات میں کرپٹو کرنسی ایک ایسا سیکٹر ہے جس میں عوای سرمایہ کاری کا رجحان بڑھا ہے‘ لیکن حکومت نے اس میں بھی عوام کے لیے آپشن محدود کر دیے ہیں۔ ملک میں تقریباً 180 ایپلی کیشنز پر پابندی لگائی گئی ہے‘ اس میں بہت سی ایپس کرپٹو کرنسی سے متعلقہ ہیں۔ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے سٹیٹ بینک کن اصولوں پر کام کر رہا ہے‘ یہ ابھی تک واضح نہیں ہو سکا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بِٹ کوائن کی اہمیت سے آگاہ ہو چکے ہیں۔ امریکہ‘ چین‘ برطانیہ‘ یوکرین‘ شمالی کوریا‘ بھوٹان‘ وینز ویلا اور فن لینڈ تقریباً پانچ لاکھ 27 ہزار بٹ کوائن کے مالک ہیں جن کی مالیت تقریباً 53 ارب ڈالر ہے۔ 43 ای ٹی ایف (ایکسچینج ٹریڈڈ فنڈز) کے پاس تقریباً 14 لاکھ بٹ کوائنز ہیں۔ چار بڑی ایکسچینج تقریباً ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ بٹ کوائنز رکھتی ہیں‘ جن کی مالیت 15ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ چالیس نجی کمپنیوں کے پاس تقریباً دو لاکھ 90 ہزار بٹ کوائنز ہیں جن کی مالیت تقریباً 29 ارب ڈالر ہے۔ ان کے علاوہ تقریباً ایک سو چالیس بڑی پبلک کارپویشنز کے پاس تقریباً آٹھ لاکھ 41 ہزار بٹ کوائنز ہیں جن کی مالیت تقریباً 84 ارب ڈالر ہے۔ ان میں ٹیسلا‘ میٹا‘ پلانٹ اور مارا سرفہرست ہیں۔ ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی اپنا سرمایہ بٹ کوائن میں محفوظ رکھتی ہے۔ اس کے اثاثے تقریبا 1.7 ٹریلین ڈالر ہیں اور اس کا شمار دنیا کی بڑی سرمایہ کاری کمپنیوں میں ہوتا ہے۔ قطر انویسٹمنٹ اتھارٹی‘ سنگاپور کی سرکاری کمپنی تیماسک ہولڈنگز بٹ کوائن خرید رہی ہے۔ سعودی عرب پبلک انویسٹمنٹ فنڈ جو تقریباً 925 ارب ڈالر مینج کرتا ہے‘ بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ناروے کا گورنمنٹ پنشن فنڈ گلوبل اور سوئٹزرلینڈ کا سوئس نیشنل بینک بٹ کوائن خرید رہے ہیں۔ چیک ریپبلک سرکاری سطح پر بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کر رہا ہے اور پرتگال بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو شہریت آفر کر رہا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ایسّٹ مینجمنٹ کمپنی بلیک راک نے اپنے اثاثوں کو محفوظ بنانے کے لیے تقریباً 75 ارب ڈالرز کی بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اس کمپنی کا پورٹ فولیو تقریباً 12 ٹریلین ڈالر ہے۔ کینیڈا کا انٹاریو ٹیچرز پنشن پلان بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ جنوبی کوریا کی نیشنل پنشن سروس بھی بٹ کوائن خرید رہی ہے۔ ان کے علاوہ پچاس سے زائد دیگر ادارے اور ممالک کا نام لکھا جا سکتا ہے جو بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تمام ممالک‘ کمپنیاں اور کارپوریشنز بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کیوں کر رہی ہیں؟ اس کی وجہ شاید یہ ہو سکتی ہے کہ یہ بٹ کوائن کو محفوظ سمجھتے اور مستقبل میں اسے متبادل مضبوط کرنسی بنتا دیکھ رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر کوئی ملک بٹ کوائن نہیں خرید رہا اور مزید پابندیاں لگائی جا رہی ہیں تو اس کا نام پاکستان ہے‘ اور بڑی رکاوٹ سٹیٹ بینک آف پاکستان ہے۔ غیر ضروری احتیاط بھی مسائل کو جنم دیتی ہے اور مواقع ضائع کروا دیتی ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ کنٹرولڈ ماحول میں بٹ کوائن میں سرمایہ کاری کی اجازت دی جائے اور سٹیٹ بینک کو غیر ضروری پابندیاں لگانے سے روکا جائے۔ مسائل پیدا کرنے کی بجائے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان ایران تجارت میں بھی سٹیٹ بینک بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ رہا ہے۔ ایران پاکستان کے درمیان بارٹر ٹریڈ کے دعوے کیے جا رہے ہیں لیکن رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے صدر فیصل جہانگیر مجھے بتا رہے تھے کہ حکومت نے ان کی کمپنی کو اجازت دی کہ بارٹر ڈیل کے ذریعے ایران چاول برآمد کیے جائیں اور اس کے بدلے گوادر اور پشین میں ایران سے درآمد ہونے والی بجلی کے بلز سیٹل کیے جائیں گے۔ جب چاول برآمد ہو گئے اور سرکار نے بجلی کے بل ایڈجسٹ کروا لیے تو سٹیٹ بینک نے روڑے اٹکانا شروع کر دیے اور پہلے فارم ای کو سیٹل کرنے کی شرط رکھ دی۔ ایران کے ساتھ پاکستان کا کوئی بینکنگ چینل نہیں اس لیے فارم ای سیٹل ہو ہی نہیں سکتا۔ سٹیٹ بینک کی وجہ سے ابھی تک حکومت نے ادائیگی نہیں کی۔ ان حالات میں ایران کے ساتھ قانونی طور پر دس ارب ڈالر کی ٹرانزیکشنز تقریباً ناممکن ہیں۔ پابندیوں کے باوجود جرمنی کے خصوصی انویسٹمنٹ بینک نے ایران کے ساتھ تجارت اور بینک کے ذریعے ادائیگیوں کا طریقہ کار بنا رکھا ہے۔ پاکستانی فٹ بال اور جراحی کے آلات پاکستان سے جرمنی اور پھر ایران پہنچتے ہیں اور ادائیگیاں جرمنی میں ہوتی ہیں۔ ایران کے ساتھ تین ارب ڈالر کی قانونی تجارت کی ادائیگی بھی دبئی یا ہنڈی حوالے سے ہوتی ہے۔ دبئی اور ترکیہ میں ایرانی بینکوں کی شاخیں ہیں۔دنیا کے 17 ممالک کو ایران تیل سپلائی کرتا ہے اور وہ سب ممالک بینکنگ چینل کے ذریعے ایران کو ادائیگی کرتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان تقریباً 10 ارب ڈالر کی غیر قانونی ٹرانزیکشنز ایران ٹریڈ میں کر رہا ہے۔ حکومت سے گزارش ہے کہ امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کا فائدہ اٹھائے اور ایران کے ساتھ بینکنگ ادائیگی کا راستہ نکالا جائے۔