پاکستان سمیت دنیا کے 193ممالک نے اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں آئندہ پندرہ سال کے لیے پائدار ترقی کے نام پر اجتماعی عہد کیا ہے کہ وہ 2015 ء سے 2030ء تک کے عرصہ میں غربت اور بھوک کا ہر سطح پر خاتمہ کریں گے۔بہتر غذائیت کو فروغ دیں گے۔ انسانی زندگی اور صحت کو یقینی بنایا جائے گا۔صنفی مساوات قائم کی جائے گی اور اس مساوات کے تحت عورتوں کو بھی مردوں کے شانہ بشانہ ترقی کرنے کے مواقع کو یقینی بنایا جائے گا۔صاف پانی کی فراہمی ، ماحولیاتی تحفظ ، دیرپا امن اور انصاف تک رسائی کو ممکن بنایا جائے گا۔اقوام متحدہ کی جانب سے تمام دنیا کے لیے مقرر کردہSustainable Development Goals (پائدار ترقی کی اہداف ) بہت خوش کن اور حوصلہ افزا ہیں ۔
لیکن تلخ حقیقت یہ ہے کہ آج سے پندرہ سال پہلے بھی سن 2000ء میں پاکستان نے دیگر ترقی پذیر اقوام عالم کے ساتھ مل کر اجتماعی ایجنڈے کے تحت 2000ء سے 2015ء کے پندرہ سالہ عرصہ میں Millennium Development Goals (MDGs)کے نام سے ترقی کے بے شمار اہداف کو پورا کرنے کا اجتماعی وعدہ کیا تھا لیکن وہ حکومتی وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ 2015ء میں جب گزشتہ پندرہ سال کے MDGsکا جائزہ لیا گیا تو خود حکومتی دستاویزات کے مطابق پاکستان نے صرف 30فیصد اہداف پورے کیے اور 70فیصد ترقیاتی کام ادھورے رہ گئے۔یعنی ترقی کی دوڑ میں ہماری حکومتیں پاس ہونے کے لیے ضروری نمبر (Passing marks)لینے میں بھی ناکام رہیں۔
بنیادی انسانی حقوق اب صرف روٹی کپڑا اور مکان تک محدود نہیں ہیں۔ رہنے کے لیے صحت مند ماحول، تعلیم و تربیت ، علاج معالجہ ، پینے کے لیے صاف پانی ، انصاف تک رسائی ، امن وامان اور بہتر روزگار کے مواقع اب بنیادی نہیں بلکہ لازمی ضروریات میں شمار ہوتے ہیں۔ برسر اقتدار رہنے والی پچھلی حکومتوں کے پارٹی منشور دیکھیں‘ انہوں نے جو سبز باغ دکھائے وہ بڑے دل فریب تھے لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی رونا روتے ہیں۔کسی سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی یا کسی بھی وارڈ میں چلے جائیں۔دُکھی انسانیت سسکتی نظر آئے گی۔چھوٹے شہروں یا علاقوں کی حالت زار کا اندازہ کیا لگائیں دارالحکومت کے سب سے بڑے ہسپتال کی ایمرجنسی میں جلی حروف کے ساتھ بورڈ نصب ہے کہ ایمرجنسی میں دوران علاج تمام دوائیں مفت مہیا کی جائیں گی۔لیکن یہ مفت ادویات شاید صرف مخصوص لوگوں کے لیے ہیں کیونکہ ہر مریض کے ساتھ آنے والے اٹینڈنٹ کو ڈاکٹر کی جانب سے دوائوں کا نسخہ تھما دیا جاتا ہے ۔ بے چارا دوائیں لینے کے لیے ہسپتال کے احاطے میں قائم دوائوں کی نجی دکان پر جاکر جیب خالی کر آتا ہے۔ اگر جیب پہلے سے خالی ہو تو پھر اللہ نبی وارث ۔مریض ایمرجنسی میں ہومہنگی دوائوں کے لیے پیسے نہ ہوں تو ہسپتال کا عملہ اپنے پلے سے تریاق خرید کر مریض کے منہ میں نہیں ڈالتا۔کہا جاتا ہے کہ حقیقت میں بنیادی انسانی ضروریات صرف دو ہیں... خوراک اور دوا ۔بھوکے کو کھانا نہ ملے اور بیمار کو دوائی نہ ملے تو دیگر تمام ضروریات ثانوی درجہ حاصل کر لیتی ہیں ۔
سرکاری دستاویزات کے مطابق ہماری 60فیصد سے زائد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ ہماری58فیصد آبادی خوراک کی کمی کا شکار ہے۔ کچرا کنڈیوں سے خوراک تلاش کرنے والے بچے بھوک و افلاس میں گھرے معاشرے کی صرف ایک جھلک ہے۔آئین پاکستان کے آرٹیکل نمبر 25Aکے تحت ریاست پانچ سال سے سولہ سال کی عمر کے
بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دینے کی پابند ہے۔اسکے باوجود ہمارے 2.5کروڑ بچے سکول کی شکل نہیں دیکھ پاتے۔سرکاری سکولوں کی حالت زار ایسی ہے کہ کوئی واجبی حیثیت والا شخص بھی اپنے بچے کو سرکاری سکول میں داخلہ دلانا گوارا نہیں کرتا۔ ہماری 35فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں ہے۔دیہی علاقوں میں آج بھی جس گھاٹ ،جوہڑ یا چھپڑسے جانور پانی پیتے ہیں اسی گھاٹ سے انسان بھی پانی پینے پر مجبور ہو کرہیپاٹائٹس اور نیگلیریا جیسی مہلک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔شہری علاقوں میں بھی پینے کے صاف پانی کا حصول بڑھتا ہوا چیلنج ہے۔ امن و امان کی کوئی کیا پوچھے، سرکاری اعدادو شمار کے مطابق اوسطاً ہر سال 9ہزار افراد دہشت گردی کے واقعات میں لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ ان اعدادو شمار کی تفصیل میں جانے کا یہ موقع نہیں ہے‘ مقصد صرف یہ بتانا ہے کہ ترقی کے اہداف، سیاسی عدم استحکام، کرپشن، بری گورننس اور بدانتظامی میں دھندلا جاتے ہیں ۔ ترقی اور خوشحالی کا پیمانہ یہ ہے کہ آپ کا آج گزرے ہوئے کل سے بہتر ہونا چاہیے ۔ہماری ہر آنے والی حکومت نے انسانی ترقی کے نام پر عوام سے ووٹ لیے لیکن پائدار ترقی دیکھنے کو بھی نہیں ملتی۔ حکومتی معیشت دان اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے ایسے خوشنما اعدادو شمار پیش کرتے ہیں ، جو کسی حد تک سچ پر مبنی ہو سکتے ہیں لیکن کیا کریں غریب کا معاشی ترقی کا پیمانہ صرف دو وقت کی روٹی ہے۔مفت اور معیاری تعلیم ہے، مفت علاج معالجہ ہے، روزگار کے مواقع ہیں ۔ اگر یہ سب کچھ زمین پر حقیقت میں نہیں ہے تو پھر معاشی جادوگروں کے تمام اعداد و شمار صرف کتابوں اور دستاویزات میں ہی اچھے لگتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ پندرہ سالوں میں کیا ہم مقرر کردہ ترقیاتی اہداف حاصل کر سکیں گے؟اقوام متحدہ کا اجلاس پائدار ترقی کے لیے بلایا گیا تھا لیکن ایسا محسوس ہوا کہ ہمارے وزیراعظم کشمیر ایشو پر بات کرکے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھ رہے ہیں ۔ وزیر اعظم کشمیر کی بات کیوں نہ کرتے ،اگر اس معاملے کو نظر انداز کیا جاتا تو کیا میڈیا اور ان کے مخالفین ان کی جان بخشتے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیریوںکے لیے سفارتی، سیاسی اور اخلاقی مدد کی اہمیت سے کسی کو انکار نہیںلیکن کشمیر کا نعرہ لگا کر عوام کے حقیقی مسائل سے صرف نظر کیا جائے تو یہ امر یقینا قابل اعتراض و تنقید ہو گا۔کڑواسچ تو یہ ہے کہ پائدار ترقی و استحکام کے بغیر کشمیر کے لیے ہماری بڑھک میں جان نہیں ہوگی۔ بقول اقبال ؎
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کرے