ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں

گِدھ ہو، گَدھا ہو یا اُلّو، یہ ایسے جاندار ہیں جو ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں تو ان کی بہتات ہے۔ اردو ادب میں یہ تینوں جانور منفی رجحانات اور رویّوں کے لیے استعارہ بن چکے ہیں۔ اس مخلوق کے حقیقی وجود سے ان کی استعاراتی تعداد بہت زیادہ ہو چکی ہے۔ ماحولیاتی ماہرین کا ماننا ہے کہ گِدھ کی نسل معدوم ہو رہی ہے، لیکن استعارہ بالکنایہ استعمال کریں تو ہمارے ہاں گِدھوں کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ یہ جہاں شاہین کا ہے لیکن راج کَرگس کر رہا ہے۔ پھر گَدھے کی مثال لیجیے۔ یہ صرف بار برداری کا فریضہ انجام دینے والا چوپایہ نہیں بلکہ احمق، بیوقوف اور بیگار انجام دینے والے کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح اُلّو بھی غبی اورکند ذہنی کاا ستعارہ ہے، اسی لیے ہمارے گلستاں میں یہ پرندہ ہر شاخ پہ بیٹھا نظر آتا ہے۔کوئی انجام گلستاں سمجھنا چاہے تو سمجھ لے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں یہ تینوں جاندار بَد سے زیادہ بَد نام ہوئے ہیں۔ بدیس میں ان دونوں پرندوں اور بار بردار جانور کو اتنی خفت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ہو گا کہ ان کا نام کسی مردار خور، احمق یا بے وقوف کے لیے استعمال کیا جائے۔ صرف ہمارے معاشرے نے گِدھ، گَدھوں اور اُلّوئوں کو یہ بدنامی کیوں دی اور کیوں شاہین کے جہاں میں ان بدنام جانداروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے؟ اس کی واضح توجیہ پیش کی جا سکتی ہے۔ 
گِدھ ایک مردار خور پرندہ ہے۔ اس کی زندگی اور بقا لاشوں پر منحصر ہے۔ ساری زندگی یہ پرندہ بس مردے ہی تلاش کرتا ہے۔ لاش انسان کی ہو یا کسی اور جاندار کی، یہ پرندہ 20 میل کی دوری سے 
اس کو تلاش کر نے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ خوبی یہ ہے کہ کسی زندہ جاندار کو کبھی نہیں مارتا، بس لاشوں کا طلب گار رہتا ہے۔ لاش کتنی ہی تعفن زدہ کیوں نہ ہو، گِدھ کی مرغوب غذا ہے۔ یہ پرندہ ایک منٹ میں2 پائونڈ مردار گوشت کھا جاتا ہے۔ چند گِدھوں کا ایک چھوٹا سا جھنڈ ایک مرے ہوئے زیبرا کی لاش کو صرف آدھ گھنٹے میں مکمل طور پر ہڑپ کر جاتا ہے۔ ایک گِدھ ایک دن میں اوسطاً 100میل تک کی اڑان بھرکر لاشیں تلاش کرتا ہے۔ لاش کتنی ہی پرانی کیوں نہ ہوگِدھ تعفن زدہ ، گلا سڑا گوشت ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ کسی جاندار کی لاش دنوں نہیں بلکہ چند گھنٹوں میں ہی پورے علاقے میں تعفن پھیلا دیتی ہے، لیکن اگر اس علاقے میں گِدھ کا وجود ہے تو پھر اس تعفن کی نوبت نہیں آئے گی۔ لاش کے سڑنے سے پہلے ہی گدھ اس کا صفایا کر جائیں گے۔ نہ صرف ماحول تعفن سے بچ جائے گا بلکہ بیکٹیریا اور بیماریوں کا پھیلائو بھی رک جائے گا۔ آج اسی لیے گِدھ کی نسل کو بچانے کے لیے جنگلی حیات کے قدردان فکر مند ہیں کیونکہ گِدھوں کی بقا کو خطرات لاحق ہیں۔ ماحولیاتی سائنسدان سمجھتے ہیں کہ اگرگِدھ ختم ہو گئے تو پھر مرے ہوئے جانداروں کو تلف کرنے کا ایک قدرتی ذریعہ ختم ہو جائے گا۔
گِدھوں سے یہ محبت صرف مغرب میں ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں توگِدھ وہی ہے جو مردہ خوری، حرام خوری، لالچ، حرص اور طمع کاطلب گار ہے۔ لاشوں سے اپنا پیٹ بھرنے والے اور لاشوں کی سیاست کرنے والوں میں کچھ زیادہ فرق نہیں۔دونوں ہی گِدھ کہلائیں گے۔کرپشن اور بد عنوانی سے کمایا ہوا مال کھانے اور مردہ گوشت کھانے میں بھی زیادہ فرق نہیں ہے، دونوں ہی حرام خوراور مردہ خور ہیں اورگِدھ کہلانے کے حق دار۔ لاشیں ڈھونڈنے والے گِدھوں اور لاشیں گرانے والے گِدھوں میں بس ایک باریک سا ہی فرق باقی رہ جاتا ہے۔ یتیموں اور بے سہاروںکا مال کھانے یا مردہ جانور کی لاش نوچنے میں کوئی فرق نہیں۔ شریعت نے تو انسانی اقدار کو اتنی اہمیت دی ہے کہ کسی مسلمان بھائی کی غیبت کرنے کو بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ ہم اس پرندے سے کبھی اتنی محبت نہیں کر سکتے جتنا اہل مغرب کرتے ہیں۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ جب ہمارے معاشرے میں حرام خوری اور مردہ خوری عروج پر ہو گی تو پھر انہی بد صفات کے حامل کسی پرندے سے تشبیہ بھی گالی سے کم نہیں لگے گی۔ کسی سیاستدان یا کرپٹ کے لیے گِدھ کا استعارہ استعمال کریں تو وہ یکدم آگ بگولہ ہو جائے گا۔ وجہ صاف ظاہر ہے، گورے شخص کہہ سو بارکالا کہ کر پکاریں، وہ کبھی برا نہیں منائے گا، لیکن کالے کو ایک بار بھی کالا کہہ دیںتو جان کو آ جائے گا۔ 
یہی مثال بے چارے گدھے پر بھی صادق آتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بلکہ ہمارے ادب میں گدھا احمق، بے وقوف، غبی اور کند ذہن اور نکمے کے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ کسی کو گَدھاکہنا گالی سے کم نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ احمق ہیں، غبی ہیں، کند ذہن اور بے وقوف بھی ہیں اسی لیے کوئی ہمیں گدھا کہے تو برا مان جاتے ہیں۔ 90ء کی دہائی میں ہمارے اراکین پارلیمنٹ نے ایک آئینی ترمیم اس انداز میں منظور کی کہ کوئی ایک رکن بھی اسمبلی میں اختلاف کی جرأت نہ کرسکا۔ سب نے بیک وقت اثبات میں سر ہلا دیا کیونکہ اسمبلیاں وجود میں لانے والوں کی یہی منشا تھی۔ اس پر ایک بزرگ آئینی ماہر کا تبصرہ تھا کہ یہ تو ممکن ہے کہ 250 گدھے ایک جگہ جمع ہوں اور کسی معاملے پر کوئی ایک گَدھا بھی اختلاف نہ کرے کیونکہ وہ گدھے ہیں، لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ 250 سمجھ بوجھ رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ جمع ہوں اور کسی ایک معاملے پر تمام کے تمام افراد گَدھوں کی طرح سر ہلا کر ہاں کہہ دیں۔ یعنی انہوں نے اراکین پارلیمنٹ کوگَدھوں کے مشابہ قرار دیا اور ان کے اس بیان پر اراکین نے بہت برا بھی منایا؛ حالانکہ گِدھ کی طرح گَدھے بھی مغرب میں بہت معتبر مانے جاتے ہیں۔ امریکہ میں ڈیمو کریٹک پارٹی کا انتخابی نشان ہی گدھا ہے۔ وہاں گدھے کی وہ درگت نہیں بنتی جو یہاں بنتی ہے۔ 
اب اُلّوکی مثال لیجیے۔ ہمارے ہاں اُلّوکا لفظ انتہائی بے وقوف اور کند ذہن کے لیے استعارے کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اس پرندے کے ''پٹھے‘‘ سے کسی کو تشبیہ دے دی جائے تو بہت بڑی گالی بن جاتی ہے۔ یہ استعاراتی اُلّو صرف اسمبلی میں ہی نہیں بلکہ ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ اسی لیے اُلّو کا لفظ ہمارے لیے انتہائی قابل اعتراض ہے جبکہ مغرب میں اُلّو کو بھی عقلمندی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ وجہ یہ نہیں کہ وہاں بے وقوف اور احمق لوگ نہیں ہوتے بلکہ وجہ یہ ہے کہ اپنی حماقت اور عقل سے پیدل ہونے کا الزام وہ کسی پرندے پر نہیں لگاتے۔ یہ صرف ہمارے ہاں ہی ہوتا ہے کہ اپنی مردار خوری کے لیے گدھ کو بد نام کیا جاتا ہے، اپنی حماقتوں کے لیے گدھے کو بدنامی کا داغ دے دیا جاتا ہے اور کوئی عقل سے پیدل ہوتو بدنامی اُلّو جیسے پرندے کے کھاتے میں ڈال دی جاتی ہے۔ جب تک ملک میں لاشوں کی سیاست کرنے والے اور قومی خزانوں کو لوٹنے والے موجود ہیں‘ شاہین کے جہاں میں کرگس منڈلاتے رہیںگے۔ ذبح ہونے کے باوجود ہرسیاسی اور غیر سیاسی ایوان میںگَدھے بھی ملیں گے اور ہر شاخ پہ اُلو بھی نظر آئے گا۔ آپ ایک ڈھونڈیں گے ہزاروں ملیں گے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں