چند ماہ پہلے کرپشن کے خلاف عالمی دن منانے کی ایک تقریب ایوان صدر میں ہوئی۔ تقریب کا انعقاد قومی احتساب بیورو نے کیا تھا۔ اس تقریب میں مہمان خصوصی وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے ایک لطیفہ سنایا‘ جو آج کی صورتحال پر صادق آتا ہے۔ کسی گائوں میں سیلاب آ گیا۔ افراتفری مچ گئی۔ گائوں کے تمام لوگ اپنا قیمتی سامان سمیٹ کر محفوظ جگہ ڈھونڈھنے لگے۔ ایک دیہاتی کے پاس ایک حقے کے سوا کوئی قیمتی چیز نہ تھی اس لیے وہ ایک درخت کی اونچی شاخ پر بیٹھ کر مزے سے حقہ پینے لگا۔ گائوں کے چوہدری نے اسے دیکھا تو کہا: سارا گائوں پریشان ہے تجھے ذرا بھی فکر نہیں‘ تو دیہاتی نے جواب دیا: 'چوہدری صاحب اج ای تے غربت دا سواد آیا اے ‘۔ (چوہدری صاحب آج ہی تو غربت کا مزہ آیا ہے)۔ پنجابی محارے کے مطابق جس نے گاجریں کھائی ہوں اسی کے پیٹ میں درد ہوتا ہے۔ جس نے بدعنوانی کی ہو گی اسی کو پکڑے جانے کا خوف ہو گا۔ اسی لیے جب وزیر اعظم صاحب نے نیب کے اپنی حدود میں رہنے کی بات کی تو اپوزیشن سمیت ناقدین کی ایک بڑی تعداد نے اس طرز عمل کو بالکل بھی نہیں سراہا۔ پھر رانا ثناء اللہ صاحب کا یہ بیان کہ نیب کو صرف پیپلز پارٹی کے خلاف کارروائی کو بیلنس کرنے کے لیے پنجاب میں کارروائی کی اجازت نہیں دیں گے۔ ان غیر معمولی بیانات نے بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ کیا کوئی خلیفہ اپنے قاضی کو ایسی ہدایات جاری کر سکتا ہے‘ جس میں قاضی کے اختیارات کم کرنے‘ اور اس کے فراہمیء انصاف کے عمل پر نگران بٹھانے کا عندیہ شامل ہو۔ نگران بھی تو انہی صفوں میں سے ہوں گے جن صفوں میں رہنے والوں کا احتساب کرنا مقصود ہے۔ ایسا محتسب‘ جس کے سر پر انتظامیہ کی تلوار لٹکتی ہو اور اسے ہر وقت دھڑکا لگا رہے کہ حکمرانوں کی ناراضی مول لی تو پھر گھر کا راستہ دکھایا جا سکتا ہے‘ کیا خاک احتساب کرے گا۔
قانون سازوں نے قومی احتساب بیورو کا آرڈیننس متعارف کرایا‘ تو اس میں اس ادارے اور اس کے سربراہ کو مکمل خود مختاری، آزادی اور اختیار دیا۔ اس قانون کے مطابق نیب کی تفتیش اور تحقیقات میں کوئی عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ ہاں ایک بار احتساب عدالت کسی کرپشن کے مقدمے میں فیصلہ دے دے تو پھر اپیل ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں دائر کی جا سکتی ہے‘ لیکن دوران تفتیش یا دوران تحقیقات کسی عدالت کو مداخلت کا اختیار نہیں۔ نیب کے دو سابق پراسیکیوٹر جنرل عرفان قادر اور کریم خان آغا متعدد مقدمات میں سپریم کورٹ کو یہ باور کراتے رہے کہ احتساب بیورو کی خود مختاری میں مداخلت نہ کی جائے۔ اسی طرح چیئرمین نیب کو قانون میں اتنا تحفظ دیا گیا ہے کہ ایک بار وہ اس منصب پر فائز ہو جائیں تو پھر وزیر اعظم کیا‘ صدر بھی انہیں عہدے سے نہیں ہٹا سکتا۔ اس تحفظ کی منطق یہ ہے کہ قومی احتساب بیورو کا سربراہ اپنی برخاستگی کے خوف سے آزاد اور بے فکر رہ کر احتساب کا عمل مکمل کرے گا۔ اسے یہ خوف نہیں ہونا چاہیے کہ ملک کا وزیر اعظم انہیں برخاست یا تبدیل کر دے گا‘ یا اپنی حدود میں رہنے کی وارننگ دے گا۔ چیئرمین نیب کو ہٹانے کا وہی واحد آئینی طریقہ ہے جس کے تحت کسی جج کو ہٹایا جا سکتا ہے یعنی آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت نااہلی کا ریفرنس سپریم جوڈیشل کونسل میں بھیجا جائے‘ اور چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں دیگر سینئر ججوں پر مشتمل کونسل ان کی نااہلی کا فیصلہ کرے‘ لیکن سردست سوال یہ ہے کہ
چیئرمین نیب نے ایسا کون سا گناہ کر دیا کہ ان کے خلاف ریفرنس بھیجنے یا ان پر نگران بٹھانے کی باتیں کی جائیں۔ موجودہ صورتحال میں اول تو کوئی ریفرنس آئے گا نہیں‘ اور حکومت نے یہ شوق پورا کر بھی لیا تو ایسا ریفرنس مسترد ہو جائے گا‘ کیونکہ جن الزامات کی بنیاد پر ریفرنس دائر ہو سکتا ہے‘ ان میں سے کسی ایک الزام کے ٹھوس شواہدموجود نہیں ہیں۔ اس بات کا حکومت کو بھی ادراک ہے۔ حکومت کو پتہ ہے کہ آج اگر اپوزیشن کے ستارے گردش میں ہیں تو کل ہماری باری بھی آئے گی۔ بس اسی لیے اس معاملے پر حکومت اور اپوزیشن شیر و شکر ہو رہی ہیں۔ قانون سازی کچھ بھی ہو سکتی ہے۔ سادہ اکثریت سے نیب قانون میں ترمیم ہو سکتی ہے۔ نگران بھی متعین ہو سکتے ہیں۔ پارلیمنٹ اپنا کردار مانگ سکتی ہے اور یوں اہم معاملات پر اختیارات میں شریک بن سکتی ہے۔ اس کے لیے کسی آئینی ترمیم کی نہیں بلکہ صرف سادہ اکثریت درکار ہے‘ لیکن یہ سب کچھ کرنے میں حکومت کو ایک ڈر ضرور لاحق ہے۔ حکومت جانتی ہے کہ محتسب پر نگران نہیں مقرر کیا جا سکتا۔ حکومت جانتی ہے احتسابی عمل آزاد نہ ہو تو الزام حکومت پر آتا ہے۔ حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ نگران مقرر کرنا یا اختیارات سلب کرنا احتساب اور انصاف کے عمل میں روڑے اٹکانے کے مترادف ہے‘ اور حکومت یہ بھی جانتی ہے کہ ایسا کوئی قانون جس سے احتساب کی راہ میں رکاوٹ آئے بدنیتی پر مبنی ہو تو عدالتیں judicial review کے تحت ایسی قانون سازی یا ترمیم کو دودھ سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکتی ہیں۔ اسی لیے سردست وزیر اعظم اور ان کے رفیق وزرا کی جانب سے نیب کو اپنی اوقات میں رہنے کی وارننگ پر ہی اکتفا کیا جا رہا ہے۔
ہونا یہ چاہیے تھا کہ حکمران اپنی پاکی ٔ داماں پر فخر کرتے ہوئے نیب کی فعالیت کو ویلکم کرتے‘ لیکن ہمارے معاشرے میں کچھ بھی آئیڈیل نہیں ہے۔ نہ محتسب نہ ہی حاکم۔ خرابی دونوں جگہ موجود ہے۔ نیب کے بارے میں تو مشہور ہے کہ اربوں کی کرپشن کرنے والا بدقسمتی سے پکڑا بھی جائے تو کروڑوں دے کر اپنی جان چھڑا سکتا ہے۔ لوٹی دولت بچانے کے لیے مُک مُکا کا آپشن نیب قانون میں موجود ہے اور اسے پلی بارگین (plea-bargain) کا نام دیا گیا ہے۔ منطق یہ ہے کہ اربوں روپے لوٹنے والا پکڑا بھی جائے اور پیسے واپس نہ کر سکے تو قومی خزانے کو کوئی فائدہ نہ ہو گا اس لیے جو ملے لے لو‘ اور باقی معاف کر دو۔ معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر نے اسی لیے نیب کے متعلق کہا تھا کہ بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی لیکن اگر چور اپنا ہو تو پھر لنگوٹی بھی معاف۔ نیب میں کوئی شکایت آئے تو تین مراحل میں کارروائی کا بتدریج آغاز کیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے پر انکوائری ہوتی ہے۔ اگر انکوائری کے دوران دال میں کالا نظر آجائے تو پھر دوسرے مرحلے میں باقاعدہ تحقیقات ہوتی ہے، اور تحقیقات میں کرپشن ثابت ہو جائے تو پھر تیسرے مرحلے میں استغاثہ دائر کیا جاتا ہے۔ یعنی احتساب عدالت میں کرپشن کا ریفرنس دائر کیا جاتا ہے۔ پھر احتساب عدالت جو بھی فیصلہ کرے۔ ہو یہ رہا تھا کہ کسی کے خلاف ابتدائی شکایت آتی تھی تو نیب پہلے مرحلے میں ہی ملزم کا نام مع تصویر میڈیا پر لے آتا۔ خود مجھے نیب کے اہلکاروں نے بہت سی ایسی سرکاری دستاویزات فراہم کیں‘ جس میں کسی نامور بیوروکریٹ کے خلاف شکایت پر صرف انکوائری کا آغاز ہونا تھا لیکن ابتدائی مرحلے میں ہی ڈھنڈورا پٹوانے کے لیے خبر میڈیا کو فراہم کر دی جاتی۔ انکوائری کی سطح پر ہی کسی معصوم شخص پر ملزم اور کرپٹ کا لیبل لگانا دراصل وہ صورتحال ہے جس کا وزیر اعظم نے گلہ کیا۔ یہ الگ بات کہ خود وزیر اعظم اور ان کے چند رفیق وزرا کے خلاف کرپشن کی تحقیقات تیسرے مرحلے میں جانے کی منتظر ہیں۔
عدلیہ نے اس حوالے سے بہت اہم فیصلہ کیا ہے۔ ہم نے لاہور ہائی کورٹ کے دو جج صاحبان کے خلاف مس کنڈکٹ کے ریفرنس کی خبر چلائی کہ ان دو ججوں کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کا آغاز ہو گیا ہے۔ اس خبرکا چلنا تھا کہ فوراً ہی اعلیٰ عدلیہ حرکت میں آ گئی‘ اور عدالت کی جانب سے ایک اعلامیہ جاری کر دیا گیا کہ آئندہ کسی جج کے خلاف کرپشن یا مس کنڈکٹ کی خبر اس وقت تک نہیں چلائی جائے گی جب تک سپریم جوڈیشل کونسل کا سیکرٹریٹ خود یہ خبر جاری نہ کرے۔ جج صاحبان نے تو اپنا تحفظ کر لیا‘ لیکن ہماری سول قیادت مقدس گائے نہیں۔ انہیں احتساب کے لیے اپنا دامن صاف اور گریبان چاک رکھنا ضروری ہے۔ ورنہ قربانی کی گائے کو چھریاں چاقو نظر آئیں تو اس کا ڈکرانا فطری ہے۔