سابق صدر پرویز مشرف کا مقدمہ انتہائی دلچسپ ہے۔ پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کا آغاز ان کے ملک سے جانے کے بعد ہوا۔ ایک طرف گارڈ آف آنر دے کر انہیں ملک سے باہر بھیجا گیا اور ان کے جانے کے بعد بے نظیر قتل کیس، اکبر بگٹی قتل کیس، لال مسجد آپریشن کیس اور ججوں کی نظر بندی کامقدمہ قائم کر دیا گیا۔ بعد میں غداری کا مقدمہ بھی شروع ہو گیا۔ پرویز مشرف واپس وطن آئے تو تقریباً تین سال کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی کوئی مقدمہ منطقی انجام کو نہیں پہنچا۔ اب لگتا ہے پرویز مشرف کے دوبارہ ملک سے چلے جانے کے بعد یہ مقدمات استغاثہ کا منہ چڑاتے رہیں گے یعنی سانپ نکل جانے کے بعد ہم لکیر پیٹتے رہیں گے۔
پرویز مشرف نے وزیراعظم نوازشریف کو 12اکتوبر 1999ء کو گھائل کیا تھا جب ان کی دو تہائی اکثریت رکھنے والی منتخب حکومت کو انہوں نے گھر بھیج دیا اور شریف برادران کو حوالات میں، لیکن پرویز مشرف کے اس اقدام کو نہ صرف عدلیہ نے بلکہ اسمبلی نے بھی17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے جائز قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ کے جس لارجر بنچ نے پرویز مشرف کے 12اکتوبر کے اقدامات کی توثیق کی اس کی سربراہی اس وقت کے چیف جسٹس ارشاد حسن خان نے کی اورجسٹس افتخار محمد چوہدری بھی اس بنچ میں شامل تھے۔ ان جج صاحبان نے پہلے خود پی سی اوکے تحت حلف اٹھا کر پرویز مشرف کی بیعت کی اور پھر ان کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق کرتے ہوئے انہیں آئین میں ترمیم کا اختیار بھی دے دیا۔انہی افتخار چوہدری کوجب پرویز مشرف نے دو مرتبہ ان کے عہدے سے بے دخل کیا تو ظاہر ہے وہ کیسے اپنے جذبہ عداوت کو چھپاتے۔ انہوں نے دوسری بار بحال ہونے کے بعد پرویز مشرف کے تین نومبر اور اس کے بعد کے تمام اقدمات کو غیر آئینی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ 12 اکتوبرکے اقدامات کو بھی کالعدم قراردیتے لیکن اس صورت میں انہیں اپنے خلاف بھی فیصلہ دینا پڑتا۔ اسی بنا پر ان اقدامات کو نہیںچھیڑا گیا کہ پارلیمنٹ بھی ان کی توثیق کر چکی تھی۔ آئینی و قانونی ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ کو یہ اختیار ہے کہ وہ آئین توڑنے جیسے اقدمات کو جائز قرار دے دے۔ خیر چیف جسٹس افتخار چوہدری نے تو اسی بنیاد پر اپنے پی سی او کے تحت حلف کو کبھی گناہ نہیں سمجھا، لیکن31جولائی 2009ء کوایک فیصلے میں انہوں نے پرویز مشرف کے اقدامات کو کالعدم قرار دیا تو پی سی او دور میں تعینات ہونے والے سو سے زائد ججوں کو بیک جنبش قلم گھر بھیج دیا جنہوں نے ان (افتخار محمد چوہدری) سمیت سات ججوں کے ایک حکم امتناعی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پی سی او کے تحت حلف اٹھایا تھا۔ انہیں معافی مانگنے پر مجبور کیا گیا۔ چنانچہ ایک ایک کر کے ہر پی سی او جج نے معافی مانگی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جب تین نومبر کے پی سی او ججوںسے معافی اور ناک رگڑائی کا کیس عدالت میں چل رہا تھا تو عدالت سے استدعا کی گئی کہ ججوں کے ساتھ ساتھ وہ تمام جنرل، کورکمانڈر،صوبائی گورنر، ارکان اسمبلی اور اعلیٰ حکومتی عہدیداران جو 3نومبر کی ایمرجنسی میں پرویز مشرف کے معاون تھے، ان سے بھی معافی طلب کی جائے، لیکن معاملہ جب عسکری حلقوں کی طرف جاتا ہے تو پھر انصاف کی فراہمی میں بھی جان بوجھ کر آنکھیں موند لی جاتی ہیں۔ مختلف مقدمات میں کسی بھی موڑ پر عدالت نے اپنے ججوں کے علاوہ کسی اور کو معافی مانگنے کا حکم دینے کی جسارت نہ کی، یہاں تک کہ سنگین غداری کا مقدمہ بھی مصلحتوں کا ہی شکار رہا۔
میں نے مشرف غداری کیس کی شروع سے اب تک ہر سطح پر کوریج کی ہے۔کچھ جذباتی ساتھیوں کا خیال تھا کہ اب مشرف کے گلے میں ڈلا پھانسی کا پھندا کبھی نہ نکل پائے گا۔ ان کی یہ سوچ آئین کی روح اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تھی، لیکن انھوں نے صرف نظر کیا۔ اس لیے آج ان کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ پھانسی کا پھندا تو دور کی بات پرویز مشرف قیدی ہوتے ہوئے بھی گھر جیسے ماحول سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جب ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کیے تو چک شہزاد میں ان کے فارم ہائوس کو ہی سب جیل کا درجہ دیا گیا۔ رہائی کے بعد جب مشرف کراچی منتقل ہوئے تو بھی انہوں نے پانچ سنگین مقدمات میں طلبی کے باوجود معمول کی زندگی گزاری۔ رہا باہر جانے کا معاملہ تو وہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ مقدمات درج ہونے کے بعد پرویز مشرف کو نہ جانے کس نے مشورہ دیا کہ الیکشن لڑنے کے لیے ملک واپس آجائیں، کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا؛ حالانکہ اس وقت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اپنے عہدے پر براجمان تھے۔ مشرف آئے اور پھنس گئے۔ حال ہی میں جب ای سی ایل کا معاملہ سپریم کورٹ میں آیا تو حکومت نے ان کا نام ای سی ایل میں رکھنے کے لیے زیادہ گرمجوشی نہیں دکھائی۔ حکومت نے عدالت کے کندھے پر رکھ کر بندوق چلانے کی کوشش کی تو عدالت نے بھی حکومت کی کورٹ میں گیند پھینک دی۔ اب وفاقی حکومت کو بھی علم ہے کہ پرویز مشرف کو روک کر وہ کس کی ناراضی مول لیںگے۔
پھرغداری کیس کو خراب کرنے میں خود حکومت کی بد نیتی بھی شامل ہے۔ آئین کی روح کے مطابق آئین شکنی پرغداری کا مقدمہ صرف آئین توڑنے والے پر نہیں بلکہ اس کا ساتھ دینے والے ہر شخص پر چلتا اور اسے برابر کی سزا ملتی ہے۔ آئین سازوں نے جب آرٹیکل 6 مرتب کیا تو انہیں پتا تھا کہ آئین توڑ کر ملک پر قبضہ کرنا صرف ایک آدمی کا کام نہیں ۔ لیکن ہماری حکومت یہاں تک کہ عدالتیں بھی صرف ایک شخص کو توپوں کی زد میں رکھ کر انصاف کا بول بالا چاہ رہی ہیں۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی عدالت میں پاکستان کمیونسٹ پارٹی نے ایک درخواست دائر کی تھی جس میں ان 400کے قریب ان جرنیلوں، سیاستدانوں، ارکان اسمبلی، ججوں اور بیوروکریٹس کونام لے کر فریق بنایا گیا تھا جنہوں نے تین نومبر کی ایمرجنسی کے نفاذ میں پرویز مشرف کی اعانت کی تھی۔ لیکن عدالت نے پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ بنانے کے لیے تو حکومت کو حکم دے دیا لیکن کسی شریک ملزم کو شامل کرنے کی ہدایات نہ دیں۔ یوں پرویز مشرف کا بطور مجموعی مقدمہ تضادات کا شکار رہا اور اس کا فائدہ بالآخرمشرف کو ہی ہوا۔
خلاصہ یہ کہ حکومت چاہتے ہوئے بھی مشرف کو پھانسی پر نہیں لٹکا سکی۔ آج ناقدین پوچھتے ہیں کہ ایک سابق صدر تو ملکی خزانہ کھا کر اور عوام کا خون پی کر پکڑے جانے سے پہلے ہی بیرون ملک براجمان ہوگیا، حکومت نے اس کی طرف انگلی بھی نہیں اٹھائی جبکہ پرویز مشرف‘ جس نے جمہوریت کا گلا گھونٹا‘ ان کے لیے تختہ دارتیار کیا جا رہا ہے۔ یہاں ملکی حالات کے تناظر میں ایک سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ جمہوریت کے نام پر غریب عوام کا خون چوسنے والا حکمران سخت سزا کا مستحق ہے یا جمہوریت کا خون کرنے والا آئین شکن حکمران۔ میری ناقص رائے پوچھیں تو اول الذکر۔