یہ کائنات اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ ایک توازُن پر قائم ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (1) ''سورج اور چاند ایک حساب سے چل رہے ہیں‘‘ (الرحمن: 5)، (2) ''سورج کی مجال نہیں کہ وہ (چلتے چلتے) چاند سے جا ٹکرائے اور نہ رات دن سے پہلے آ سکتی ہے اور ہر ایک (سیارہ) اپنے مدار میں تیر رہا ہے‘‘ (یٰسین: 40)، (3) ''بیشک اللہ آسمانوں اور زمینوں کو اس بات سے روکے ہوئے ہے کہ وہ (اپنے مدار سے) ہٹ جائیں اور اگر یہ دونوں (اپنے مدار سے) ہٹ جائیں تو اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے جو انہیں اپنے مرکز پر روکے رکھے۔ بے شک وہ بہت حلم والا، بہت بخشنے والا ہے‘‘ (فاطر:41)۔ اس کے برعکس قیامت کی جو علامات قرآنِ کریم میں بتائی گئی ہیں، ان میں سورج کی بساط کا لپیٹ دیا جانا، ستاروں کا بے نور ہو جانا، آسمان کا پھٹ جانا، پہاڑوں کا دھنکی ہوئی روئی اور انسانوں کا بکھرے ہوئے پتنگوں کی طرح ہو جانا، سمندروں کا بھڑکا دیا جانا، زمیں میں بھونچال آنا وغیرہ بتایا گیا ہے، یعنی یہ نظامِ کائنات درہم برہم ہو جائے گا۔ چکبست بِرج نرائن نے حیات وموت کو بھی تقریباً اسی طرح تعبیر کیا ہے:
زندگی کیا ہے، عناصر میں ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، ان اجزا کا پریشاں ہونا
اسی طرح عالمی سطح پر انسانیت کی فلاح اور بقا کا راز طاقت کے توازن پر ہے، کیونکہ اگر یہ توازن بگڑ جائے اور غالب قوت کسی ایک کے پاس آ جائے تو دوسروں کے حقوق اور آزادی پامال ہونے کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ بیسویں صدی میں دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکا اور سوویت یونین کی شکل میں دو برتر عالمی طاقتیں وجود میں آئیں اورانہوں نے اقوامِ عالم کو اپنے تابع بنانے کو اپنا مدّعا و مقصود بنایا۔ عالمی سطح پر غلبۂ اثر کی اسی کشمکش کو سرد جنگ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہ دو عالمی طاقتیں دو متضاد نظریات اور نظاموں کی علمبردار تھیں: ایک نظام سرمایہ داری کے غلبے کا تھا، اس کی قیادت امریکا کے ہاتھ میں تھی اور مغربی یورپ کے ممالک اس کے حلیف تھے۔ مغربی تہذیب یا نظریۂ حیات کے اساسی ارکان یا اقدار یہ ہیں: جمہوریت، سیکولرازم، (اُن کی اپنی تعبیر کے مطابق) لبرل ازم، حقوقِ انسانیت، آزادیٔ اظہار، سرمایہ داریت یا کیپیٹل اکانومی اور کارپوریٹ کلچر، جبکہ اس کے برعکس سوویت یونین کمیونزم اور سوشلزم یعنی اشتراکیت کا علمبردار تھا۔ بڑے پیمانے پر انفرادی ملکیت کی نفی، جمہوریت، حقوقِ انسانی اور آزادیٔ اظہار کی نفی، نیز سرمائے کی تمام صورتیں ریاست کی ملکیت تھیں اور ریاست عوام کی بنیادی ضروریات کی کفیل تھی۔ امریکا کی قیادت میں اہلِ مغرب اسے اپنے نظام اور اقدار کے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ یہ دونوں ابلیسی قوتیں تھیں، لیکن ان دونوں کی آویزش میں دیگر اقوام کے لیے کسی حد تک عافیت کا سامان تھا۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ کسی قصبے یا بڑے شہر کے کسی محلے یا محدود علاقے میں دو داداگیر ہوں، تو وہ دونوں ایک دوسرے کو آنکھیں دکھاتے رہتے ہیں، مونچھوں کو تائو دیتے ہیں، اپنے مضبوط پٹھوں کی نمائش کرتے ہیں، جتھے پالتے ہیں، لیکن حتّی الامکان ایک دوسرے سے براہِ راست تصادم سے گریز کرتے ہیں، کیونکہ اگر اُن میں سے ایک فریق کو بالفرض اپنے غلبے کا پچھتر فیصد بھی یقین ہو، تب بھی پچیس فیصد شکست کا امکان اُسے براہِ راست ٹکرائو سے روکے رکھتا ہے، کیونکہ ممکنہ شکست کی صورت میں اس کی ساری دہشت و وحشت اور سطوت و شوکت خاک میں مل جاتی۔ یہی صورتِ حال ان دونوں برتر عالمی قوتوں کی تھی۔ پھر سوویت یونین کی افغانستان پر یلغار اور دس سال سے زیادہ عرصے پر محیط طویل افغان جہادِ آزادی کے نتیجے میں آخرکار دسمبر 1991ء میں سوویت یونین کو افغانستان سے پسپائی اختیار کرنا پڑی اور وہ تحلیل ہو گئی۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں، مشرقی یورپ کے ممالک اور بالٹک ریاستوں کو آزادی مل گئی۔ دیوارِ برلن گری اور جرمنی، جو مشرق و مغرب میں بالترتیب عوامی جمہوریہ جرمنی اور وفاقی جمہوریۂ جرمنی میں منقسم تھا‘ دوبارہ متحد ہو گیا۔ اسی طرح یوگوسلاویا بھی بوسنیا، ہرزگووینا، کروایشیا، میسیڈونیا (مقدونیا)، مونٹی نیگرو، سربیا اور سلووینیا میں منقسم ہو گیا۔
سوویت یونین رشین فیڈریشن تک محدود ہوکر رہ گئی، ایٹمی صلاحیت کی حامل ایک بڑی فوجی قوت ہونے کے باوجود رشین فیڈریشن کی معیشت زمیں بوس ہو گئی، اس کی نَخوت وغرور اور شان وشوکت خاک میں مل گئی۔ اس کا پہلا صدر بورس یلسن ملک کو اٹھا نہ سکا، لیکن پھر ولادیمیر پوتن نے رشین فیڈریشن کی معیشت اور فوجی قوت کو ایک بار پھر مستحکم کیا۔ سوویت یونین کے مقابلے کے لیے امریکا نے مغربی یورپی ممالک کے ساتھ مل کر معاہدۂ شمالی بحر اوقیانوس یعنی نیٹو کا دفاعی اتحاد تشکیل دیا تھا جبکہ سوویت یونین نے اس کے مقابل مشرقی یورپی ممالک کے ساتھ مل کر وارسا پیکٹ تشکیل دیا تھا۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد اصولی طور پر نیٹو کو بھی تحلیل ہو جانا چاہیے تھا، کیونکہ جس مقصد کے لیے وہ بنایا گیا تھا، وہ مقصد انہیں حاصل ہو چکا تھا، اب مشرق کی طرف سے انہیں کوئی خطرہ درپیش نہیں تھا، لیکن اس کے برعکس نیٹو نے سوویت یونین سے نوآزاد مشرقی یورپ کے ممالک اور بالٹک ریاستوں کو بھی اپنے اتحاد میں شامل کرنا شروع کر دیا، یہ روس کے لیے ایک چیلنج بن گیا۔ شاید روس کا خیال تھا کہ یوکرائن نیٹو ممالک اور رشین فیڈریشن کے درمیان ایک بفر سٹیٹ کے طور پر رہے اور نیٹو اتحاد میں شامل نہ ہو، لیکن مغرب نے اُسے انگیخت کیا یعنی ابھارا، نیٹو میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور روس نے اسے اپنے لیے خطرہ سمجھا۔ بفر سٹیٹ سے مراد یہ ہے کہ دو حریف ممالک کے درمیان ایک ایسی ریاست ہو جو غیر جانبدار ہو اور اس کا جھکائو کسی فریق کی طرف نہ ہو مگر یوکرائن کے صدر ولادیمیر زیلنسکی امریکا اور اس کے مغربی حلیفوں کے جھانسے میں آ گئے اور اپنے ملک کے لیے ایک مصیبت مول لے لی۔ روس کے یوکرائن پر حملے کی کوئی بھی آزاد ملک حمایت نہیں کر سکتا اور اس کی بھر پور مذمت اور مزاحمت ہونی چاہیے، لیکن بڑی طاقتیں اپنے خود ساختہ قومی مفاد اور اپنے مقاصد کو دیکھتی ہیں، اصول و اقدار اُن کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔
امریکا اور اس کے یورپی حلیف ممالک یعنی نیٹو روس سے براہِ راست جنگ نہیں چاہتے، کیونکہ وہ ہمیشہ جنگوں کے تجربے دوسرے ممالک کی سرزمین پر کرتے ہیں، دوسرے ممالک کو تاخت و تاراج کرتے ہیں، جنگِ عظیم اول اور جنگِ عظیم دوم سے انہوں نے جو سبق حاصل کیا ہے، اس کے نتیجے میں ان کی پالیسی کا محور یہ ہے کہ وہ جنگی خطرات کو اپنے ممالک سے ہزاروں کلومیٹر دور رکھنا چاہتے ہیں۔ امریکا اور اس کے حلیف ممالک نے اقوامِ متحدہ اور اس کے ذیلی اداروں اورتقریباً تمام عالمی پالیسی ساز اداروں اور مالیاتی اداروں کو یرغمال بنا رکھا ہے؛ چنانچہ افغانستان، عراق، لبنان اور شام پر یلغار کرنے کے لیے اقوامِ متحدہ کے اداروں کو ہی استعمال کیا گیا۔ مشہور محاورہ ہے ''تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا‘‘؛ چنانچہ امریکہ ویتنام میں اپنی شکست کو بھول گیا اور افغانستان پر یلغار کرکے دوبارہ اس تجربے کو دہرایا۔ اِس بار اُس نے اقوام متحدہ کو استعمال کیا اور افغانستان پر یلغار کرنے کے لیے ایک بڑا عالمی اتحاد تشکیل دیا، لیکن یہ تجربہ بھی شکست سے دوچار ہوا۔ اسی طرح سوویت یونین افغانستان پر یلغار اور ذلت آمیز ناکامی کو بھلا بیٹھا اور اب روس نے یوکرین پر یلغار کر دی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آخرِکار یہاں بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے گا، جس طرح امریکا کی قیادت میں مغرب نے روس کے خلاف سخت گیر تادیبی اقدامات کیے ہیں اور شدید پابندیاں لگائی ہیں، اِس سے روس کی ابھرتی ہوئی معیشت ایک مرتبہ پھر زمین بوس ہو جائے گی اور اس جھٹکے کے اثرات اُسے دیر تک برداشت کرنا پڑیں گے۔ روس کے مفاد میں یہی ہے کہ جلد از جلد مذاکرات کی میز پر آئے، یوکرین سے انخلا کرکے امریکا اور مغرب کی عائد کردہ تجارتی، معاشی، سفارتی اور جغرافیائی پابندیوں سے اپنے لیے نجات کا راستہ نکالے اور چین کی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے براہ راست تصادم سے گریز کرے۔
چین اگر چہ امریکا کے بعددنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے، لیکن اسے عالمی اداروں اور عالمی بحری اور فضائی گزرگاہوں پر وہ کنٹرول حاصل نہیں جو امریکا کو حاصل ہے۔ چین اور روس مل کر بھی امریکا اور یورپ کا ایسا محاصرہ نہیں کر سکتے جیسا امریکا اور اس کے اتحادی کر سکتے ہیں، نیز چینی معیشت کا بڑا انحصار امریکا اور یورپ کی منڈیوں پر ہے۔ چین کو اپنی پوزیشن کا صحیح ادراک اور احساس ہے، اس لیے وہ براست راست تصادم سے گریز کرتا ہے۔ آبنائے ملاکا سے اس کی عالمی تجارت کا راستہ روکا جا سکتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ سی پیک اور ''ون بیلٹ ون روڈ انیشی ایٹو‘‘ جیسے متبادلات کے لیے شدت کے ساتھ سرگرمِ عمل ہے۔ الغرض یک قطبی عالمی بالادستی کے مقابلے میں دو متوازی عالمی طاقتوں کا نظام کمزور اقوام کے لیے ایک بہتر صورتحال پیدا کرتا ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کسی ایک کی چھتری تلے پناہ لے سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ عالمی توازن مفقود ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کا اقوام متحدہ، دیگر عالمی اداروں اور بری بحری اور فضائی گزرگاہوں پر یکطرفہ کنٹرول عدمِ توازُن کا سبب ہے اور دنیا میں اس کا سب سے زیادہ نقصان مسلم ممالک کو اٹھانا پڑا ہے۔ ان متاثرہ ممالک میں افغانستان، عراق، شام، لیبیا، یمن، ایران اور کسی حد تک پاکستان بھی شامل ہے۔ شرق اوسط کے ممالک بھی اپنی بقا امریکا اور اُس کے اتحادیوں کی بالادستی کو تسلیم کرنے اور ان کے احکام کی بجا آوری میں سمجھتے ہیں۔
اگر مسلم ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کرتے، ایک دوسرے کی مدد کرتے، اپنے وسائل اور مسائل میں ایک دوسرے کے شریک کار ہوتے، عالمی سطح پر اقتصادی، دفاعی اور سیاسی و سفارتی پالیسیوں میں ایک دوسرے کے مددگار بنتے، ایک دوسرے پر انحصار کرتے، اپنے زیر زمین اور برسر زمین موجود اقتصادی اور انسانی وسائل کو یکجا کرتے توامریکا اور اس کے اتحادیوں کے دبائو سے نکل سکتے تھے یا کم ازکم اس دبائو کو کم کر سکتے تھے، لیکن موجودہ معروضی حالات کو سامنے رکھا جائے تو اس خواب کی تعبیر مستقبلِ قریب تو درکنار، مستقبل بعید میں بھی پانا عملاً ناممکن ہے‘ سوائے اس کے کہ اللہ کی تائید و نصرت سے عالمِ کفر کی بچھائی ہوئی شطرنج کی یہ بساط الٹ جائے اور پردہ غیب سے کوئی غیر معمولی صورتحال نمودار ہوجائے، وما ذٰلک علی اللّٰہ بعزیز!