آج کی دنیا میں حکمرانی کے انداز و اطوار اور آداب سکھانے کے لیے یونیورسٹیوں میں نصاب پڑھائے جاتے ہیں، اعلیٰ درجے کی شہادات (Degrees) عطا کی جاتی ہیں، اس حوالے سے یونیورسٹیوں میں پولیٹیکل سائنس، بین الاقوامی تعلقات، سفارت کاری اور حُسنِ اہتمام (Management) کے شعبے قائم ہیں۔ اسی طرح اقتصادی منصوبہ بندی بھی قومی اور ملکی نظم بندی اور ارتقا کے لیے لازمی حیثیت رکھتی ہے، مگر بعض اشخاص و افراد کو خداداد صلاحیتیں مبدأ فیاض سے عطا ہوتی ہیں۔
احمد حسن زیات نے کہا ہے: عربی ادب کے ارکانِ اربع چار کتابیں ہیں: (1) اِبْنِ قُتَیْبَہ کی ''اَدَبُ الْکَاتِبْ‘‘، (2) جاحظ کی ''اَلْبَیَان وَالتَّبْیِیْن‘‘، (3) اَبُوالْعَباس اَلْمُبَرَّدْ کی ''اَلْکَامِلْ فِی اللُّغَۃِ وَالْاَدَبْ‘‘، (4) ابوعلی القالی کی ''اَلْاَمَالِیْ‘‘۔
امیر المؤمنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ''ہم نے حکمرانی بھی کی ہے اور ہم محکوم بھی رہے ہیں‘‘، اَبُوالْعَباس اَلْمُبَرَّدْ کہتے ہیں: ''یہ بہت جامع کلمہ ہے اور اس کا مقصد یہ ہے: ہم حکمران بنے تو ہمیں پتا چلا کہ حاکم کے لیے کون سی باتیں مفید ہیں اور ہم محکوم بھی رہے تو ہمیں پتاچلا کہ رعایا کے حق میں کون سی باتیں مفید ہیں‘‘۔ آپ کے فرمان کا جوہر یہ ہے کہ تجربہ انسان کو بہت کچھ سکھا دیتا ہے۔ نظریات جب عمل کے قالب میں ڈھلتے ہیں، تو اُن کی خوبیوں اور خامیوں کا پتاچلتا ہے، اُس کے نتیجے میں انسان کے اندر اصولوں پر سمجھوتا کیے بغیر حالات سے مطابقت کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ حقائق انسان کی آنکھیں کھول دیتے ہیں، بشرطیکہ کوئی صاحبِ نظر ہو، ورنہ امام احمد رضا قادری نے کہا ہے: ''دیدۂ کور کو کیا آئے نظر، کیا دیکھے‘‘۔ علامہ اقبال نے کہا ہے:
اے اہلِ نظر! ذوقِ نظر خُوب ہے، لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے، وہ نظر کیا
یہی بات اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں بیان فرمائی ہے: (1) ''کیا انہوں نے زمین میں چل پھر کر نہیں دیکھا کہ اُن کے لیے ایسے دل ہوتے جن کے ذریعے وہ (اشیا کی حقیقتوں کو) سمجھ لیتے یا ایسے کان ہوتے، جن سے وہ (حق کی آواز کو) سن لیتے، کیونکہ درحقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں، بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں (دھڑکتے) ہیں‘‘ (الحج: 46)، (2) ''اور جس نے میرے ذکر سے اعراض کیا تو اس کی زندگی یقینا بہت تنگی میں گزرے گی اور قیامت کے دن ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے، وہ کہے گا: اے میرے رب! تو نے مجھے اندھا کیوں اٹھایا، حالانکہ میں (دنیا میں دانا و) بینا تھا، اللہ فرمائے گا: اسی طرح تیرے پاس میری نشانیاں آئی تھیں تو تُو نے ان کو نظر انداز کر دیا تھا اور اسی طرح آج تجھے بھی نظر انداز کر دیا جائے گا‘‘ (طہٰ: 124 تا 126)۔
اردو کا محاورہ ہے: ''پُوت کے پائوں پالنے میں ہی پہچانے جاتے ہیں‘‘، یعنی کسی کی شخصیت کا جوہر اور حُسن و قُبح شروع ہی میں نمایاں ہو جاتے ہیں، نیک بختی اور بدبختی کا حال بچپن ہی میں حرکات و سکنات اور رجحانات سے عیاں ہونے لگتا ہے۔ تاریخ میں لکھا ہے: بنو امیہ کے ایک خلیفہ عبدالملک بن مروان لڑکپن میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے، ایک قیافہ شناس کی اُن پر نظر پڑی تو بلاکر کہا: ''اگر میں تمہیں بشارت دوں کہ تم بادشاہ بنو گے، تو تم مجھے کیا انعام دو گے؟‘‘، عبدالملک بن مروان نے جواب دیا: ''اگر میں آپ کو انعام دوں تو کیا مجھے وقت سے پہلے بادشاہت مل جائے گی؟‘‘، اس نے کہا: ''نہیں!‘‘، اس نے پھر پوچھا: ''اگر میں آپ کو انعام نہ دوں تو کیا مجھے بادشاہت ملنے کا وقت ٹَل جائے گا؟‘‘، اس نے کہا: ''نہیں!‘‘، تو عبدالملک نے کہا: ''پھر میں آپ کو انعام کس لیے دوں؟‘‘۔
رسول اللہﷺ کو بھی اللہ تعالیٰ نے مردم شناسی اور انسانی جوہر کو پہچاننے اور انسان کے باطن میں جھانکنے اور اس کی صلاحیتوں کے ادراک کا ملکہ عطا فرمایا تھا؛ چنانچہ آپﷺ نے فرمایا: ''لوگوں کی مثال کانوںکی سی ہے، جیسے سونے اور چاندی کی کانیںہوتی ہیں، سو ان میں سے جو زمانۂ جاہلیت میں اعلیٰ انسانی جوہر کا حامل تھا، اسلام قبول کرنے کے بعد جب وہ فقیہ بن گئے تو ان کی وہ فضیلت قائم رہی‘‘ (مسلم: 2638)۔ علامہ علی القاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں: انسانیت کے حوالے سے ''معدِن‘‘ سے مراد انسانی جبلّتوں کا جوہر اور خیر کی وہ فطری استعداد ہے، جسے مسلسل تربیت و ریاضت سے نکھارا جا سکتا ہے، جیسے سونا، چاندی، ہیرے اور جواہرات زمین میں چھپے ہوتے ہیں، پھر انہیں نکالا جاتا ہے، ان کی تراش خراش کی جاتی ہے، ان کے اندر سے کھوٹ کو نکالا جاتا ہے، انہیں پالش کر کے چمکایا جاتا ہے، سو وہی پتھر جو کبھی پائوں کی ٹھوکر میں تھا، بادشاہوں کے تاج میں سجایا جاتا ہے اور گلے کا ہار بنایا جاتا ہے۔ مگر جوہرِ قابل کو تلاش کرنے اور نکھارنے کے لیے جوہری ہونا چاہیے۔ فارسی کی ضرب المثل ہے: ''قدرِ زر زرگر شناسد، قدرِ جوہر جوہری‘‘ یعنی سونے کی قدر سنار جانتا ہے اور ہیرے کی قدر جوہری جانتا ہے۔ ہیرے کو تاج کی زینت بننے تک کئی مراحل سے گزارا جاتا ہے۔ شاعر نے کہا ہے:
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا، تب نگیں ہوا
پس سیّد المرسلین رحمۃ للعالمینﷺ انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کیے ہوئے جوہرِ کمال (Talent) کے شناور تھے اور وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ملکہ اور علم سے جان لیتے تھے کہ کون سا انسانی ہیرا کس شعبے میں کمال رکھتا ہے اور اس کی استعداد کو کیسے نکھارا جا سکتا ہے؛ چنانچہ نگاہِ نبوت نے حضرت عمرؓ بن خطاب کی شخصیت کے جوہرِ کمال کو پہچان لیا تھا، اسی لیے آپﷺ نے اسلام کی عزت و شوکت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: ''اے اللہ! تو عمر بن خطاب سے اسلام کو غلبہ عطا فرما‘‘ (سنن ابن ماجہ: 105) اور ایسا ہی ہوا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ''ہم (اپنی کمزوری کے باعث) کعبہ کے پاس نماز نہیں پڑھ سکتے تھے یہاں تک کہ عمرؓ بن خطاب نے اسلام قبول کیا، پس جب وہ اسلام لے آئے تو انہوں نے قریش سے مقابلہ کیا اور پھر انہوں نے کعبہ کے پاس نماز پڑھی اور ہم نے بھی ان کے ساتھ نماز پڑھی‘‘ (سیرت ابن ہشام، ج: 1، ص: 380)۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: عمرؓ بن خطاب کے سوا میں کسی کو نہیں جانتا کہ جس نے عَلانیہ ہجرت کی ہو۔ پس جب انہوں نے ہجرت کا ارادہ کیا تو تلوار لٹکائی، کمان باندھی، تیر ہاتھ میں لیے اور کعبہ میں آئے، اُس وقت اشرافِ قریش صحن کعبہ میں موجود تھے، انہوں نے بیت اللہ کے سات چکر لگائے، پھر مقامِ ابراہیم پر دو رکعت نماز پڑھی، پھر ایک ایک کر کے قریش کے پاس گئے اور کہا: تمہارے چہرے رسوا ہو جائیں، تم میں سے جو چاہتا ہو کہ اس کی ماں اُسے روئے اور اس کے بچے یتیم ہو جائیں اور اس کی بیوی بیوہ ہو جائے، تو حدودِ حرم سے باہر میرا سامنا کر لے، لیکن کوئی بھی ان کا راستہ روکنے نہیں آیا۔ (تاریخ الخلفاء، ج: 1، ص: 94، بحوالہ ابن عساکر) بعض نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے، لیکن فضائل میں ضعیف احادیث معتبر ہوتی ہیں۔
خوارج کا ایک لیڈر واصل بن عطا عجیب و غریب خصلتوں کا حامل تھا، وہ زبان میں لکنت کی وجہ سے ''ر‘‘ کو صحیح طریقے سے ادا نہیں کر سکتا تھا، لہٰذا وہ اپنے کلام میں ''ر‘‘ کو لانے سے اجتناب کرتا تھا اور اس کی قادر الکلامی اور زبان و بیان پر عبور کی وجہ سے کسی کو اس کے اس عیب کا پتا بھی نہیں چلتا تھا؛ چنانچہ وہ اپنے کلام میں '' بُرّ (گندم)‘‘ کی جگہ '' قُمح‘‘ استعمال کرتا۔ ''شعر‘‘ کی جگہ ''بیت‘‘ کا لفظ لے آتا اور ''مَطَر (بارش)‘‘ کی جگہ ''غَیْث‘‘ کا لفظ استعمال کرتا، اسی طرح وہ ''فِرَاش‘‘ اور ''مَرقَد (قبر کو بھی کہتے ہیں اور سونے کی جگہ کو بھی کہتے ہیں)‘‘ کی جگہ ''مَضْجَعْ (ٹیک لگانے کی جگہ)‘‘ کہتا، ''لَاَ رْسَلْتُ اِلَیْہ (میں نے اس کی طرف بھیجا)‘‘ کی جگہ ''لَبَعثْتُ اِلَیْہِ‘‘کہتا۔ ایک شخص کی کنیت ''اِبْنِ بُرْد‘‘ تھی، نام ''بشار‘‘ تھا اور وہ ضریر (اندھا) تھا، ان تینوں میں ''ر‘‘ آتا ہے، لہٰذا وہ ''ر‘‘ سے بچنے کے لیے اُسے ''ھٰذَا الاَعْمٰی‘‘ (یہ اندھا) کہتا تھا (الکامل للمبرّد، ج: 3، ص: 34 تا 35)۔
یہ کلمات تمہید کے طور پر لکھے ہیں، کہنے کا مطلب یہ ہے: ''ہمارے وزیراعظم جنابِ عمران خان کے لیے 2011ء سے اُن کی سیاست کا بندوبست کیا گیا، قابلِ انتخاب لوگوں کو اُن کے قریب کر دیا گیا، میڈیا کو اُن کے لیے جانب دار بنا دیا گیا، اُن کے جلسوں کے اجتماعات کو ہزاروں اور لاکھوں بنا کر دکھایا گیا، اُن کے مخالفین کی کردار کشی اور الزامات و اتہامات کے لیے زبان و قلم کے شہسوار منتخب کر کے اُن کی خدمات بلامعاوضہ انہیں فراہم کر دی گئیں، ''اشارے‘‘ کی بات کی گئی اور اشارہ کرنے والے کے لیے نجانے کیا کیا اصطلاحات وضع کی گئیں تاکہ بات بھی بن جائے اور جان بھی سلامت رہے، اس کے باوجود بعض کو ابتلا سے گزرنا پڑا۔
الغرض مقامِ افتخار پر فائز ہونے اور تاریخ میں نام پانے کے لیے ذہنی، فکری اور عملی جدوجہد درکار ہوتی ہے، بیساکھیوں کے بجائے اپنی قامت پر استقامت کے ساتھ کھڑا ہونا پڑتا ہے، اس کے لیے تدبّر و تفکُّرکی طویل ریاضت و مجاہدے سے گزرنا پڑتا ہے، اس کے نتیجے میں قیادت کے اندر تدبُّر، تَحَمُّل، حکمت و فراست، دانش و بینش، متضاد اشخاص اور متضاد آراء کے درمیان مطابقت کا ملکہ پیدا ہوتا ہے۔ کبھی خیرِ کامل، کبھی خیرِ کثیر اور کبھی شرِّ قلیل کے ساتھ بھی گزارہ کرنا پڑتا ہے، '' کچھ لو اور کچھ دو‘‘ سے کام لینا پڑتا ہے، قوم و ملک کے عظیم تر مفاد میں نہ چاہنے کے باوجود دوسروں کے ساتھ مل بیٹھنا پڑتا ہے۔ عُجبِ نفس، کِبر وغرور، نخوَت اور بے جا تعلّی سے گریز کرنا پڑتا ہے، نفس کی اَنا کے گھوڑے کو مصلحت کی لگام دینا پڑتی ہے، پِتّا مارنا پڑتا ہے، دوسروں کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ لیکن شطرنج کی ساری بساط تیار ملنے کی وجہ سے ہمارے وزیراعظم نہ ان تجربات سے گزرے اور نہ ان شخصی خوبیوں سے اُن کی شخصیت مزیّن ہوئی، بس اَنا پرستی اور ''ہمچو ما دیگرے نیست‘‘ اُن کا موٹو قرار پایا۔ خواجہ محمد وزیر نے کہا ہے:
اسی خاطر تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے تھے
اکیلے پھر رہے ہو، یوسفِ بے کارواں ہو کر
مطالعے کی عادت ڈالنی چاہیے، معرکہ آرا کتابیں پڑھنا چاہئیں، ماضی کے حکمرانوں کی کامیابیوں اور ناکامیوں کا معروضی جائزہ لینا چاہیے، موضوعی سوچ سے گریز کر کے اور ذہنی تعصّبات سے آزاد ہوکر حقائق کا ادراک کرنا چاہیے، اسی سے شخصیت کو نکھار ملتا ہے۔