"MMC" (space) message & send to 7575

بندوبستی جمہوریت

حکمرانی تدبّر، فراست، حکمت، اپنے پیروکاروں سے ملائمت اور مخالفین سے نہ چاہتے ہوئے بھی مفاہمت و مطابقت کا نام ہے۔ مسندِ اقتدار پر فائز ہونے کے بعد انتخابی مہم کے غُبار اور خُمار کو ایک طرف رکھ کر فضا کو ٹھنڈا کرکے آگے بڑھنے کا نام ہے۔ ہر قسم کے شور و غوغا، تصادم، فساد اور ارتعاش سے صرف اپوزیشن کو فائدہ پہنچتا ہے۔ ماضی میں ہم تابعِ فرمان جمہوریت کے تجربے سے گزرتے رہے۔ یہ نظام اس مفروضے پر قائم تھا کہ سیاستدان غیر ذمہ دار ہوتے ہیں، حُبّ الوطنی اور قومی مفادات کی اصل محافظ مقتدرہ ہے لہٰذا سیاستدانوں پر مکمل بھروسا نہیں کیا جاسکتا۔ یہی سوچ جمہوری قیادت اور مقتدرہ کے درمیان بے اعتمادی کا سبب رہی اور دوریاں پیدا ہوتی رہیں۔
پھر 2011ء سے احمد شجاع پاشا نے بندوبستی جمہوریت کا آغاز کیا۔ ظاہر ہے یہ ایک فرد کا فیصلہ نہیں ہو سکتا‘ یقینا اجتماعی سوچ اس کے پیچھے کارفرما ہو گی؛ چنانچہ 30 اکتوبر2011ء کو مینارِ پاکستان میں اس تجربے کا آغاز ہوا۔ میوزک، رقص، مرد و زن کا اختلاط اور برگر کلاس کے لیے دلچسپی کا سامان اس کے اجزائے ترکیبی تھے۔ یہ فرض کر لیا گیا تھا کہ جنابِ عمران خان کی کرشماتی شخصیت اس نظام کی مقبولیت کے لیے اثاثہ ثابت ہو گی۔ اسی تسلسل میں 2014ء کا طویل دھرنا، عالَمِ غیب سے پاناما کا نزول ہوا، پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر چنیدہ افراد پر مشتمل جے آئی ٹی قائم ہوئی اور آٹھ کارٹن پر مشتمل تحقیقاتی مواد تیار کیا گیا۔ اس تاریخی کارنامے کو انجام دینے والے سپریم کورٹ کے ایک عالی مرتبت جج صاحب کے ریمارکس کے مطابق ہیرے تھے، لیکن پھر یہ بھی کام نہ آئے اور عدلیہ کی عالمی تاریخ میں ایک منتخب وزیراعظم کی معزولی اور مستقل نااہلی کے لیے دبئی کے اقامے کو جواز بنایا گیا، اس کا آج تک تمسخر اڑایا جا رہا ہے۔ اس موقع پر ایک معزز منصف نے کہا تھا: ''نااہل قرار دینے کے لیے ہمیں دریا کے بہائو کی مخالف سَمت میں بھی جانا پڑا تو دریغ نہیں کریں گے‘‘، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
آخرکار 2018ء کے قومی انتخابات کے لیے قبل از انتخابات انتظامات کیے گئے، قابلِ انتخاب امیدوار پاکستان تحریک انصاف میں شامل کیے گئے، نامزدگی فارم واپس لینے کی آخری تاریخ پر مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ یافتہ امیدواروں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں تاکہ اُنہیں متبادل امیدواروں کو ٹکٹ جاری کرنے کا موقع ہی نہ ملے، پولنگ سٹیشنوں کے اندر (حفاظت کی غرض سے) فوج تعینات کی گئی، ووٹوں کی گنتی کے وقت سیاسی پارٹیوں کے پولنگ ایجنٹوں کو نکال باہر کیا گیا، پریزائڈنگ افسران کی مہر اور دستخطوں سے فارم 45 جاری نہیں کیے گئے۔ پہلی بار آر ٹی ایس سسٹم ایجاد کیا گیا، لیکن پھر بھی پی ٹی آئی کو اتنی اکثریت نہ مل سکی کہ بلاشرکتِ غیرے حکومت بناسکے۔ اس لیے دوسری چھوٹی جماعتوں کو حکومتی اتحاد کا حصہ بنایا گیا، آزاد منتخب امیدواروں کو پی ٹی آئی میں شامل کیا گیا اور اس طرح جنابِ عمران خان کی حکومت وجود میں آئی۔ بلوچستان میں ثناء اللہ زہری کی حکومت کو گرا کر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ اور صادق سنجرانی کو سینیٹ کا چیئرمین بنانے اور بعد میں اُن کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک کو ناکام بنانے، بجٹ کی منظوری، قانون سازی کے معمول کے طریقۂ کار کو معطل کر کے راتوں رات درجنوں قوانین کو پڑھے بغیر منظور کرانے کے لیے یہی کرامت دکھائی گئی۔ چنانچہ ہمیں تمام ذمہ دار شخصیات نے بتایاکہ یہ قوانین اوپر سے نازل ہوئے تھے، ہمیں ان کا مطالعہ کرنے کا موقع بھی نہیں ملا اور عجلت میں پارلیمنٹ سے پاس کرائے گئے۔
باہر سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانے اور دو سو ماہرین پر مشتمل ٹیم سے نظام چلانے کے دعوے ہوا میں تحلیل ہو گئے اور ایک سال بعد وزیراعظم کو اعتراف کرنا پڑا کہ ہمیں نظامِ حکومت بہت دیر سے سمجھ میں آیا۔ 1960کے عشرے میں ریڈیو پاکستان کی مقبولیت کے دور میں کسی نغمے کا یہ مصرع بسوں میں سماعتوں سے ٹکراتا تھا: ''باتیں فلک کی، قصے زمیں کے، جھوٹے کہیں کے‘‘، سو صورتِ حال کچھ ایسی ہی رہی۔ باہر سے لوٹا ہوا زرِ مبادلہ لانا تو درکنار، قوم کے ٹیکسوں کی کمائی سے براڈ شیٹ کو کئی ملین پائونڈ ادا کرنا پڑے، ریکوڈک کے چھ ارب ڈالر جرمانے سے نجات کے لیے نیا معاہدہ کرنا پڑا، جس کی تفصیلات پردۂ غیب میں ہیں، جب یہ پردہ اٹھے گا تو پتا چلے گا کہ قومی اثاثے کس قیمت پر نیلام کیے گئے۔
داخلی قلّت کے باوجود چینی اور گندم کی برآمد اور پھر درآمد، دوائوں کے سکینڈل، براڈ شیٹ سکینڈل، راولپنڈی رِنگ روڈ سکینڈل، بلین ٹری منصوبہ، بی آر ٹی پشاور، شہزاد اکبر کے کارنامے، پنجاب میں اعلیٰ بیورو کریسی کے پے درپے تبادلے، الغرض کسی ایک سکینڈل کی بھی نتیجہ خیز انکوائری سامنے نہ آئی۔ براڈ شیٹ سکینڈل کی تحقیق کے لیے جسٹس (ر) شیخ عظمت سعید پر مشتمل یک رکنی کمیشن بنایا گیا، حالانکہ وہ خود اس کا حصہ تھے کیونکہ وہ اس وقت نیب کے پراسیکیوٹر جنرل تھے اور لیفٹیننٹ جنرل امجد شعیب نیب کے چیئرمین تھے، پھر لیفٹیننٹ جنرل منیر حفیظ چیئرمین بنے، بعد میں پراسیکیوٹر جنرل فاروق آدم خان تھے، ان میں سے کسی کو تحقیق وتفتیش میں شامل نہیں کیا گیا اور علامتی طور پر چند بیوروکریٹس کو نامزد کر کے معاملے کو داخلِ دفتر کردیا گیا۔
بندوبستی جمہوریت کا نقصان یہ ہوا کہ جنابِ عمران خان انانیت، خود پرستی، عُجب، تکبر، برخود راستی، دوسروں کی توہین، تحقیر اور تذلیل میں ساری حدوں کو عبور کر گئے، انہوں نے اپنے گِرد و پیش اور سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کا جمِ غفیر تیار کیا جو اُن کے اس ذوق کی تعمیل میں صرف دو آتشہ نہیں، بلکہ مکمل آتش بداماں اور شعلہ بدہن تھے۔ اس لیے ''میری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی‘‘ کے مصداق جنابِ عمران خان کی شخصیت ایک قومی قائد اور قومی رہنما کے طور پر ابھرنے کے قابل ہی نہ تھی، کیونکہ دوسروں کو آزار و ایذا پہنچانا اُن کی فطرتِ ثانیہ ہے، وہ دوسروں کو بے توقیر کرکے اپنی بے توقیری کا سامان تو کرسکتے ہیں، دوسروں کی عزت کر کے عزت کمانا اُن کے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ ترتیب سے رکھے ہوئے دانوں کو بکھیرنا تو جانتے ہیں، بکھرے ہوئے دانوں کو جمع کر کے قوم کی صورت گری کرنا اُن کے مزاج کا حصہ نہیں ہے۔
سیاسی حریفوں کو تو چھوڑیے! وہ اپنے حلیفوں کو بھی عزت دینے اور وعدوں کی پاسداری کے روادار نہیں رہے، اُن کا اپنے بارے میں یہ زعم ہے کہ پورے ملک میں اُن کا مقابل کوئی نہیں ہے، اُن کے علاوہ سب خائن، چور اور بے ایمان ہیں، فقط اُن کی ذات ہی معیار و مدارِ ایمان ہے۔ اب آخرمیں آ کر انہوں نے ریاستِ مدینہ سے آگے بڑھ کر ''اَمر بالمعروف‘‘ کو اپنی تشہیری مہم کا عنوان بنایا، حالانکہ اُن کی زندگی اور گرد و پیش میں ''معروف‘‘ تلاشِ بسیار کے باوجود دستیاب نہیں ہوگا۔ جنابِ شاہنواز فاروقی تو فواد چودھری کو اُن کا ''نفسِ امّارہ‘‘ کہتے ہیں، ماہرِ دُشنام شہباز گِل، الٹرا لبرل شیریں مزاری اور بدکلامی کے امام مراد سعید وغیرہ میں سے کون ہے جس کو ''معروف‘‘ سے کوئی نسبت ہو یا پھر خان صاحب کے نزدیک ''معروف‘‘ اور ''مُنکَر‘‘ کی اپنی کوئی تعریف ہوگی، جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ 2011ء سے تاحال اُن کے تمام خطابات خود پسندی اور دوسروں کی توہین و تذلیل کا مرقّع ہیں، چونکہ انہوں نے آزاد ماحول میں نشو و نما پائی ہے، اس لیے وہ رشتوں کی تقدیس اور حرمت سے نا آشنا ہیں، بس وہ اپنی ذات کے حصار میں قید ہیں اور اُن کی خوش نصیبی ہے کہ اسی قماش کے لوگ انہیں مل گئے ہیں، اُن کی ٹیم میں کوئی ''رَجُلِ رشید‘‘ نہیں ہے، اگر کوئی ہے تو وہ بے اثر ہے، جب وزیر مذہبی امور بھی انہیں ''امام العاشقین‘‘ ثابت کرنے پر تُلے بیٹھے ہوں تو اصلاح کون کرے گا۔
قرآن وسنّت کا ''معروف‘‘ تو دوسروں پر اتہام و الزام، دشنام، تمسخر و استہزا، تنابُز بالالقاب (برے ناموں سے پکارنا) اور طعن وتشنیع کی اجازت نہیں دیتا۔ اسی طرح کسی کو مجرم قرار دینا عدالتوں کا کام ہے، جو انہوں نے خود سنبھال رکھا ہے، جبکہ اپنے دور کے کسی مجرم کو انہوں نے عدالتوں سے عبرت ناک سزا نہیں دلوائی۔ دوسری جماعتوں پر اُن کا الزام تھا کہ ان میں جمہوریت نہیں ہے، لیکن پھر اُن کی جماعت بھی اُسی رنگ میں رنگ گئی اور اپنے مخالفین کی طرح نامزدگیوں پر گزارہ کیا جا رہا ہے۔ دوسروں پر الزام تھا کہ انہوں نے بہتّر سال میں ملک پر تیس ہزار ارب روپے کے داخلی اور بیرونی قرض چڑھائے، مگر انہوں نے اپنے تین‘ چار سالوں میں سارے ریکارڈ توڑ دیے اور کہا جاتا ہے کہ ان کے دور میں قومی قرضوں میں بیس تا بائیس ہزار ارب روپے کا اضافہ ہو گیا ہے، جبکہ برسرِ زمین ان کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
البتہ ان کی ایک حکمتِ عملی کی داد دینا پڑتی ہے کہ مخالفین پر اتنی یلغار کرو اور الزامات کی اتنی بھرمار کرو کہ انہیں تن بدن کا ہوش نہ رہے اور وہ دفاع پر مجبور ہو جائیں اور جوابی یلغار کا انہیں ہوش نہ رہے۔ وہ انگریزی کے اس فارمولے پر لفظاً و معناً کامیابی کے ساتھ عمل پیرا ہیں : ''جارحیت بہترین دفاع ہے‘‘۔ اُن کے سیاست و حکمرانی کے اثاثے میں اپنی مارکیٹنگ کے لیے کوئی پروڈکٹ نہیں ہے، اس لیے دوسروں کی حقیقی یا مفروضہ خامیوں پر گزشتہ پندرہ سال سے اُن کی سیاست چل رہی ہے۔ ساڑھے تین سال کی حکمرانی کے باوجود ہر خرابی اور ناکامی کا ملبہ وہ اپنے سابقین پر ڈالتے ہیں، تو سوال یہ ہے :''حضور! آپ اسی کے ازالے کے لیے تو آئے تھے، اگر اب بھی آپ ذمہ داری قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں، تو اس کا ذمہ دار کون ہے‘‘۔ آپ کے بقول آپ کو مقتدرہ کی پوری حمایت حاصل رہی، بلکہ مقتدرہ کے ایک ذمہ دارنے صحافیوں کو ہدایت کی: ''معیشت اگر اچھی نہیں ہے، تو بری بھی نہیں ہے، چھ ماہ تک آپ لوگ زبان بند رکھیں، قلم روکے رکھیں اور سب اچھا ہے کی خبر دیں‘‘، لیکن اب ساڑھے تین سال بعد بھی اچھی خبر کہیں سے نہیں آ رہی۔ ماہرِ معیشت ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا: ''سری لنکا کی طرح پاکستان بھی دیوالیہ پن کے قریب ہے‘‘، واللہ اعلم بالصّواب۔ الغرض مقتدرہ نے محدود جمہوریت کے تجربے کے بعد جس ''بندوبستی جمہوریت‘‘ کا تجربہ کیا، اب وہ خود بھی اس سے مایوس ہوگئے ہیں، ہماری رائے میں اب آئین پر لفظًا ومعنًا عمل کرنے میں ملک وقوم کی بہتری ہے اور اگر ناکام تجربات کے بعد مقتدرہ نے اس راز کو پا لیا ہے، تو یہ ایک اچھی خبر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں