پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کامیاب ہونے کے بعد پاکستان ایک آئینی بحران سے گزر رہا ہے، ملک و قوم کو اس طرح کی صورتِ حال اس سے پہلے پیش نہیں آئی تھی۔ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان، سینیٹ کا چیئرمین، قومی و صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اگرچہ حکمراں جماعت یا حکمراں اتحاد کے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں، لیکن اپنی آئینی ذمہ داریوں کے اعتبار سے ان مناصب پر منتخب ہونے کے بعد ان شخصیات کو کسی حد تک غیر جانبداری کا تاثر دینا ہوتا ہے‘ توازن قائم رکھنا پڑتا ہے۔ اگرچہ اُن کا جھکائو حکمراں جماعت کی طرف رہتا ہے لیکن اس انداز سے نہیں جس کا مظاہرہ ہم نے تحریکِ عدمِ اعتماد کے بعد دیکھا۔ اسی طرح صوبائی گورنروں کا تقرر اگرچہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان، وزیر اعظم کی سفارش پر کرتے ہیں لیکن گورنرکا عہدہ بھی آئینی ہوتا ہے، اسے بھی توازن رکھنا پڑتا ہے۔ وہ وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ اس کے پاس سیاسی اور انتظامی اختیارات نہیں ہوتے۔ سارا صوبائی حکومتی ڈھانچہ وزرائے اعلیٰ کے کنٹرول میں ہوتا ہے۔ گورنر صوبے کا علامتی سربراہ ہوتا ہے اور صوبے اور وفاق کے درمیان رابطۂ کار کے فرائض انجام دیتا ہے‘ اسے صوبائی اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کی توثیق کرنا ہوتی ہے‘ صوبائی اسمبلی کے منتخب کردہ وزیراعلیٰ اور وزیراعلیٰ کے نامزد صوبائی وزراء اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کا حلف لینا ہوتا ہے، اُسے خود وزرا مقرر کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔
اسی طرح صدرِ پاکستان کو قومی اسمبلی کے منتخب کردہ وزیراعظم اور وزیراعظم کے نامزد وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت کا حلف لینا ہوتا ہے، صدرِ پاکستان کو چیف جسٹس آف پاکستان، چیئرمین نیب، وفاقی محتسب اور آڈیٹر جنرل پاکستان کے عہدے کا بھی حلف لینا ہوتا ہے، ان مناصب کے لیے صدر کو وزیراعظم کے مشورے پر عمل کرنا ہوتا ہے، اُسے ان مناصب پر خود انتخاب کا اختیار نہیں ہوتا۔ اسی طرح صدر پارلیمنٹ کے منظور کردہ قوانین کی توثیق کرتا ہے، اگر قومی اسمبلی کا اجلاس جاری نہ ہو اور کسی شدید ضرورت کے تحت آرڈیننس جاری کرنا ہو تو یہ آرڈیننس صدر کے دستخط سے جاری ہوتا ہے۔ بعد میں پارلیمنٹ سے اس کی توثیق ضروری ہوتی ہے۔ اگر صدر کے جاری کردہ آرڈیننس کی پارلیمنٹ سے توثیق نہ کرائی گئی ہو تو ایک سو بیس دن کے بعد وہ غیر مؤثر ہو جاتا ہے، لیکن اس عرصے میں اس کے تحت جو اقدام کیے گئے ہوں، وہ مؤثر رہتے ہیں۔ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے، اُسے سب کے لیے قابلِ احترام ہونا چاہیے اور اس احترام کو قائم رکھنے کے لیے اُسے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔ منتخب ہونے کے بعد صدر صرف حکمراں جماعت کا نمائندہ نہیں ہوتا، بلکہ پوری ریاست کا آئینی سربراہ ہوتا ہے۔
حالیہ تحریکِ عدمِ اعتماد کے بعد صدرِ پاکستان، قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکراور پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے جو کردار ادا کیا، اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ اس کے نتیجے میں ملک ایک آئینی بحران سے دوچار ہے۔ ان آئینی مناصب پر فائز شخصیات کو دستور کے فریم ورک کا پابند بنانے کے سلسلے میں نظامِ عدل کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آج متاثرہ فریق کوئی ہے اور آنے والے کل کو یہ پوزیشن بدل بھی سکتی ہے۔ اس لیے اب ضرورت اس امر کی ہے کہ آئینی ترمیم یا قانون سازی کے ذریعے ان ابہامات کو دور کیا جائے تاکہ دستوری منصب پر فائز کوئی شخص بدنیتی یا جانب داری سے دستوری نظام میں رکاوٹ نہ ڈال سکے‘ معمول کے فرائض اور ذمہ داریوں میں تعطل پیدا نہ کر سکے۔ اگر خدانخواستہ کوئی ایسا کرتا ہے تو عدلیہ کے پاس اسے آئین و قانون کا پابند بنانے کے لیے حاکمانہ اختیارات ہونے چاہئیں، ورنہ ہمارا دستوری نظام بازیچۂ اطفال بن جائے گا، جیساکہ پوری قوم نے مشاہدہ کیا ہے۔ کیونکہ پارٹی سربراہ کی ہدایات اور خواہشات کو آئینی تقاضوں پر غالب کر کے مذکورہ بالا افراد نے کوئی قابلِ رشک کردار ادا نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اِن عہدوں کی حُرمت کو پامال کیا ہے، یہ پورے دستوری نظام کو جام کرنے کے مترادف ہے۔ اگر سپریم کورٹ آف پاکستان اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے رات کو بارہ بجے عدالت نہ لگاتی تو وفاق بھی اُسی جمود کا شکار ہو جاتا، جس کا مظاہرہ ہم نے پنجاب میں دیکھا۔ ہو سکتا ہے کہ اِس وقت یہ آئینی عہدیدار اسے اپنا کمال سمجھتے ہوں، لیکن تاریخ میں اس کا ذکر کبھی بھی سنہرے الفاظ سے نہیں کیا جائے گا۔
یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نظامِ آئین و قانون میں کیا چیز سپریم ہے؟اسلام کی رُو سے تو قرآن وسنت اور اسلامی شریعت ہر چیز سے بالاتر ہیں، لیکن ہمارے ملک میں ایک تحریری دستور ہے، جو قومی میثاق کہلاتا ہے۔ پارلیمنٹ، اعلیٰ عدالتیں اور دیگر ریاستی ادارے سب دستور کے تابع ہیں اور دستور میں تمام ریاستی اداروں کا دائرہ اختیار (Jurisdiction) متعین ہے۔ علی الاطلاق ((Absolutely نہ پارلیمنٹ سپریم ہے اور نہ عدالتِ عظمیٰ، دونوں دستور کے تابع ہیں۔ اعلیٰ عدالتیں نہ دستور لکھ سکتی ہیں اور نہ لکھے ہوئے دستور کو بدل سکتی ہیں؛ البتہ اُن کے پاس دستور کے آرٹیکلز اور دفعات کی تشریح کا اختیار ہے، جو وہ وقتاً فوقتاً استعمال کرتی رہتی ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ حال ہی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے پی ٹی آئی حکومت کے جاری کردہ پیکا آرڈیننس کو منسوخ کر دیا۔ ماضی میں سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کے این آر او کو منسوخ کر دیا تھا، کیونکہ عدالت کی نظر میں وہ قوانین دستور کے منافی تھے۔ برطانیہ میں چونکہ تحریری دستور نہیںہے، اس لیے اُن کی پارلیمنٹ سپریم ہے، لیکن امریکا سمیت جن ممالک میں تحریری دستور ہے‘ وہاں دستور سپریم ہے؛ البتہ پارلیمنٹ کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ دستور میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے۔
دستور میں قرار دیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی کارروائی (Proceedings) کو کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا، لیکن پارلیمنٹ کی آزادی و خود مختاری (Sovereignty) مُطلَق (Absoulute) نہیں قرار دی جا سکتی۔ ہماری نظر میں پارلیمنٹ کی اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ اراکین پارلیمنٹ اسمبلی میں جو تقاریر کرتے ہیں، اُن پر کوئی عدالت کارروائی نہیں کر سکتی، لیکن اس کا یہ مطلب لیناکہ صدر یا گورنر یا سینیٹ کے چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین، قومی اسمبلی کے سپیکر و ڈپٹی سپیکراور صوبائی اسمبلی کے سپیکر و ڈپٹی سپیکر اگر اپنے آئینی دائرۂ اختیار سے تجاوز کریں تو عدالت اُن پر روک ٹوک عائد نہیں کر سکتی‘ درست نہیں ہے، کیونکہ اس طرح تو کوئی بھی صاحبِ منصب دستوری نظام کو جام کر سکتا ہے۔ اس کا حال ہی میں پوری قوم نے مشاہدہ کیا ہے۔ اس لیے اب دستورِ پاکستان میں اس طرح کے ابہامات (Ambiguities) دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتِ حال کا اعادہ نہ ہو اور قوم عالمی سطح پر رسوائی سے دوچار نہ ہو۔ ہماری نظر میں سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر سید یوسف رضا گیلانی کے حق میں ڈالے گئے ووٹوں کو جو ردّ کیا گیا تھا‘ وہ درست نہیں تھا، کیونکہ اگرچہ امیدوار کے نام اور نشان دونوں جگہ چند ووٹروں نے مہریںلگائی تھیں لیکن وہ مقررہ خانہ کے اندر تھیں‘ باہر نہیں تھیں‘ اس بنا پر پریزائڈنگ افسر نے ان ووٹوں کو رد کر دیا۔ ہو سکتا ہے کہ اگر سپریم کورٹ میں اپیل کر دی جاتی تو اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو بدل دیا جاتا۔
پس اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرمﷺ کے بنائے ہوئے احکام، حدود اور قوانین کے سوا کسی بھی دستور ساز اور قانون ساز ادارے کے بنائے ہوئے قوانین غیر متبدل (Unchangeable) نہیں ہوتے۔ صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّمﷺ کے دیے ہوئے قوانین ابدی ہوتے ہیں۔ اُن کی اطاعت غیر مشروط ہوتی ہے اور کسی کے پاس اُن کو رَدّ کرنے کا اختیار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اور اس کے باوجود کہ اُن پر ہدایت واضح ہو چکی ہو، جو کوئی رسول کی مخالفت کرے گا اور مسلمانوں کے (اِجماعی) راستے سے انحراف کرے گا تو اسے ہم اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے جہنم میں جھونک دیں گے اور وہ برا ٹھکانا ہے‘‘ (النسآء: 114)۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں سے صاحبانِ اختیار ہیں، پھر اگر کسی معاملے میں تمہارے (اور صاحبانِ اختیارکے درمیان) اختلاف ہو جائے تو (حتمی فیصلے کے لیے) اس معاملے کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو، اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، یہی (شعار) بہتر ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے‘‘ (النسآء: 59)۔ اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے: ''قرآن سے رہنمائی حاصل کرنا‘‘ اور رسول اللہﷺ کی طرف لوٹانے کا مطلب ہے: ''رسول اللہﷺ کی سنتِ متوارثہ سے رہنمائی حاصل کرنا‘‘۔ پس جس کا موقف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ مکرّم کے ارشادات کے مطابق ہوگا، اُسے بلا چون و چرا تسلیم کیا جائے گا اور جس کا موقف اس کے خلاف ہو گا، وہ ردّ ہو جائے گا اور کھلے دل کے ساتھ اسے تسلیم کرنا ہو گا، کیونکہ جہاں قرآنِ کریم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے، وہاں یہ بھی فرمایا: ''اور جس نے رسول کی اطاعت کی، اس نے درحقیقت اللہ ہی کی اطاعت کی‘‘ (النسآء: 80)۔
لیکن انسانوں کے بنائے ہوئے قوانین غیر متبدل اور ابدی نہیں ہوتے، وقت کے تقاضوں کے مطابق ان میں رَدّ و بدل کیا جا سکتا ہے؛ چنانچہ انسانوں (عوامی نمائندوں) کے بنائے ہوئے دستور میں ترمیم کا طریقۂ کار بھی درج ہوتا ہے اور پارلیمنٹ دو تہائی اکثریت سے دستور میں تبدیلی لا سکتی ہے، بشرطیکہ ایسی تبدیلی دستور کی روح کے منافی نہ ہو، مثلاً: ''اسلام ریاست کا سرکاری مذہب ہے، قرآن و سنت کو تمام قوانین پر بالادستی حاصل ہے، جمہوریت دستور کی اساس ہے، حقوقِ انسانی کو سلب نہیں کیا جا سکتا اور اس طرح کے دیگر اساسی مسلّمات سے متعلق آئینی دفعات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا‘‘۔