بزعمِ خویش اپنے آپ کو عقلِ کُل سمجھنے والے ایک سوشل میڈیا سکالرآئے دن بعض دینی مسلّمات کا مذاق اڑاتے رہتے ہیں اور اُن کے بارے میں توہین آمیزرویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنی مقبولیت کا معیار سوشل میڈیا پر اپنے پیروکاروں یا اپنے چاہنے والوں( (Fansکی کثرت کو سمجھتے ہیں۔ فیس بک پیج پرآتا رہتا ہے: ''اگر آپ اپنے فالورز بڑھانا چاہتے ہیں تو رقم دیجیے‘ یہ خدمت ہم بجا لائیں گے‘‘۔ تعداد کی قلت وکثرت کبھی بھی انبیائے کرام علیہم السلام کی حقانیت کا معیار نہیں رہی‘ حدیث پاک میں ہے: ''حضرت ابوسعیدؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺنے فرمایا:(قیامت کے دن)ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ دو آدمی ہوں گے‘ ایک نبی آئے گا اور اس کے ساتھ تین آدمی ہوں گے اور اس سے کچھ زیادہ یا کم‘ اس (نبی)سے پوچھا جائے گا:کیا آپ نے اپنی قوم کو (اللہ کا پیغام)پہنچایا تھا؟ وہ عرض کریں گے:جی ہاں! پھر اس کی قوم کو بلا کر پوچھا جائے گا:کیا انہوں نے آپ کو پیغامِ حق پہنچادیا تھا؟ وہ کہیں گے:نہیں! پھر اُس نبی سے پوچھا جائے گا:تمہارے حق میں گواہی کون دے گا‘ وہ کہیں گے:محمد(ﷺ)اور اُن کی امت‘ پھر اُمتِ محمدیہ علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام کو بلایا جائے گا اور پوچھا جائے گا:کیا انہوں نے اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا؟ وہ عرض کریں گے:جی ہاں! پھر امتِ محمدیہ سے پوچھا جائے گا:تمہیں کیسے علم ہوا(یعنی تم تو اُس دور میں نہیں تھے)‘ وہ عرض کریں گے:(اے اللہ جَلَّ جَلَالُکَ!)ہمیں ہمارے نبی مکرم (سیدنا محمد رسول اللہﷺ)نے اس بات کی خبر دی تھی کہ تمام رسولوں نے (اپنے اپنے دور میں ) اللہ کا پیغام پہنچادیا تھا تو ہم نے ان کی تصدیق کی‘‘ (سنن ابن ماجہ: 4284)۔
یہ حدیث اپنے سیاق وسباق کے اعتبار سے سیدنا محمد رسول اللہﷺاور آپ کی امت کے فضائل کے متعلق ہے لیکن اس میں اس حقیقت کا بھی بیان ہے کہ بعض انبیائے کرام علیہم السلام کے پیروکار انتہائی قلیل تعداد میں ہوں گے۔ یہ اُن انبیائے کرام کی ناکامی نہیں ہوگی بلکہ اُن امتوں کی شقاوت اور بدبختی ہوگی کہ انہوں نے انبیائے کرام علیہم السلام کی زبانی دعوتِ حق کو قبول نہیں کیا تھا۔
آج بھی دیکھیں تو پورے عالَم میں مسلمانوں کے مقابلے میں تعداد کے اعتبار سے کفار زیادہ ہیں‘ تو کیا کفار کی تعداد کا زیادہ ہونا العیاذ باللہ!اُن کے حق ہونے کی دلیل ہے یا مسلمانوں کی تعداد کا کم ہونا العیاذ باللہ!اُن کے ناحق ہونے کی دلیل ہے‘ حق وباطل کا معیار ومدار قرآن وسنت ہے‘ دین ہے اور شریعت ہے‘ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں تین مقامات پر قرآن کا اسمِ صفت فرقان(یعنی حق وباطل کے درمیان فرق کرنے والا) بیان فرمایا ہے۔
اصولی بات یہ ہے کہ کائنات کا یہ تکوینی نظام سبب اور مُسَبَّب اور علّت اور معلول کی لڑی میں پرویا ہوا ہے‘ اسی لیے ہم اس کو عالَمِ اسباب کہتے ہیں‘ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت نہ ان اسباب کے تابع ہے اور العیاذ باللہ!نہ ان اسباب کی محتاج ہے‘ بلکہ وہی سبب ومسبَّب( (Cause & Effect)کے تانے بانے کا خالق ہے‘ اسی لیے ہم اس کی ذات کو مُسَبِّبُ الْاَسْبَاب سے تعبیر کرتے ہیں۔ صرف سرسید احمد خاں اور ان کے فکری متبعین نے یہ قرار دیا ہے کہ قوانینِ فطرت((Laws of Natureاٹل ہیں‘ غیر متبدِّل ہیں‘ ناقابلِ تغیّر ہیں‘ لہٰذا اگر قوانینِ فطرت کے خلاف حدیث ثابت بھی ہو اور وہ قوانینِ جرح وتعدیل کے مطابق صحت کے معیار پر پوری بھی اترتی ہو‘ تو اُسے ردّکردیا جائے گا اور کہا جائے گا:''صحابی کو سمجھنے میں غلطی ہوئی ہے‘‘۔ اس کے برعکس امت کا عقیدہ یہ ہے کہ اگرچہ کائنات میں قوانینِ فطرت کارفرما ہیں‘ لیکن یہ اللہ تعالیٰ پر حاکم نہیں ہیں‘ اللہ تعالیٰ جب چاہے مسلّمہ قوانینِ فطرت کے خلاف اپنی قدرت کا ظہور فرماسکتا ہے اور اسی کو'' خارقِ عادت‘‘ کہاجاتا ہے‘ یعنی مدّعیِ نبوت کے ہاتھ پر کسی خارقِ عادت امرکا ظہور ہوجائے تو اُسے ''معجزہ ‘‘کہتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں انبیائے کرام علیہم السلام کے بے شمار معجزات مذکور ہیں اور اگر اللہ کے ولی کے ہاتھ پر کسی خارقِ عادت امر کا ظہور ہوجائے تو اُسے ''کرامت‘‘ کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''سلیمان( علیہ السلام) نے فرمایا:اے درباریو!قبل ازیں کہ وہ (ملکہ سبا کے لوگ)فرمانبردار بن کر میرے پاس آئیں‘ تم میں سے کون ہے جو اس کا تخت میرے پاس لے آئے‘ ایک طاقتور جن نے کہا:(اے سلیمان علیہ السلام!)میں آپ کی مجلس برخاست ہونے سے پہلے وہ تخت لاکر آپ کی خدمت میں پیش کر دوں گااور میں اس کے لانے کی طاقت بھی رکھتا ہوں اور امین بھی ہوں‘ (اس پر)کتابِ الٰہی کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا:اے سلیمان (علیہ السلام!)میں آپ کے پلک جھپکنے سے پہلے اس کو آپ کے پاس لے آتا ہوں‘ پھر جب (سلیمان علیہ السلام) نے اس کو اپنے سامنے رکھا ہوا دیکھا تو کہا:یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ وہ مجھے آزمائے کہ میں (اس کی نعمتوں پر)اس کا شکر گزار بندہ بنتا ہوں یا ناشکری کرتا ہوںاور جو شکر کرتا ہے تو وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو بے شک میرا رب بے نیاز ہے اور بڑا کرم فرمانے والا ہے‘‘ (النمل:39 تا 40)‘ نوٹ: ''قرآن میں ان کا نام مذکور نہیں ہے‘ السنن الکبریٰ للنسائی :10927 میں اُن کا نام ''آصف‘‘ مذکور ہے اور اکثر مفسرین نے اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔ اب ظاہر ہے کہ آصف بن برخیا کے ہاتھ پر اس کرامت کا صدور خارقِ عادت کے طور پر تھا۔ اسی طرح دعویٰ نبوت سے پہلے نبی کے ہاتھ پر کوئی خارقِ عادت امر صادر ہو تو اُسے'' ارہاص‘‘ کہتے ہیں۔ عام مسلمان کے ہاتھ پر کوئی خارقِ امر صادر ہو تو اُسے''معونت‘‘ کہتے ہیں اور کسی کافر ومنکِر اور شعبدہ باز کے ہاتھ پر صادر ہو تو اُسے'' استدراج‘‘ کہتے ہیں۔ حدیث کی معروف کتاب ''مشکوٰۃ المصابیح ‘‘میں ''باب الکرامات‘‘ موجود ہے۔
ہمارے بعض واعظین اور علمائے کرام کراماتِ اولیاء بیان کرتے ہیں تو مذکورہ سکالر ان کے وڈیوکلپ دکھاکر اس کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں: ''لائو ہمیں بھی دکھائو‘‘۔ آپ کسی کی کرامت کو نہ مانیں تو آپ کی مرضی‘ اس کے انکار پر ہم آپ پر کوئی فتویٰ صادر نہیں کریں گے‘ نبی کا خواب اور الہام وحی ہوتا ہے‘ جبکہ غیرِ نبی کا خواب اور الہام وحی نہیں ہوتا اور اس کے منکر پر کوئی حکم عائد نہیں ہوگا‘ حدیث پاک میں ہے:''حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں:رسول اللہﷺنے فرمایا:نیک آدمی کا اچھا خواب نبوت کے چھیالیس اجزاء میں سے ایک جز ہے‘‘ (صحیح البخاری: 6983)۔
اس طرح کا تمسخر تو ہر دور کے کفار انبیائے کرام کا بھی اڑاتے رہے ہیں‘ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:(1)''اور انہوں نے کہا:ہم آپ پر ہرگز ایمان نہیں لائیں گے تاوقتیکہ آپ ہمارے لیے زمین سے کوئی چشمہ جاری کردیں یا آپ کے لیے کھجوروں اور انگوروں کا کوئی باغ ہو‘ پھر آپ اس کے درمیان نہریں جاری کردیں یاجیساکہ آپ کہتے ہیں :آپ ہم پر آسمان کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے گرادیں یا آپ اللہ اور فرشتوں کو ہمارے سامنے لے آئیں یا آپ کے لیے سونے کا کوئی گھر ہو یا آپ (ہمارے سامنے) آسمان پر چڑھ جائیں اور ہم آپ کے (آسمان پر) چڑھنے کو بھی ہرگز نہ مانیں گے تاوقتیکہ آپ ہم پرکوئی ایسی کتاب اتاریں جسے ہم پڑھیں‘ (اے رسولِ مکرّم!) اُن سے کہیے:میرا رب پاک ہے‘ میں تواس کے سوا کچھ نہیں‘ صرف ایک بشر (اور)رسول ہوں‘ اورجب اُن کے پاس ہدایت آچکی تو انہیں صرف اس بات نے ایمان لانے سے روکا کہ اللہ نے ایک انسان کو رسول بناکر بھیجا ہے‘ آپ کہہ دیجیے:اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ضرور اُن پر آسمان سے فرشتے کو رسول بناکر نازل کرتے‘ (بنی اسرائیل:90 تا 95)‘ (2)''اور اگر ہم آپ پر کاغذ پر (لکھی ہوئی)کتاب نازل کریں جسے وہ اپنے ہاتھوں سے چھوئیں‘ (تب بھی)کافر ضرور یہ کہیں گے: ''یہ تو کھلا جادو ہے‘‘ اور انہوں نے کہا: '' آپ پر فرشتہ کیوں نہ اتارا گیا ‘‘اور اگر ہم فرشتہ اتارتے تو معاملے کا فیصلہ ہوچکا ہوتا‘ پھر انہیں مہلت نہ دی جاتی اور اگر ہم رسول کو فرشتہ بناتے تویقینا وہ بشری شکل میں آتاتو پھر ان کو اُسی شبہ میں ڈال دیتے جس میں یہ اب پڑے ہوئے ہیں‘‘ (الانعام:7 تا 9)۔
الغرض یہ مطالبے کرنا کہ اگر یہ کرامتیں درست ہیں تو آج ہمیں یہ کرامتیں کھلے عام دکھادیں‘ ورنہ ہم نہیں مانیں گے‘ یہ انکارِ حق کا وہی حربہ ہے جو ہر دور کے کفار اختیار کرتے رہے۔ آپ کرامات کا مذاق نہ اڑائیں‘ زیادہ سے زیادہ جو آپ کے پاس گنجائش ہے‘ وہ یہ ہے کہ آپ نہ مانیں‘ کیونکہ یہ سب اخبار وروایات نہ قَطْعِیُ الثّبُوت اور قَطْعِیُ الدَّلَالَۃ ہیں اور نہ ضروریاتِ دین میں سے ہیں کہ ان کے انکار پر کسی کی تکفیر کی جائے یااُسے ضالّ ومُضِلّ کہا جائے۔ اوراگر آپ کا مؤقف یہ ہے کہ آپ خارقِ عادت کسی بات کو ہرگز نہیں مانیں گے‘ تو پھر آپ کو معجزات کا بھی انکار کرنا ہوگا‘ جیساکہ سرسید احمد خان‘ غلام احمد پرویز اوردیگر نے معجزات کا انکار کیا ہے اور معجزات کی بابت قرآنِ کریم کی صریح آیات کی مَن پسند تاویلات کی ہیں‘ ایسے لوگ آج بھی موجود ہیں اور آئندہ بھی آتے رہیں گے‘ علامہ اقبال نے کہا ہے:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا اِمرُوز
چراغِ مصطفوی سے شرارِ بولہبی
میں تو اپنے علمائے کرام سے یہ درخواست کرتا رہتا ہوں کہ اولیائے کرام اور علمائے ربّانییّن کی علمی اور عملی زندگی لوگوں کے سامنے بیان کریں‘ جس میں اُن کے لیے نمونہ عمل ہے اور انہیںاُن کے شعار کے اتباع پر آمادہ کریں‘ علم کی طرف راغب کریں۔ سورۂ فاتحہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے انعام یافتہ بندوں کی راہ پر چلتے رہنے کے لیے دعا کی تعلیم فرمائی ہے‘ غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر الجیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے:
دَرَسْتُ الْعِلْمَ حَتّٰی صِرتُ قُطْبًا
وَنِلْتُ السَّعْدَ مِنْ مَوْلَی الْمَوَالِی
ترجمہ: ''میں نے علم حاصل کیا حتیٰ کہ میں مقامِ قطبیت پر فائز ہوا اور میں نے تاجدارِ کائناتﷺسے سعادت کو پایا ہے‘‘۔
آپؒ کی عظیم والدہ ماجدہ نے ایسے عالم میں کہ انہیں آپ کی مدد کی ضرورت تھی‘ انہیں اپنے سے جدا کیا اور جیلان سے بغداد علم حاصل کرنے کے لیے روانہ کیا‘ کیونکہ اس وقت بغداد مسلمانوں کا سب سے بڑا علمی مرکز تھا اور آپ نے پہلے علم حاصل کیا‘ پھر طویل عرصے تک اپنے استاذِ گرامی کی مَسند پر بیٹھ کر تدریس فرماتے رہے اور اس کے بعد ریاضت ومجاہدہ اور تزکیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔